"RBC" (space) message & send to 7575

لوگ تو آگے نکل گئے مگر

ایک زمانہ تھا جب گفتگو ہوتی تھی کہ سماجی ترقی کم ہو تو ریاست کسی حد تک فعال اور مستعد تو ہو سکتی ہے مگر سیاسی طور پر بدحال رہے گی۔ یہ بھی کہ معاشی ترقی کے بغیر جمہوریت اور اس سے جڑی سیاسی ثقافت کا سفر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ سیاسی ترقی کا بھی ایک معیار متعین ہے جو پتھر پر لکیر تو نہیں مگر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی ملک کہاں پہ رکا ہوا ہے اور کون اگلی منزلوں کی طرف گامزن ہے۔ بات تو عام اور سادہ سی ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام میں جڑیں بنا چکی ہیں‘ لوگ سیاسی عمل اور اداروں پہ اعتماد رکھتے ہیں‘ قانون و انصاف کی حکمرانی کا ماحول ہے جس میں ہر عام و خاص سے برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جاتا ہے۔ عوام ڈنڈوں کی برسات میں بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر کے مخلص اور ایماندار نمائندوں کو چُن کر اسمبلیوں میں عزت افزائی کرتے ہیں۔ قانونی احتساب اور دیانت داری کے اوصاف سیاسی ترقی کی پہچان کی بنیادی علامتیں ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو عام ہمارے اَن پڑھ دیہاتی‘ جنہیں ہمارے روایتی حکمرانوں نے اس حال میں رکھا ہوا ہے‘ ان سے کبھی پوچھیں کہ آپ اپنے نمائندوں کو کیسے دیکھتے ہیں تو چائے کی پیالی کا پہلا گھونٹ پینے سے پہلے آپ کے سب دانشورانہ فلسفوں کی گتھیاں سلجھا دیں گے۔ میں اگر یہ عرض کروں تو آپ برا نہ منانا‘ شہروں کی نسبتاً کم سماجی اور معاشی ترقی کے باوجود ہمارے لوگ باشعور ہیں اور موقع کی مناسبت سے نہ صرف جرأت مندی سے حکمرانوں سے سوال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ چپکے سے‘ پرچی کے زور پر ان کا تختہ بھی الٹ دیتے ہیں۔ اس بارے میں اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔
اس ماہ کی آٹھ کو جو ہوا وہ تاریخ کے صفوں پر لکھا جا چکا۔ سیاسی شعور صرف اداروں میں رہ کر تعلیم کی سند لینے سے پیدا نہیں ہوتا۔ معاشرت بھی تو کھلی کتاب ہے۔ آنکھیں‘ ذہن اور مشاہدہ بھی تو انسانوں کی تربیت کرتا ہے۔ اور جو کئی دہائیوں سے دو‘ تین حکمران خاندان ان کے ساتھ کرتے رہے ہیں‘ وہ ذہن سازی میں کوئی کردار رکھتے ہیں کہ نہیں۔ باقی کسر انگریزوں کی ایک‘ دو ایجادات نے پوری کر دی ہے۔ فون اور اس پر چلائی جانے والی رنگین پٹیاں‘ سہل پیغام رسانی اور زبان و کلام کی آزادی کا ایسا استعمال کہ انگریز بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائیں۔ ایسے ہی تو ہمارے ہاں مخصوص قانون نہیں بنائے جا رہے کہ سرکار کی معین کردہ حدود سے نہ تو فضا میں برقی لہریں سفر کر سکتی ہیں اور نہ ہی طاقتوروں کے کردار کے بارے میں کوئی بات کر سکتا ہے۔ اس لیے تو ہم جیسے کمزور دل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مبینہ ردوبدل کی کارروائیوں کے بارے میں کوئی سوال بھی نہیں کرتے کہ یہ بھی توہین کے زمرے میں آسکتا ہے۔ مگرلوگوں کی بات اور ہے کہ آپ کتنے لوگوں کو مہم چلانے کے الزام میں پکڑیں گے‘ کتنوں کی زبان بندی کریں گے۔ لوگ تو کہیں آگے نکل گئے ۔ ہمارے حکمران سیاسی پسماندگی کا شکار‘ وہیں منجمد ہیں جہاں ہم نے ستر سال پہلے دیکھا تھا۔
حکمرانوں میں سیاسی بالیدگی اقتدار سے پیدا نہیں ہوتی۔ وہ تو طاقت کے نشے میں رہتے ہیں اور اسی حالت میں رہنے کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ دیکھا نہیں کہ کس شان و شوکت کے ساتھ ایک سیاسی گھرانا مرکز میں پانچویں بار‘ پنجاب میں ساتویں بار اور دوسرا وفاق میں چوتھی بار اور سندھ میں آٹھویں بار اگلے پانچ سال کے لیے حکومت کرے گا۔ ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں‘ ہم تو خوش ہیں کہ 'تجربہ کار‘ حکمران جو ہماری قوم کی زندگی کے سب کلیدی شعبوں کو چلانے کی مہارت رکھتے ہیں‘ ایک دفعہ پھر‘ ہمارے پرانے وقتوں کے فلمی اشتہاروں کی زبان میں‘ آپ کے شہر میں آ رہے ہیں۔ یہ اُن کی قابلیت اور اوصافِ حمیدہ اور قوم و ملک کی خدمت کا ریکارڈ ہی تو ہے کہ انہیں اقتدار کی ذمہ داریوں سے سرفراز کیا گیا ہے۔ مسئلہ اُن کا نہیں‘ مسئلہ تو بیچارے عوام کا ہے کہ خواہ مخواہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں تو کبھی ایسا نہیں ہوا مگر جہاں ایسا ہوتا ہے کہ عوام کی مرضی کے خلاف حکمران بزورِ طاقت مسلط ہو جائیں‘ یا کر دیے جائیں اور عوام اپنے سیاسی سفر میں ان کی نسبت بہت آگے نکل چکے ہوں تو معاشرے میں اضطراب اور بے چینی کا پیدا ہو جانا فطری بات ہے۔ اس کے ساتھ تو اسمبلیوں‘ ایوانوں‘ وزیروں‘ مشیروں اور نگرانوں پر اعتماد کی وہ کیفیت ہو جو ہم ایک عرصہ سے دیکھ رہے ہیں تو استحکام کی توقعات دیوانوں کا خواب بن کر رہ جائیں گی۔ اس سے کہیں زیادہ ہمیں تو نظر آ رہا۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے۔بار بار یہ لکھنے سے اکتاہٹ ہو جاتی ہے کہ کئی دہائیوں سے بحران در بحران کی حالت میں ہم جا رہے ہیں۔ مجھے جنوبی پنجاب کی وہ گرمیاں یاد آتی ہیں جب پنکھے اور قمقمے ٹھنڈے شہروں میں ہوائیں اور روشنیاں پھیلاتے تھے۔ ہم کئی مہینوں تک بارش کی آمد کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ قدرت نے جو جمود توڑنے کا انتظام کر رکھا ہے‘ اور اس طرح سماجی معاملات میں بھی تغیر اور انسانی ساخت میں امن و سلامتی اور استحکام اور آسودگی فطری خواہش ہے۔ اگر حکمرانوں کی باریوں اور جانے پہچانے چہروں سے انہیں مایوسی سے دوچار ہونا پڑے تو وہ وہی کرتے ہیں جو انہوں نے کر دکھایا ہے۔ پرچی میسر ہو اور یقین ہو کہ اس کے نتائج کو تسلیم کیا جائے گا تو پھر برچھی کی طرف دھیان نہیں جاتا‘ نہ اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب بھی ہم امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ امن و استحکام اور ترقی ہمارے قدم چومے گی لیکن ڈر ہے کہ قدم کہیں آگے نہ بڑھ جائیں۔
انتخابی نتائج کو مرتب کرنے کے بعد جو حالات پیدا ہو رہے ہیں ان سے عوام کی سیاسی پختگی اور پرچی پر یقین اور دوسری طرف حکمرانوں کی غلط فہمی اور طاقت کے گھمنڈ کے دو رخ واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ شاید کسی کو اس کا ادراک ہو یا نہ ہو‘ انتخابات ملکوں کو بگاڑتے بھی ہیں اور بناتے بھی۔ اس بارے میں ہم کسی اور ملک کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی ہی سیاسی تاریخ سے کچھ سیکھ لیں۔ ہمارے حکمران 1970ء اور 1977ء کے انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والے سیاسی معاملات اور ان کے تقاضوں کو نہیں سنبھال سکے تھے‘ اُس وقت بھی تین فریق تھے اور آج بھی تین فریق ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ انتخابات کے بعد ملک میں استحکام پیدا ہو گا‘ کچھ نیا پن ہو گا‘ عوام کی منشا کے مطابق حکومت بنے گی تو مفاہمت کا ایک نیا دور پیدا ہو گا۔ مفاہمت تو ہے مگر دو سیاسی گھرانوں اور ان کے لیے پہلے سے تیار شدہ اتحادیوں کے درمیان۔ ایک پھر آپ کی خدمت اور ملکی مفاد میں اقتدار کے ایوانوں میں نئی شیروانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوں گے۔ مفاہمت کی ضرورت تو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اُس کی قیادت کو رہے گی۔ یہ بات الگ ہے کہ وہ بھی بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں کہ ان کا الیکشن کا حساب کتاب الیکشن کمیشن کے دعوؤں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ملک کی مذہبی اور لسانی جماعتوں کے علاوہ عوام کی سطح پر اس حوالے سے جاری مکالمے اور تحفظات کا جائزہ لیں تو ایوانوں میں بٹھائے جانے والوں کی جائزیت خطرے سے خالی نظر نہیں آتی۔ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ گزشتہ سے پیوستہ ماحول اور حکومت سازی میں احتجاج چند شہروں سے بڑھ کر ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبات تک نہ پھیل جائیں۔ ایوانوں کے اندر اور باہر تصادم میں حکمرانوں کا سہارا ڈنڈا ہی ہوتا ہے۔ اگر سر اسے کھانے کے لیے ہوں تو اس کی طاقت بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ خدا خیر کرے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں