جھوٹ سن کر‘ طاقتور لوگوں کی فریب کاریاں دیکھ کر اور گماشتوں کے مضحکہ خیز افسانوی قصے پڑھ کر ہم کمزور لوگ دل ہارکر رہ جاتے ہیں۔ خاموشی اختیار کرکے کونوں میں بیٹھ جانے کی عادت ہے کہ اپنی پستیوں اور کچھ دیگر نوع کے انسانوں کی بلندیوں کے بارے میں غور و خوض ایسے ہی ممکن ہے۔ انتخابات کا زمانہ تو سامنے ہے اور اگر آپ سامنے آنے والی کہانیوں اور ان کی حقیقت سے آگاہ نہیں تو پھر آپ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ سچ سچ ہوتا ہے‘ جھوٹ اس پر کبھی غالب نہیں آ پاتا۔ وقت کی دھول میں مٹ جاتا ہے اور پھر جب حالات بدلتے ہیں تو سچ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے آج کے ماحول کی سیاست میں غالب مفروضہ یہ ہے کہ گرد و غبار کی اتنی مصنوعی بارشیں برسائی جا چکی ہیں کہ دھند اور سموگ میں چھپے سورج کی طرح پاکستانیوں کو اندھیرے میں کچھ سُجھائی نہیں دے رہا۔ معاملات شاید اس کے برعکس ہوں کہ لوگ تو دیکھ رہے ہیں کہ ابھی تک کیا ہوا ہے‘ کیا ہونے والا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے‘ مگر جنہیں تخت نشینی کے لیے قابلیت کی سندیں مل رہی ہیں‘ وہ طاقت کے نشے میں مست بظاہر پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ کچھ بھی تو پردے میں نہیں۔ جو کچھ ہم دیکھتے اور لکھتے آئے ہیں‘ وہ اگلے ماہ کی آٹھویں شام کو دیکھ لیں گے۔ اس کے بعد کا منظر اور اس میں غالب کردار 16ماہ والی حکومت سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔
تاریخ کا آئینہ اور اس کے صفحات تو ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔ صرف دل لگا کر نظر ڈال لیں تو سچ کی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ آپ کو ایک دل افروز شخصیت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ہیں تو غیرملکی مگر سب کے دلوں میں بستے ہیں‘ جب دھیان ان کی زندگی کی جدوجہد‘ سچائی اور انسانیت کی طرف جاتا ہے تو ہمارے اداس لمحے بے پناہ مسرت‘ اطمینان اور سپاس گزاری میں بدل جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہی شہر میں رہے۔ جہاں کہیں بھی گئے ہیں واپس وہیں لوٹ کر آئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ جب جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو شہر کے میئر اور دیگر اکابرین نے تدفین کے لیے ایسے انتظامات کیے کہ دنیا کے امیر کبیر بادشاہوں کے گھرانے بھی رشک کریں۔ کتنی بھی طاقت اور جاہ و جلال ہو‘ وہ جذبہ‘ خلوص اور اہمیت کسی کو نہیں مل سکتی جو عظیم محمد علی کو زندگی اور پھر آخری سفر میں نصیب ہوئی۔ شہر کی گلاب اُگانے اور بیچنے والی سب سے بڑی کمپنی کو آرڈر ملا کہ پھول کی پتیاں وہاں بچھائی جائیں جہاں قبرستان شروع ہو گا۔ ایسا ہی کیا گیا اور کارواں ان کے اوپر سے گزرا۔ ہزاروں لوگ جو قطاروں میں باہر کھڑے تھے‘ گلاب کی پتیوں پر ٹوٹ پڑے۔ ایک ایک‘ دو دو پتیاں اُٹھا کر یادگار تحفے کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسا خلوص اور محبت صرف سچ کے ساتھ مشکل وقت میں بھی کھڑے رہنے والوں کے نصیب میں ہے۔ باکسر اور چمپئن پہلے بھی پیدا ہوئے اور بعد میں بھی مگر محمد علی کی عظمت کا راز تین بار عالمی ہیوی ویٹ چمپئن بننے میں نہیں‘ سچ بولنے اور اس کے لیے ہر سزا کے لیے تیار رہنے میں ہے۔
