دنیا وہ نہیں رہی جو ہم نے کسی زمانے میں دیکھی تھی۔ یہ اتنی تیزی سے بدلی ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ گزشتہ نصف صدی سے کم عرصہ میں عربستان کے صحراؤں میں بہاریں بھی مہکی ہیں اور اکثریت کو غربت کی دلدل سے نکالنے کی کامیاب کوشش بھی کی گئی ہے۔ لوگوں کو جان لیوا بیماریوں سے نجات دلانے میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے چند شعبوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اتنا کچھ اتنا زیادہ بدلنے جا رہا ہے کہ صدیوں کی انسانی مسافت بھی وہ فاصلہ طے نہیں کر سکی‘ جو آنے والے چند ایک عشروں میں ہونے جا رہا ہے۔ اگلے روز دبئی کے ہوائی اڈے پہ چند گھنٹے گزارنے کا اتفاق ہوا تو بہت کچھ ایک لمبی تصویری پٹی کی صورت ذہن میں گردش کرتا رہا۔ ماضی کے کچھ مشاہدات اسی جگہ کے ہیں۔ ٹرمینل کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک گھنٹے تک چلتا رہا اور ارد گرد ہر سمت‘ ہر رنگ و نسل کے ہزاروں افراد کو تیزی سے اگلی منزلوں کی طرف سفر کرنے کے لیے اپنی پروازوں کے مخصوص دروازوں کی جانب تیزی سے قدم اٹھاتے دیکھا۔ یہاں آنے کا تو کئی مرتبہ پہلے بھی اتفاق ہوا ہے مگر آج دکھائی دینے والی کیفیت‘ لوگوں کی تعداد اور اتنی قوموں اور نسلوں کے اس ہجوم کے حوالے سے مختلف نظر آئی۔
خلیج کی ان ریاستوں میں کئی دفعہ ماضی میں چند دن آنے جانے اور وقت گزارنے کا اتفاق ہو چکا ہے۔ ان کی شہری آبادیوں میں عالمگیریت کی خوبیاں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں‘ مربوط منصوبہ بندی کے نتائج ہیں کہ ہم خلیج کے ممالک میں ایک نئی دنیا آباد ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کے بڑے مرکزی شہروں کے بعد اگر آپ جدت اور ترقی کی نئی علامتیں دیکھنا چاہیں تو صرف ان ریاستوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ جاپان نے بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے مگر تصوف اور روایات کا اثر اتنا گہرا ہے کہ وہاں ہر شہر میں جاپانی رنگ نمایاں ہے۔ دوسرے آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تو صورت بالکل الگ ہے کہ مقامی کم ہی نظر آتے ہیں اور کچھ نئے رنگوں میں اتنی تیزی سے ڈھل رہے ہیں کہ شاید مستقبل میں قومی لباس میں کم ہی لوگ نظر آئیں۔
پہلی مرتبہ دبئی میں چند گھنٹے رُکنے کا موقع 1984ء کے آخر میں امریکہ جاتے ہوئے ملا تھا۔ اس وقت کے ہوائی اڈے کے خدو خال اچھی طرح یاد ہیں۔ ایک محدود سی عمارت اور اس کے اندر کوئی چھوٹا سا بازار‘ کوئی بڑا کیفے بھی موجود تھا یا نہیں۔ سستی اشیا فروخت ہوتی تھیں۔ ہمارا شوق ایک عدد شارٹ ویو ریڈیو کا تھا۔ یہ وہاں سے ملا اور کئی سال ہم نے اس ریڈیو کو اپنی ڈیسک پر رکھا اور جہاں بھی جاتے ایک چھوٹے سے بیگ میں اسے ڈال کر ساتھ لے جاتے۔ زیادہ تر وہاں سونے کے زیورات‘ گھڑیاں اور کپڑے کی دکانیں دیکھیں۔ آج کل کبھی آپ دبئی ایئر پورٹ کے تین مختلف ٹرمینلز دیکھیں‘ جن کے درمیان ایک چھوٹی سی ٹرین بھی آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ مختلف پروازوں کیلئے لے جاتی ہے تو قیمتی اشیا سے لے کر کھانے پینے کی مشہورِ زمانہ برانڈز کا عالمی بازار سجا نظر آتا ہے۔ اب چند گھنٹے کچھ نہیں‘ شاید پورا دن چاہیے یہاں سب کچھ دیکھنے کیلئے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک اور اس کے باشندے ہوں جو خلیجی ممالک میں کوئی کاروبار‘ ملازمت یا سیر و تفریح کیلئے نہ آتے ہوں۔ حیرانی تو اس بات کی ہے کہ دبئی اور دیگر ریاستوں میں سیاحت کا میدان اتنا وسیع ہوا ہے کہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں سالانہ اچھا وقت گزارنے کیلئے یہاں آتے ہیں اور اچھے وقت کی آپ کے ذہن میں جو بھی تعریف یا تصور ہو‘ سنا ہے کسی چیز کی کمی نہیں۔ یہاں صرف تیل کا کاروبار نہیں ہوتا دنیا کے سب کاروباروں‘ جن سے پیسہ بنایا جا سکتا ہے‘ کی کھلی چھٹی ہے۔ سب سے بڑا کاروبار تو بنگلوں‘ ہوٹلوں‘ رہائشی کالونیوں اور بڑے بڑے پُلوں اور کئی منزلہ عمارتوں کا ہے۔ سنا ہے پاکستان کے حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے کئی ارب ڈالرز کی صرف عمارتوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اکثر بڑے اور چھوٹے سیاسی گھرانوں کا دوسرا بڑا گھر یورپ اور امریکہ کے بعد خلیج کی ریاستوں میں ہے۔
