اس علاقے کو‘ جو تین تاریخی ریاستوں پر مشتمل ہے‘ ہم سرائیکی وسیب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ وادیٔ سندھ کے قدیم زمانوں سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔ ان تاریخی ریاستوں کو آپ شاید بھول چکے ہوں۔ یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ سامراج اور بعد کے سیاسی جھٹکوں نے ان کی شناخت مٹا دی۔ ڈیرہ غازی خان‘ ملتان اور بہاولپور۔ یہ تین ریاستیں تھیں جن کا میں ذکر کررہا ہوں۔ موجودہ پنجاب کے انتظامی ڈھانچے میں یہ اب ''ڈویژن‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ عجیب انگریزی نام اب ہماری زبان میں اتنا رَچ بس چکا ہے کہ ہمارا ذہن اس کے اصلی معنی کی طرف جاتا ہی نہیں‘ جس کا مطلب تقسیم ہے۔ غالباً انگریزوں نے پنجاب کے وسیع علاقوں کو اور بعد میں وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے مختلف انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا تو کہیں یہ ''ڈویژن‘‘ بھی نکل آیا۔ اگر کہیں تاریخ‘ ورثہ اور ثقافت کی اہمیت ہوتی تو یہ تینوں صوبوں اور ریاستوں کی صورت وفاق کا حصہ ہوتے۔ خیر ہمارے حکمران طبقات کو تاریخ سے نہ آگاہی کی توفیق ملی ہے اور نہ ہمارے معاشرے کو خوبصورت ثقافتی رنگا رنگی کی حساسیت نصیب ہوئی ہے۔ ثقافتی اور لسانی حدیں تو جنوبی پنجاب کے اوپر شمال کے اضلاع تک جاتی ہیں اور سماجی توقعات کی نوعیت بھی جاگیرداری نظام کے حوالے سے یکساں ہے۔ جنوبی پنجاب اور اس کے شمالی اضلاع میں سیاسی اور سماجی طور پر دو قسم کے گھرانے اب تک قابض رہے ہیں‘ گدی نشین اور موروثی مخدوم جن کی خدمت کرنا مقامی عوام کے مذہبی اور سماجی فریضے میں شامل ہے۔ دوسرے قبائلی سردار ہیں جو زیادہ تر بلوچ اور پٹھان قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جن کی ان تین ریاستوں میں یا تو حصہ داری تھی یا اپنا مخصوص علاقہ تھا جو ان کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ایک غلط فہمی ہے کہ یہ جاگیر دار گدی نشین طبقہ انگریزوں نے ان کی وفاداری کی وجہ سے پیدا کیا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ طبقہ پہلے سے ہی موجود تھا۔ مغلیہ سلطنت ہو یا یہاں بننے اور بگڑنے والی چھوٹی چھوٹی جاگیردار سلطنتیں‘ سب جاگیریں بانٹ کر ٹھیکہ وصول کرتیں‘ وفاداروں کو نوازتیں اور باغیوں سے سب کچھ چھین لیتیں۔ انگریزوں نے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں پورے ہندوستان میں مستقل بندوبستی نظام متعارف کرایا اور جاگیریں جن جن کے پاس پہلے سے موجود تھیں‘ ان کی ملکیت قرار دے دیں۔ نہری نظام پنجاب اور ریاست بہاول پور میں بنا تو جہاں کاشت کار قوموں کو مشرقی پنجاب سے لا کر زمینیں مفت الاٹ کی گئیں‘ وہاں کچھ طاقتور خاندانوں کو بے حساب جاگیریں بھی ملیں۔ دنیا میں ہر جگہ سامراجی نظام کو چلانے کے دو پہیے تھے‘ ایک جدید ریاستی نظام جو آہستہ آہستہ فوج‘ پولیس‘ عدالتوں اور نوکر شاہی کی صورت نئے خطوط پر استوار کیا گیا اور دوسرا معاشرے کا جاگیر دار طبقہ‘ جسے مزید طاقتور بنانے اور انگریز حکومت سے جوڑنے کے لیے انتظامی اور عدالتی اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ ہم انگریز سے تو آزاد ہو گئے مگر یہ طبقہ اسی طرح اپنی جگہ قائم رہا اور اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ‘ زمین‘ آج تک ان خاندانوں کے پاس موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی آبادیاں بڑھتی گئیں اور زمین تقسیم در تقسیم ہوتی رہی مگر غلبہ قائم رکھنے کیلئے اب بھی کافی ہے۔ آزادی سے قبل اور اس کے بعد کی انتخابی سیاست میں صرف سردار‘ جاگیردار اور مخدوم ہی اسمبلیوں میں جا سکتے تھے۔ عام لوگ اپنے اپنے حلقوں کے مخدموں اور جاگیرداروں کی شان بڑھانے کے لیے انتخابات کے دن ڈھول بجاتے‘ ناچتے گاتے‘ قطاروں میں کھڑے ہو جاتے اور اپنی جدی پشتی وفاداری کا ثبوت بڑھ چڑھ کر پیش کرتے۔