علی کی عمر فقط 25سال تھی اور باکسنگ کی دنیا میں بڑا نام پیدا کر لیا تھا جب امریکی فوج نے انہیں ویتنام جنگ میں لام بندی کے لیے بلایا۔ 58ہزار 220امریکی اس جنگ میں جاں بحق ہوئے اور چھ لاکھ واپس آنے کے بعد کئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہے۔ ہم نے تو خیر تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا مگر ہمارے امریکی دوستوں نے کون سے سبق حاصل کیے ہیں۔ ابھی تین سال بھی نہیں گزرے‘ ہمارے پڑوس میں 20سال تک ایک پسماندہ ترین ملک کے لوگوں کے خلاف جنگ لڑ کر ویت نام سے بھی بدترین صورت میں واپس چلے گئے ہیں۔ بات تو محمد علی کی ہو رہی تھی۔ اس نے کہا کہ میرا مذہب‘ میرا ایمان اور میرا فلسفہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں ایک غریب ملک میں جا کر لوگوں پر بم برساؤں‘ گولیاں چلاؤں اور قتل کروں۔ معلوم تھا کہ کیا نتائج نکلیں گے۔ حکومت نے مقدمہ چلایا‘ پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا ہوئی۔ باکسنگ کے تمام اعزازات اور تحفے واپس لے لیے اور باکسنگ پر پابندی لگا دی۔ جس غربت اور کسمپرسی کی زندگی سے نکل کر وہ آئے تھے‘ یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ اس وقت کے حالات کے تناظر میں ایسی بات بہت کم لوگ کر سکتے تھے۔ امریکہ کے غالب طبقوں اور میڈیا کی طرف سے محمد علی پر تنقید کے زہریلے تیر برسائے گئے کہ محبِ وطن نہیں‘ امریکہ سے اس کی وفاداری مشکوک ہے۔ اس عظیم شخص نے کبھی کسی سے زندگی بھر کوئی شکایت نہ کی۔ جیل میں کچھ وقت گزار کر ضمانت ہو گئی اور اس کا مقدمہ چلتا چلتا سپریم کورٹ پہنچا تو نو میں سے آٹھ جج حضرات نے بری کر دیا۔
اگر آپ نے محمد علی کی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا تو میرے خیال میں آپ خود کو عظمت‘ انسانیت‘ خود اعتمادی اور جہدِ پیہم کے جذبوں اور سچ کی طاقت سے محروم کر رہے ہیں۔ 18سال کی عمر میں 1960ء کے اولمپکس میں گولڈ میڈل لے کر آئے تو ان کے دل میں تھا کہ سارا امریکہ گھروں سے باہر نکل کر ان کا استقبال کرے گا۔ ہوا یہ کہ نیویارک میں کسی عام سے ریستوران میں گئے اور برگرکے لیے آرڈر دیا تو سفید فام بیروں نے انکار کر دیا۔ یہ کہانی انہوں نے کئی بار ٹیلی ویژن شوز میں ہنسی مذاق میں سنائی۔ اس دور کا امریکی سماج بالکل مختلف تھا۔ سیاہ فام لوگوں کو مساوی حقوق میسر نہ تھے اور نسلی علیحدگی جنوبی ریاستوں میں برقرار تھی۔ ابھی سول رائٹس تحریک کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔
اپنے شہر‘ محلے اور دنیا میں محمد علی کاسیس کلے کے نام سے مشہور تھا۔ اپنی پہلے باکسنگ کے مقابلے میں فتح یابی کے ایک دن بعد اعلان کیا کہ ان کا نام محمد علی ہے اور وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ کیا جرأت تھی اور کیا ایمان تھا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سوچ میں نہ پڑے کہ اس کے اثرات کریئر پر کیا مرتب ہوں گے۔ زندگی بھر وہ مظلوموں کے ساتھ رہے‘ ان کے حقوق کی بات کی اور جو کچھ انہیں ملا ہاتھ اور دل کھول کر مظلوم لوگوں کی مدد کی۔ آج تو امریکہ میں بلیک پرائڈ کی بات کرتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے مگر محمد علی نے اپنی اُبھرتی جوانی میں جب یہ کہا کہ میں خوبصورت ترین آدمی ہوں تو اپنی نسل کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ غلامی کے احساس سے نکلیں۔ وہ انسانی حقوق کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اپنی شہرت‘ جاذب شخصیت کے ذریعے لوگوں میں شعور بیدار کرتے رہے۔ محمد علی اور قسم کے مسلمان تھے جو اکثر ہمیں دیکھنے میں نہیں ملتے۔ بلا تفریق مذہب‘ عقیدہ‘ رنگ اور نسل‘ سب لوگوں سے محبت تھی۔ خدمت کا جذبہ سب کے لیے تھا۔ وہ مسیحی اداروں اور چرچوں کے لیے نہ صرف ذاتی طور پر مالی امداد کرتے بلکہ ان کی مالی حالت بہتر کرنے کے لیے مہم میں شریک ہوتے۔ باتیں بہت ہیں‘ جگہ کم۔ امریکہ کو بھی اس کا کریڈٹ جاتا ہے اور اس کے سماج کو بھی کہ اس نے محمد علی کو وہ عزت اور مقام دیا ہے جو قومی ہیرو کو دیا جاتا ہے۔ محمد علی مذہب‘ نسلی گروہ یا سیاسی دھڑے بازی سے ماورا رہے ۔ لوگ جس عقیدت مندی اور خلوص سے اُنہیں یاد کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ لوئس ویل (Louisville) ائیرپورٹ ان کے نام پر ہے مگر نام تو دِلوں رہتے ہیں۔