خلیج کی ریاستوں کے آج کے حکمران وہ نہیں جو کبھی ہوا کرتے تھے۔ دل اب بھی ان کے کھلے ہیں اور سخاوت میں شاید ہی کوئی حکمران طبقہ ان کا مقابلہ کر سکے اور وہ نہایت ہی جدت پسند واقع ہوئے جن کے بارے میں چند دہائیاں پہلے اکثر مبصرین خیال کیا کرتے تھے کہ عرب روایت پرست اور قدامت پسند رہیں گے۔ یہ ہوا بلکہ آندھی جو صحراؤں میں چلنے کیلئے بہت مشہور ہے‘ اب سب سے زیادہ قدامت پسند سعودی عرب تک بھی پہنچ چکی ہے۔ اگلے دس سال میں وہاں بہت کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ سمت مقرر ہو چکی ہے اور رفتار بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے‘ اتنی کہ عجلت کا اندیشہ ہے۔ یہ کم از کم سنی سنائی باتیں نہیں کہ اکثر ترقی پذیر ممالک کے لٹیرے حکمران ہم جیسی بے بس قوموں کا سرمایہ منی لانڈرنگ کرکے ان ممالک کے بینکوں میں رکھتے ہیں۔ اگر اس تاریخی اور مشہور قطری خط کو قابلِ اعتبار سمجھ لیا جائے تو یہ خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس بھی ضرورت کے مطابق اپنی زر و دولت جمع کراتے ہیں یا مشترکہ کاروبار کیے جاتے ہیں تاکہ اپنے ملک میں چوری کی دولت چھپائی جا سکے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ دبئی کی چمک دمک میں تیسری دنیا کے ممالک کے لوٹے ہوئے دھن کا کتنا حصہ ہے مگر یہ کہنا بالکل درست ہے کہ زرِمبادلہ کثیر تعداد میں آئے تو یہ ممالک تو کیا‘ یورپی بھی کوئی سوال نہیں کرتے۔ خلیج کی ریاستوں کا اگر اب ہوائی اڈے سے لے کر شہر کے بازاروں تک مشاہدہ کریں تو ایک بہت بڑی عالمی منڈی کا گمان ہوتا ہے۔ پاکستان کے وہ گھرانے جن کے خواب و خیال ہم عام پاکستانیوں سے مختلف ہیں‘ وہ شاپنگ کیلئے دبئی جاتے ہیں۔ کوشش یہاں بھی وہی ہے کہ ہر آبادی کو دبئی کی شکل دیں‘ مگر آپ کو عالمگیریت کے تمام تقاضے پورے کرنا اور سب کاروبار کھولنا ہوں گے۔ ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے‘ ہم نے یہ سب رنگ اور تماشے دنیا میں گھوم پھر کر دیکھے ہیں۔ یہاںبھی وہی تماشے ہوں گے تو حکمران جانیں اور عوام‘ ہم سڑک کے کنارے یا کسی چوک میں کہیں چائے کا کپ ملا تو سامنے رکھ کر نظارہ کریں گے۔
ہم ترقی پسند لوگوں کا نظریاتی‘ فکری اور تدریسی موضوع ساری زندگی ترقی رہا ہے۔ میں کسی مصنوعی ترقی جو ماحولیات‘ قدرتی ذرائع سے مناسبت نہ رکھتی ہو‘ جس پر مصنوعی پن کا رنگ غالب ہو‘ کے بالکل خلاف ہوں۔ خلیج کی ریاستوں کی‘ جو نیو یارک اور شکاگو کی سکائی لائن کی طرز پر تعمیر کی گئی ہے‘ سے مجھے تو گھن آتی ہے۔ اگر آپ صاحبِ نظر اور فلم بیں ہیں اور اصلی فلم دیکھ ہوئی ہے تو آپ کو چربہ فلم کبھی نہیں بھائے گی۔ ہم نے مغربی شہروں اور اس تہذیب میں زندگی کا ایک حصہ گزارا ہے۔ خلیج میں تو نقل ہی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے حکمران اور رہائشی منصوبوں والے دونوں مل کر نقل کی نقل اتارنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ نقل ہر تاریخی شہر کے ارد گرد انتہائی بھونڈے طریقے سے صرف کالے دھن کو ٹھکانے لگانے کیلئے اور سمندر پار پاکستانیوں کی بچت پر ہاتھ صاف کرنے کیلئے ہو رہی ہے۔ تماشا اپنی زمینوں‘ جنگلوں اور ماحول کی تباہی کا دیکھ رہے ہیں۔ اچھی‘ خوشحال‘ مطمئن اور فطری زندگی گزارنے کا سلیقہ ہی باقی نہ رہے تو لوگ ایسے ہی تماشے کرتے ہیں جو خلیج والوں نے تیل کی دولت کو اجاڑنے کیلئے کیے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ انہیں اس کے علاوہ کچھ سوچنے اور کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا۔