دل کی تو خواہش ہے کہ موسم کے بدلتے رنگوں میں گم ہو کر اس کی رعنائیوں کی محسوس کیا جائے ‘ اس کا تذکرہ کریں‘ رُتوں کے آنے جانے کو الفاظ کا روپ دیں۔ خزاں کی اپنی بہار ہے جو اِن دنوں پوٹھوہار کی شمالی پہاڑیوں کے دامن میں قوس قزح جیسے رنگوں کی چادر اوڑھے دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ تفکر کی راہیں بھی کھولتی ہے۔ موسم اگر ہماری روح کو گدگداتے ہیں تو ہمارے دماغ میں فکر انگیز کسک بھی پید ا کرتے ہیں۔ ہم پیشہ ورانہ مجبوریوں کی جکڑ میں تصورات کی دنیا بسائے آزادی کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں مگر پاؤں میں پڑی بیڑیاں بہت بھاری سہی لیکن انہیں توڑنے کی کوشش کرنا بھی دانائی نہیں۔ دل کی تڑپ زیادہ ہو تو ہر رُت کی بہاریں دور نہیں ہوتیں۔ مگر آج کل بات کچھ اور ہے۔
غزہ جس بربریت کا سامنا کررہا ہے اور فلسطینیوں کی ساری دنیا کے سامنے نسل کشی کی جا رہی ہے‘ اس نے ہمارے اندر ایک طوفان برپا کر رکھا ہے۔کبھی یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ یہ عام موسمی قسم کا آنے جانے والا نہیں‘ بلکہ خدشہ یہ ہے کہ یہ برستی آگ ہمارے فکری رگ و ریشہ میں مستقل جگہ نہ بنا لے۔ اس بے کار علمی دنیا کی ہر نو ع کی وادیوں کا نظارہ ہر زاویے سے کرنے کا موقع نصیب ہوا مگر جوں جوں ہم نے گہرائی میں جانے کی کوشش کی تو کئی جھوٹ اور فریب کاریاں خوش رنگ بیانیوں اورزبان کی حلاوت اور ابلاغ کی مہارت میں چھپی نظر آئیں۔ ہمارے سماجی علوم کی دنیا میں سب سے بڑی صلاحیت بات کرنے کے سلیقے میں ہے۔ یہ کوئی معمولی طاقت نہیں جسے یہ حاصل ہو جائے‘ اس کے معتبر ہونے کے سب شکوک و شبہات دم توڑ جاتے ہیں۔وہ بہت سے سچ بھی تخلیق کرسکتا ہے اور جھوٹ بھی ۔
ہمارے طالب علمی کے زمانے کا امریکی جامعہ کا ایک گروہ جو سیاسی فلسفوں کے اپنے زمانے کے بڑے مدبروں میں سے تھا‘ لکھے ہوئے لفظوں سے ظلم ‘ جبر کی حکمرانی سے آزادی کی راہیں تلاش کرنے کو جستجو اور خود آگاہی قرار دیتا تھا۔ مگر یہ استعداد ہم سب میں کہاں۔ اور یہ بے بس آبادیاں‘ شہر ‘ملک اور ہماری ریاستوں کے مجبور و محکوم لوگوں میں کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ مغربی معاشرے بھی زبان و بیان کی قیود سے آزاد نہیں۔آج کل انہیں کیا سنایا جا رہا ہے‘ کیا دکھایا جا رہا ہے اور غزہ کی جنگ کے جو جواز تلاش کیے جا رہے ہیں وہ آپ بھی یہاں اپنے ملک میں کوئی مغربی چینل کھول کر دیکھ سکتے ہیں۔کسی مغربی اخبار کو پڑھ کر دیکھ لیں تو آپ کو کچھ اندازہ ہو جائے گا کہ کیا کچھ چھپایا جا رہا ہے اور کس انداز سے ظالموں کو مظلوم اور مظلوموں کی ظالم کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔سب مغربی ریاستیں صف بستہ اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں۔ ان کے خزانے اور مہلک ترین ہتھیار بلاروک ٹوک اسرائیل کی دسترس میں ہیں ۔ مغربی سیاسی جماعتوں کے رہنما اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے کو دھکے دے کر آگے نکلنے کی کوشش میں گر پڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگ بندی کی آواز بھی کوئی نکالنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ امریکی ایوانِ نمائندگان ایک فلسطینی نمائندہ خاتون راشدہ طالب ہیں ‘ اُنہوں نے غز ہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کے بارے میں '' دریا سے سمندر تک‘‘ کا فقرہ استعمال کیا تو اس کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی اس پر پل پڑے۔ ایوان نے بڑی اکثریت سے اس کے خلاف قراردادِ مذمت پاس کی۔ لیکن وہ بھی تھے جنہوں نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیے۔جرأت تو دکھائی‘ اپنا حق ادا کر دیا۔ ایسے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ امریکی جامعات میں طلبہ تنظیموں نے اسرائیل کی مذمت میں کچھ مذاکرے اور ہلکے پھلکے جلوس نکالے تو انہیں یہودیوں کے خلاف منافرت پھیلانے کا الزام لگا کر کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ کچھ طلبہ کو جامعات سے معطل بھی کیا جا چکا ہے۔ کوئی استاد اگر جرأت کرے تو مجھے خوب اندازہ ہے کہ وہ زیادہ دیر وہاں ٹھہر نہیں سکے گا۔ کیفیت یہ ہے کہ برطانیہ میں کچھ مقامی حکومتوں نے فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔ جلوسوں کے منتظمین کی نگرانی ہو رہی ہے کہ کہیں فلسطین کے حق میں کوئی نعرہ بلند نہ ہونے پائے۔ مغرب کے حوالے سے یہاں بہت غلط فہمیاں بھی ہیں کہ سب مسلمانوں کے خلاف ہیں اور سب کا مؤقف یکساں ہے۔ ایسا نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ فلسطینیوں کے حق میں بولنے اور جلوسوں میں شرکت کرنے والے ہر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ مسلمان گروہوں کی طرف سے زیادہ لوگ لانے کی تگ و دو کی وجہ سے اکثریت ان کی ہو۔ فلسطینی اپنا قومی مسئلہ مذہب کے حوالے سے پیش نہیں کرتے۔ یہ بھی یہاں پاکستان میں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ فلسطینی قوم کا تاریخی سانحہ ہے اور اس میں عرب مسلمانوں کے علاوہ عرب عیسائی بھی شامل ہیں جو ہمیشہ اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ حماس کا قصہ ذرا مختلف ہے‘ اس کا نقطہ نظر کچھ اور ہے‘ مگر وہ بھی فلسطینیوں کی ہی تحریک ہے۔ اگر ایک طرف ہم طاقت‘ دولت اور مغربی چینلوں پر چھائے ہوئے اسرائیل کے حمایتیوں کی بیان بازی اور سیاسی رہنماؤں کی اسرائیل کے حق میں اقدامات کو دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اسلامی معاشروں میں زمینی سطح پر فلسطین کے بارے میں نئے شعور اور آگاہی کی تحریکیں اٹھتے دیکھ رہے ہیں ۔مغرب میں تو ظاہر ہے کہ بات محدود ترقی پسند‘ آزاد رو حلقوں تک ہی رہے گی۔ سیاست کے مرکزی دھارے کو کبھی متاثر نہیں کرے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس آگاہی کا اثر کس سطح تک ہوتا ہے ۔
اصل خطرہ کہیں اور ہے۔ مراکش سے لے کر ملائیشیا تک کسی نہ کسی سطح پر بے چینی اضطراب اور حکمران طبقات کے خلاف نوجوانوں میں شدید نفرت کا عنصر ایک زمانے سے پروان چڑھتا آرہا ہے۔ موجودہ بے بسی کے عالم میں نظریں تو ظاہر ہے ان پر جائیں گی جن کے پاس اقتدارہے۔ ہمارے ہر نوع کے دانشور کب تک مغرب کو اپنے زوال کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے یااستعماری راج کے گزرے ہوئے زمانوں کو اس کا موجب قرار دیں گے؟ کسی اور ملک کی بات کیوں کریں‘ قریب ہی دیکھ لیں‘ کرسیوں پر کون آتے‘ جاتے اور پھر واپس آجاتے ہیں؟ کبھی آپس میں لڑتے ہیں‘ کبھی ایک دوسرے کو گلے لگا کرشیر و شکرہوجاتے ہیں۔ حکومتوں پر غالب آپ کے اور ہمارے سیاسی خاندان ہی رہے ہیں۔ہمارے نوجوان ہوں یا عرب ممالک کے‘ سب میں یہ احساس گہرا ہو چکا ہے کہ جو ہمارے اوپر مسلط رہتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں یا کرائے جاتے ہیں وہ ہماری زمینوں‘ ہماری عزتوں اور ہمارے مفادات کے ضامن نہ تھے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ ان کے معاملات‘ ان کی دولت ‘ قومی خزانوں سے اڑایا گیا‘ مال اور سیر و سیاحت کی دلچسپیاں کہیں اور ہیں۔ ہم نے لندن کے ہائیڈ پارک کے علاقے میں نہ جانے کتنی مٹرگشت‘ موقع ملنے پر کی ہے‘ ہر طرف سے زبان انگریزی سنائی نہیں دیتی۔ تیسری دنیا کے حکمران طبقات کے خاندانوں کی بھرمار ہے مغرب کے مشہور شہروں میں ۔ یہاں وہی کچھ کرنے آتے ہیں جو پہلے کرتے رہے ہیں۔انہوں نے مغرب کو اپنا دوسرا‘ بلکہ اصل گھر بنا رکھا ہے ۔
عرب بہار اور اس کے رنگ کبھی ختم نہ ہوں گے‘ موسم ضرور بدلے گا۔ ابھی خزاں ہے‘ ہماری بہار بھی آئے گی۔ وہ بہار جو ہمارے اندر کے موسموں کو بھی بدل دے۔ اور وہ وقت ضرور آئے گا جب دریا سے سمندر تک فلسطینیوں کے حقوق کا رنگ سب پر غالب ہوگا۔ ہم ہوں یا نہ ہوں‘ وہ دن ضرور آئے گا۔