ہم جو کچھ بنے وہ اساتذہ کرام کا فیض ہے۔ ان کی شفقت اور بے حد مہربانیوں نے اول سے لے کر آخر تک ہماری شخصیت سازی‘ فکری بالیدگی اور علمی جستجو میں رنگ بھرے۔ دل سے دعائیں اٹھتی ہیں اور ایک ٹھیس بھی کہ ہم ان کی خدمت نہ کر سکے۔ وہ تو ہر قسم کی توقعات سے بلند تھے‘ درویشوں کی طرح زندگی گزاری‘ خیر وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ ان کے طرزِ زندگی‘ سادگی‘ علمی مشاغل اور اپنے پیشے سے جذباتی لگاؤ نے ہمارے دلوں میں ایسی شمع روشن کی جو آج تک چراغِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ سب اساتذہ قابلِ احترام ہیں مگر ہمارے سفر میں چند ایک نے ایسا گہرا نقش چھوڑا ہے کہ وقت کا دھارا جہاں کہیں بھی لے گیا وہ ہماری یادوں کا حصہ رہے۔ سب کا ذکر کرنے بیٹھ جاؤں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ موقع ملا تو کچھ دیگر اساتذہ کا بھی تذکرہ ہوگا جن میں سے اکثر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات میں نصف صدی سے بھی پہلے ہم 140 طالب علموں کے ساتھ داخل ہوئے تو ایک نئی دنیا میں قدم رکھ رہے تھے۔ ہر طرف رنگ‘ خواب‘ رونقیں اور نکھرتے پھولوں کی سی تازگی کا احساس ہوتا تھا۔ شام ڈھلتے ہی واپس ہاسٹل میں جاتے اور اگلی صبح طلوع ہونے کا شدید انتظار رہتا۔ نئے اساتذہ‘ نئے دوست جو اس وقت ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے تھے‘ جن میں سے کچھ مشرقی پاکستان میں سے بھی تھے اورنئے ماحول نے سب کو بے حد متاثر کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم بالکل ایک نئی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس وقت جامعہ پنجاب کا نام‘ معیار اور علمی وقار اپنی مثال آپ تھا۔ اس سے کہیں زیادہ لاہور کے علمی‘ ثقافتی اور ادبی اثرات ہر طرف گہرے اور وسیع تھے۔ فکری تحریکوں سے جامعہ پنجاب کی فضا کبھی اجنبی نہیں تھی، لاہوری رنگ اس پر غالب تھا۔ قومی سیاست کا دھارا اور نظریاتی کشمکش نے بھی اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
آج کے دور کے پاکستانی 60ء اور 70ء کی دہائیوں کی فکری آزادی‘ طلبہ تحریکوں اور ہر نوع کے انقلابی جذبوں کو کتابیں پڑھ کر محسوس نہیں کر سکتے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اُن برسوں میں کالجوں اور جامعات میں قدم رکھا‘ اپنی فکری شناخت کے عمل سے گزرے اور لاہور کے فکری دھاروں سے اپنی استطاعت کے مطابق فیضیاب ہوتے رہے۔ ہم نے دو طرح کے طالب علم دیکھے ہیں۔ ایک وہ جو اس اعزاز کو جامعہ کے باہر سیاسی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے استعمال کرتے اور بعد میں وہ طالب علم رہنما کی صفوں سے نکل کر قومی سیاست کے چمکتے ہوئے ستارے بھی بنے۔ ان میں سے محترم جاوید ہاشمی‘ فرید پراچہ صاحب‘ جہانگیر بدر (مرحوم)‘ ریاض فتیانہ‘ رانا فاروق اور چودھری غلام عباس کے نام ذہن میں آ رہے ہیں۔ مگر یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ دوسرے وہ تھے جو فکری طور پر اشتراکی تھے جن میں یہ درویش بھی شامل ہے۔ مگر باہر کسی سیاسی جماعت سے کوئی گہرا تعلق نہ تھا۔ کوئی بھی جماعت ہمارے نظریاتی معیار پر پورا نہیں اترتی تھی‘ سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے‘ مگر اس نے اقتدار میں آنے کے بعد جو سیاست کے جلوے دکھائے‘ اکثر نظریاتی لوگ کونوں میں بیٹھ گئے۔ ہمارے چند نظریاتی اساتذہ تھے جن سے ہم متاثر تو تھے مگر قریبی تعلق نہ تھا۔ وہ تعلق اس وقت بنا جب ہم بھی استاد کی حیثیت سے اُن کے ہم کار بنے۔ وہ بڑے لوگ تھے‘ مالی لحاظ سے نہیں‘ انسانیت‘ دیانتداری‘ سادگی و اصول پسندی کے اعتبار سے۔ ان کے بارے میں پھر کبھی سہی۔ وہ نہیں رہے مگر ان کا کردار آج بھی مشعلِ راہ ہے۔