نہ جانے کتنے ہم ایسے انتخابات جنوبی پنجاب میں دیکھ چکے تھے کہ بڑے بڑوں کے درمیان مقابلے بازی ہوتی جن کا تعلق ایک ہی خاندان یا بظاہر حریف مخدوموں اور جاگیرداروں سے ہوتا۔2024 ء کے بارہویں قومی انتخابات میں سارے پاکستان کے عوام نے پرانے‘ خستہ حال سماجی و سیاسی ڈھانچے کو گرتی ہوئی دیوار کی طرح زور دار دھکا دے کر زمین بوس کردیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہم ایک معروف نعرہ 'گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘ لگاتے مگر اس کا مفہوم جنوبی پنجاب کے جاگیرداری معاشرے کے لوگوں نے پہلی مرتبہ عملی طور پر سمجھا دیا۔ یہ سماج بھی ایک عرصہ سے تاریخی تغیر و تبدل کے مراحل سے گزرتا چلا آ رہا ہے۔ پھیلتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام‘ تعلیم‘ مواصلات اور وسیع پیمانے پر اندرونی اور بیرونی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ دہائیوں سے نئی معیشت نے جنوبی پنجاب میں بہت بڑا متوسط طبقہ پیدا کیا ہے۔ لاکھوں چھوٹے چھوٹے زمیندار گھرانے پیدا ہونے کے علاوہ تاجر اور پیشہ ور آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور عنصر بیرونِ ملک پاکستانیوں کا وہ سرمایہ ہے جو انہوں نے اپنے علاقوں میں تجارت‘ زمینداری اور دیگر پیداواری شعبوں میں لگایا ہے۔ انگریز دور کے مشرقی پنجاب سے لائے گئے آباد کاروں اور آزادی کے بعد یہاں بسنے والے مہاجروں نے جنوبی پنجاب کی سماجی ساخت میں مسابقت‘ بیداری اور انتخابی سیاست میں نیا رنگ بھرا ہے۔ یہ لوگ نسبتاً غلامی کی روایتی زنجیروں سے آزاد‘ ترقی پسند‘ تعلیم یافتہ‘ سرکاری شعبوں اور نجی سرمایہ کاری میں اپنا مقام کم از کم شہری حلقوں میں قائم کر چکے ہیں۔ بہاول نگر‘ بہاول پور اور ملتان کے اضلاع میں کچھ حلقوں میں یہ فیصلہ کن کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اصل اور انقلابی تبدیلی جو حالیہ انتخابات میں ہم نے دیکھی ہے‘ وہ جنوبی پنجاب کے مخدوموں اور جاگیرداروں کا تختہ اُلٹنا ہے۔ مغلیہ دور سے مسلسل چلتا ہوا نظام جس کا سہارا دہلی‘ لاہور اور بعد میں اسلام آباد کے اصلی حکمران تھے‘ اسے چولستان کے ریگستان میں نامعلوم جگہ پر عوام نے دفن کر دیا۔ اس علاقے میں گزشتہ ہفتے دو دن سفر اور ایک دن قیام کے دوران ملاقاتیں تو بہت محدود رہیں مگر جہاں رُکا اور بات کی‘ معنی خیز مسکراہٹیں‘ خوشی سے لبریز چہرے اور چمکتی آنکھیں ایک نئے دور کی نوید سنا رہی تھیں۔ آپ جیت کے ان اعلانات پر نہ جائیں۔ اصل جیتنے والوں کا نام پاکستانی سماج کے دل کے اندر کے خانے میں مہر ثبت کر چکا۔ آخر کار گرتی ہوئی دیواروں کو جو حتمی طور پر گر چکی تھیں‘ کو وہی سہارا نصیب ہوا جو ماضی میں اسے ملتا رہا ہے۔ اب دیواریں نہیں ہیں‘ کچھ بھی اوجھل نہیں‘ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے حلقوں سے نہ جانے کتنے امیدوار ہیں جو جیت چکے ہیں مگر ہم ان کا نام تک نہیں جانتے۔ بالکل نئے متوسط طبقے سے اور پہلی بار انہوں نے انتخابی سیاست میں محبوب جماعت کے نام پر قدم رکھا تھا۔ اس وقت صرف رحیم یار خان حلقے کی بات کرتا ہوں۔ چھ قومی اسمبلی کے حلقوں سے تین آزاد امیدواروں کے جیتنے کا اعلان تو ہو چکا مگر حتمی سند ملنا باقی ہے۔ دیگر تین حلقوں میں بھرم رکھنے کے لیے دو مخدوم اور ایک جاگیردار اپنی گدی بچانے میں سہاروں کے ذریعے کامیاب ہوئے ہیں۔ رئیس ممتاز مصطفی چاچڑ ایک وکیل ہیں۔ نام سے تو عرصہ سے واقف ہوں‘ کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ میاںوالی قریشان کے طاقتور گدی نشینوں میں سے مخدوم ہاشم جواں بخت‘ جو تحریک انصاف کی پنجاب حکومت میں وزیر خزانہ تھے‘ کے مقابلے میں تھے اور کئی ہزار کی لیڈ سے جیتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جیت کی سند حاصل کرنی ہے تو جن کے نام پر آپ نے کامیابی حاصل کی ہے‘ انہیں چھوڑیں اور تخت لاہور کے وارثوں میں شامل ہوجائیں۔ اصل نتائج کو دیکھیں تو بڑے بڑے بت پاش پاش ہو چکے مگر نظریۂ ضرورت کے تحت ان میں مصنوعی روح پھونک کر حلفِ وفاداری کی تقریب کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بدلے ہوئے پنجاب اور بدلے ہوئے پاکستان میں یہ مصنوعی بارشیں اور نوازشات شاید زیادہ دیر تک سہارا نہ بن سکیں۔ یہ سب کس نے بدلا‘ پھر کبھی سہی۔