اکثر لوگ شاعروں کو بس شاعر سمجھ کر اُن کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے کہ ان کا روزمرہ زندگی کی حقیقتوں سے تعلق اُن کے نزدیک نہیں ہوتا۔ میرا خیال اس بارے میں مختلف ہے کہ تفکر‘ گہری سوچ‘ تڑپ اور جذبوں کے بغیر نہ سفر کیے جا سکتے ہیں نہ سننے اور پڑھنے والا ان سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ میرے قبیلے کے لوگ جوکچھ کہتے اور لکھتے ہیں‘ ہمارے دوست کم ہی اہمیت دیتے ہیں کہ آپ کیوں سر کھپا رہے ہیں کہیں اثر تو ہوتا نہیں اور طاقتور حکمرانوں نے وہی کرنا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ معاشرتی زوال‘ سیاسی بگاڑ اور منظم کرپشن کی داستانیں گھر گھر‘ گلی گلی پھیلی ہوئی ہیں۔ لوگ مایوسیوں میں خوش رہ کر اپنا اچھا وقت گزارنے کے مفت مشوروں سے فیضیاب کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتتے۔ دل زندہ ہو تو شاعروں کی موسیقیت اور ہر نوع کے لکھاریوں کی تحریروں میں یاس کی تہہ میں بھی امید کی چنگاریوں دیکھ سکتے ہیں۔ اضطراب اور فکرمندی تو فرد اور معاشروں کو تاریکیوں میں بند کر کے دائمی عذاب میں مبتلا کر دیں‘ اگر امید کی کھڑکی سے در آنے والی روشنی ماند پڑ جائے۔ ہماری تاریخ ایسے مشاہدات اور ثبوتوں سے بھری پڑی ہے۔ بڑے بڑے خود تراشیدہ بتوں کے سامنے جب لب کشائی کرنا جرم ٹھہرا۔ استاد دامنؔ‘ فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ سمیت نہ جانے کتنے صحافی اور دانشور تھے جنہوں نے اپنے قلم اور لفظوں کی لاج رکھی۔ ہر مزاحمتی فکر‘ تحریک اور تحریر میں آپ کو امید کے چراغ جلتے نظر آئیں گے۔ ہماری قوم نے کتنے برُج ماضی میں گرائے۔ اہلِ صفا نے بتوں کو زمین بوس کیا اور یادداشتوں میں انہیں جن القابات سے یاد کیا جاتا ہے ان کا ذکر کرنا بھی ہمیں مناسب نہیں لگتا۔ سب اُڑ گئے‘ خاک میں مل گئے اور آخر تاریخ کے کباڑ خانے میں ڈھیر ہو گئے۔ ماضی کی طرف نگاہ دوڑائیں تو سب کردار آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔
ایک بات یاد رکھیں‘ قومیں کبھی مرتی نہیں نہ وہ خود شکنی‘ تنزلی اور بربادی کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ قومیں اجتماعیت سے تعمیر ہوتی ہیں اور ان کی فطری ساخت میں دانش مندی‘ عقلیت‘ بقا اور عروج روح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسی نشانیاں ہیں کہ طوفان پہ طوفان برپا ہوں اور ناخدا بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہوں‘ وہ کبھی زیر آب نہیں آتیں‘ ڈبکیاں کھاتی باہر نکل آتی ہیں اور ایسے ہی ہچکولوں میں تباہی کے پانیوں میں دھکیلنے والوں کوغرقِ آب کرتی ہیں۔ پاکستانی قوم زندہ ہے۔ اپنی شخصی آزادی اور خاندانی مفادات میں اس کی قسمت سے کھیلنے والوں کا انجام ہم دیکھ چکے۔ اس بارے میں کسی کو کوئی شک ہے تو آٹھ فروری کے انتخابات کو دیکھ لے۔ نگرانوں کے دور کے بدترین ہتھکنڈوں‘ تشدد‘ اغوا‘ چادر اور چار دیواری کی بے حرمتی اور ایک جماعت کے لیے تمام راستے بند ہونے کے باوجود نوجوانوں نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ ظاہر ہے کہ سب بندوبست کرنے کے بعد مورثیوں کو یقین تھا کہ واضح اکثریت جاتی امرا والوں کی ہو گی۔ انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو سب حواس باختہ ہو گئے‘ سب ایوانوں میں گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں اور دو تہائی اکثریت کا خوف اس قدر بڑھ گیا کہ آخر وہ قدم انہیں اٹھانا پڑا جو ایسی تدبیروں میں ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی تھا کہ میدان میں سب میراتھن دوڑ میں تھے‘ساری قوم کی نگاہیں وہاں لگی ہوئی تھیں‘ مگر جن پر بھاری شرط لگی ہوئی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہے تھے اور دوڑ میں آگے وہ تھے جن کے نام کبھی آپ نے سنے تھے اور نہ ہم نے۔ حادثے سے بچنے کے لیے تماشا آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اور پھر اگلے دن دوپہر کے بعد اعلان پہ اعلان ہونے لگا کہ کون جیتا‘ کون ہارا اور کون کہاں اور کیسے آگے رہا۔ حواس باختہ موروثی حکمران‘ سیاسی گھرانے اور ان کے گماشتے جو بھی کہتے رہیں عوام کی نظروں میں یہ اب راز نہیں۔ جیتنے اور ہارنے والوں نے جو اعداد و شمار اور فارم جمع کیے ہوئے ہیں‘ سب پر حقیقت واضح ہو چکی ہے۔ نہ جانے تضادات‘ مکر و فریب اور جھوٹ کی سندیں ہاتھوں میں لینے والے کیسے سکون میں رہتے ہوں گے۔ کچھ سنا ہے کہ ضمیر مردہ ہو جائے تو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنے میں کوئی خلش محسوس نہیں ہوتی۔
ایک بڑے معتبر اور حکمرانوں کے معتمد سابق کمشنر راولپنڈی کا ضمیر آخرکار جاگ اٹھا کہ وہ 13 حلقوں کے نتائج تبدیل کرنے اور اس طرح عوام اور قوم کی حق تلفی پر وہ شرمندہ ہیں‘ قوم سے معافی کے طلبگار ہیں اور کچھ ایسے عہدیداروں سمیت سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس اچانک اور غیر متوقع انکشاف کے بعد اطلاعات کے مطابق‘ انہیں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ یہ بھی آپ نے سنا ہو گا کہ یہ قدم اُن کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ان کا بیان آتے ہی روایتی سیاست دانوں کے حمایتی میدان میں ایسے کودے جیسے تیراک کسی ڈوبتے کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ کل تک جو ملک کے حساس ترین شہر اور تین چار اضلاع کا سب سے بڑا افسر تھا‘ اچانک ذہنی مریض اور پاگل قرار دیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ وہ کہہ بھی کیا سکتے تھے۔ اب جو بھی وہ کہانیوں کے تانے بانے بُنیں اور لیاقت علی چٹھہ کی زندگی کے جو بھی پوشیدہ اوراق قوم کے سامنے رکھیں‘ تیر تو کمان سے نکل چکا۔ آپس کی بات ہے چٹھہ صاحب نے کوئی بڑا بند نہیں کھولا۔ سب لوگ جانتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ باہر کی دنیا بھی جانتی ہے۔ انہوں نے اندر کی بات اُگل دی ہے‘ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا ئی ہے اور موروثی اب اسے مضحکہ خیز بیانیوں اور ہر کاروں کی تند و تیز یلغار سے کھڑا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انتخابات کی لنکا ڈھیر نظر آتی ہے۔ اصل جیتنے والوں سے کوئی سمجھوتا ہو تو شاید اس میں نئی روح بیدار ہو جائے مگر یہ خواہش دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔
اگر یہ تاریخ اور حقائق نے ثابت کر دیا کہ انتخابات کے نتائج منظم‘ دانستہ اور دیدہ دلیری سے تبدیل کیے گئے ہیں تو اس میں ملوث سب کردار قوم اور ملک کے دشمن قرار پائیں گے۔ ہم ''اگر‘‘ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ابھی جو باتیں ہو رہی ہیں‘ یہ الزامات حسبِ ضابطہ ثابت نہیں ہوئے۔ شاید وہ وقت آنے میں وقت لگے کہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوں اور کوئی رپورٹ عوام کے سامنے رکھی جائے۔ یہ پہلے انتخابات ہیں جن کے نتائج میں سب پارٹیاں‘ سوائے کراچی کے ایک لسانی گروہ کے‘ جسے توقعات سے زیادہ نواز کر شہر کی سیاست پر مسلط کیا گیا ہے‘ برملا کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ ہر صوبے میں اصل جیت کا دعویٰ کرنے والی پارٹیوں نے احتجاج کی سیاست کا آغاز کر دیا ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے دھرنے اور بہت بڑے جلسے انتخابی ردو بدل کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی طرف پہلا بڑا قدم ہے۔ دیکھتے ہیں کہ موروثی خاندانوں کو عوام نے تو رد کر دیا ہے‘ اب اقتدار کے ایوانوں میں وہ سکون سے وقت گزار سکتے ہیں؟ انتخابی بدعنوانی کا بت جتنا بھی باریکیوں سے تراشا جائے عوام کے غیظ و غضب کی تاب نہیں لا سکتا۔ ایک بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان نہ پوتن کا روس ہے اور نہ ہی معمر قذافی کا لیبیا۔