گزشتہ ہفتے کا دن ایک بار پھر ہمیں اُس دور کی بہاروں کی طرف کھینچ لے گیا۔ یہ آ ج کل کی نکھرتی لاہوری بہار کا اثر نہ تھا بلکہ 25 سال قبل ہمارے استادِ محترم پروفیسر ارشد سیّد کریم کی لاہور آمد تھی۔ ان کے اعزاز میں ظہرانے اور ان سے ملاقات کی دعوت ہمارے دیرینہ کلاس فیلو اور اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر ملک اکرم خالد کی طرف موصول ہوئی تو دل میں وہی تڑپ تھی جو نصف صدی قبل صبح صبح شعبہ سیاسیات کے کلاس روم میں جانے پر ہوا کرتی تھی۔ ان سے محبت اور عقیدت 18 سابق شاگردوں کو‘ جو اَب سب اپنے اپنے پیشوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں‘ دور دور سے کھینچ کر لائی۔ بالکل وہی ارشد سید کریم تھے ہنس مکھ‘ تر و تازہ‘ شگفتہ اور نظروں میں وہی پرانی چمک اور باتوں میں چڑھتی جوانی کی خوشبو۔ مسکراتے‘ ہنستے کچھ نام لیتے رہے کہ بتاؤ وہ کہاں ہوں گے۔ میرے ذاتی طور پر سب سے زیادہ پسندیدہ استاد تھے اور یقین جانیں‘ دیگر شاگرد بھی یہی کہتے ہیں۔ ان کی زبان کی سادگی‘ بلاغت‘ علمی گہرائی اور لیکچر دیتے وقت ہر موضوع پر ایک جذب کی سی کیفیت نے ہمارے شوقِ آگاہی پر بہت اثر ڈالا۔ ان سے ملاقات کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہ تھا۔ دروازہ طالب علموں کے لیے ہر دن‘ ہر وقت کھلا رہتا اور اپنی رہنمائی میں خود ہی ساتھ لے جا کر اُسی فلور پر شعبہ کی لائبریری سے کتاب نکال کر وہیں اس پر تبصرہ شروع کر دیتے۔
جو کورس ان سے پڑھا‘ اس کی دھندلی سی تصویر آج بھی ذہن میں ہے۔ چین کی سیاست پر پہلی کتاب پاکستان میں انہوں نے لکھی اور وہی کورس تھا جو انہوں نے پڑھایا۔ اس کورس کا اثر‘ استادِ محترم کی شفقت اور اپنا اشراکیت کی طرف رجحان وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے آخری سال میں چین اور پاکستان کے تعلقات پر مقالہ لکھنے کی ٹھان لی۔ جونہی کام شروع کیا‘ ارشد سید کریم صاحب پیشہ ورانہ وجوہات کی بنیاد پر جامعہ کراچی کو پیارے ہو گئے۔ مقالہ تو میں نے لکھ لیا مگر بغیر کسی نگران کے۔ جو بعد میں مقرر ہوئے وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر چلے گئے۔ وہ دور ہم جیسے درماندہ نظریاتی اشتراکیوں کے لیے جامعہ پنجاب میں بہت مشکل تھا کہ پڑھے لکھے لوگ بھی اشراکیت کو دہریت کے ساتھ جوڑتے تھے۔ اس طرح کچھ شدت پسند غضب ناک ہو جاتے۔ ہماری خوش قسمتی دیکھیں کہ ارشد سید کریم صاحب چین کی سیاست کے ماہر کی حیثیت سے ہمارے مقالے کے ممتحن مقرر ہوئے۔ انہوں نے مقالے میں سے کہیں بڑھ کر میرا دفاع کیا۔ یہ تو ذاتی مشاہدہ ہے مگر اُن کے ملک بھر اور امریکہ میں پھیلے ہزاروں طلبہ کی اپنی اپنی کہانی ہے کہ پروفیسر صاحب کی حوصلہ افزائی‘ کرم نوازی ہے اور دوستانہ سلوک کہ جس نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔
یہ ہماری تاریخی ملاقات تھی۔ کون جانے کل ہم میں سے کون کہاں ہوگا۔ محسوس کیا کہ ہر ایک کا دل پروفیسر صاحب کے لیے جذبۂ تشکر سے لبریز تھا۔ وقت اور زمانے نے ہمارے بالوں کا رنگ تو بدل دیا تھا‘ جوانی کی وہ رونق بھی نہ رہی اور اکثر ہمارے پرانے دوستوں نے چمکتی سفید داڑھیاں چہروں پر سجا رکھی تھیں۔ سب خاموش اور ادب سے اپنی نگاہیں پروفیسر صاحب پر مرکوز کیے ہوئے تھے کہ شاید پھر کب ہمیں انہیں دیکھ سکیں گے۔ انہوں نے کچھ جملے ادا کیے تو آواز بیٹھ گئی اور آنکھیں تر ہو گئیں اور کچھ دیر کے لیے طویل خاموشی طاری رہی۔ محبت کے رشتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور یہ بے لوث جذبے آج کی بھاگ دوڑ کی مادہ پرستی کی دنیا میں کسے نصیب ہوتے ہیں۔ ہماری متاع میں محبتیں‘ رشتے اور توقعات سے بلند دوستیاں ہوں تو عصر حاضر کی تاریکیاں نورِ سحر میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رشتوں کو نبھاتے ہیں اور کبھی اپنے پرانے کلاس فیلوز اور اساتذہ کو نہیں بھولتے۔ لاہور اور لاہور کے دوستوں میں کوئی خاص بات ہے جو شاید ہی ہمیں کہیں اور نظر آئے۔ اپنائیت‘ قربت‘ کھلی طبیعت‘ فیاضی اور پُردم امیدوں سے روشن چہرے لاہور کو لاہور بناتے ہیں۔ منفرد شہر‘ منفرد لوگ اور منفرد دوست۔ اساتذہ کرام کی زیارت کے لیے ان کا ممنون اور شکر گزار ہوں۔