اب جنگوں کے رنگ ڈھنگ بدل چکے۔ کئی ریاستوں کے درمیان دشمنی‘ حل طلب مسائل اور تاریخی تلخیوں کا اتنا ملبہ جمع ہو چکا کہ وہ ایک دوسرے کو زک پہنچانے کے لیے نت نئے حربے استعمال کرتی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے حریف ممالک کے اندر عدم اعتماد کی تحریکیں‘ لسانی عصبیت کی بنیاد پر بغاوتیں اور ناپسندیدہ حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے افراد اور گروہوں کے ہاتھ میں اسلحہ اور دولت تھماتے رہے ہیں۔ امریکہ کی مرکزی جاسوس ایجنسی کی پوری تاریخ اب دستاویزی شکل میں ہمارے سامنے ہے کہ کیسے اور کہاں کہاں انہوں نے حکومتوں کا تختہ الٹا اور عوامی تائید سے قائم ہونے والی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو اقتدار سے فارغ کرا کے قید و بند کی صعوبتوں سے لے کر قتل تک کرڈالا۔ وہ جو ملک اور ریاست کو بچانے کے نام پر اقتدار میں لائے گئے ان کا پہلا اور ضروری کام عوامی تائید سے بننے والی قیادت کو تباہ کرنا تھا۔ لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک میں تو بار بار ایسی خفیہ مداخلت کی گئی کہ انہیں گزشتہ دو صدیوں سے امریکہ اپنے گھر کا دفاعی پچھواڑا خیال کرتا ہے۔ کسی دوسرے یورپی ملک کو نمایاں نہیں ہونے دیا گیا۔ البتہ سرد جنگ کے دور میں روس علاقائی اشتراکی تحریکوں کا زبردست حلیف بنا اور لاطینی امریکہ کے انقلابیوں نے کیوبا میں امریکہ کے قدم بوس صدر کا تختہ اُلٹ دیا تو وہاں کی نئی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے خفیہ تحریکوں کو منظم کرکے حکومتوں کو تبدیل کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ کیوبا کا انقلاب تو کبھی برداشت نہ ہوا۔ اسے ناکامی سے دوچار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر فیڈل کاسترو‘ جو ایک زمانے میں ہمارے بھی انقلابی ہیرو تھے‘ کی قیادت اور عزم کا کرشمہ تھا کہ آج بھی کیوبا امریکہ کے حلقۂ اثر سے آزاد ہے۔ سب سے تاریخی دھاندلی اور کھلی مداخلت تو چلی کے مقبول ترین عوامی صدر ایانڈے کے خلاف سی آئی اے نے وہاں فوجی بغاوت کے ذریعے جنرل پنوشے سے گیارہ اگست1973ء میں کرائی۔
امریکہ میں تمام خفیہ سرکاری دستاویزات 30برس کے بعد قومی آرکائیوز کے سپرد کر دی جاتی ہیں تاکہ مؤرخ حقائق کی روشنی میں ان واقعات کے بارے میں لکھ سکیں۔ اس عرصہ میں اکثر کردار تہہِ خاک چلے جاتے ہیں یا گمنامی کی دھند میں غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ طویل تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ایران میں امریکہ اور اسرائیل کی نصف صدی سے جاری خفیہ جنگ کے چند پہلو آپ کے سامنے رکھوں۔ اسرائیل پر ایرانی حملے کے بارے میں کچھ کہنے کیلئے ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس کی ابتدا کا کچھ تعارف ہو جائے۔
ایران گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں دستوری مملکت بن چکا تھا۔ یہ الگ بات کہ مختلف مجلس شوریٰ نے 12 دسمبر 1925ء کو جنرل رضا خان کو1906ء کے دستور کی ایک شق کو سامنے رکھتے ہوئے بادشاہ بنا دیا تھا۔ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ایران پر روس کا تسلط قائم ہو گیا تھا‘ یہ اتحادیوں کا حصہ تھا۔ اس دوران ترکی‘ جرمنی اور روسی فوجیں ہر جگہ تھیں۔ 1917ء میں روس میں انقلاب آیا تو نئی حکومت نے ایران سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ اس دوران جنرل رضا خان نے ایرانی فوج کو منظم کیا اور مغربی طاقتوں کے ساتھ کھڑے رہے‘ مگر ایران کو ایک خود مختار ریاست بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ اُ س وقت کے بادشاہ احمد شاہ کی کابینہ میں رضا خان وزیر دفاع تھے۔ ایرانی بادشاہت تو اس وقت ختم نہیں کرنا چاہتے تھے‘ مگر اسے آئینی حیثیت‘ جس طرح تاجِ برطانیہ کی ہے‘ دینا وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری خیال کر رہے تھے۔ رضا خان نے پہلوی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کے دوسرے اور آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھے جو فروری1979ء میں ملک سے فرار ہو گئے اور ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ایران کے قوم پرست جمہوری طور پر منتخب صدر ڈاکٹر محمد مصدق نے رضا شاہ پہلوی کو1953ء کے اوائل میں ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ صدر مصدق کو اس پورے خطے میں ایک درویش‘ عالم‘ فاضل‘ مدبر اور حقیقی معنوں میں ایک سٹیٹ مین خیال کیا جاتا تھا۔ شاید ہی اس پائے کا کوئی لیڈر پیدا ہوا ہو۔ امام خمینی نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا مگر ایران کی آزادی اور خود مختاری کی طرف پہلا قدم ڈاکٹر مصدق نے اٹھایا تھا۔ برٹش پٹرولیم کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تو برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ امریکہ کی مرکزی خفیہ ایجنسی نے سرد جنگ کے اوائل ہی میں ڈاکٹر مصدق کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایرانی فوج اور ریاست کے دیگر اداروں میں بے شمار کرداروں کا سہارا لیا۔ اس بارے میں بہترین تحقیق اور خفیہ دستاویزات کا استعمال امریکی صحافی اور دانشور سٹیفن کینزر نے اپنی کتاب ''All the Shah's Men ‘‘ میں کیا ہے۔ کتاب دستیاب ہو اور فرصت ہو تو پڑھیں‘ آنکھیں کھل جائیں گی۔ صدر مصدق کے خلاف احتجاجی تحریک‘ توڑ پھوڑ‘ جلاؤ گھیراؤ اور بدامنی برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹوں نے پھیلائی۔ ایسے کام کرانے کے لیے ہر کارے ہر ملک میں دستیاب ہوتے ہیں۔ کسی بھی مسلم ملک میں دولت اور طاقت کے حصول کے لیے ملکی اور قومی مفاد کو لنڈے کے بھاؤ بیچنے والوں کی نہ پہلے کوئی کمی تھی‘ نہ اب ہے۔
ڈاکٹر مصدق مسلم ممالک کی صف میں پہلے عوامی رہنما تھے جنہیں خوفناک مثال بنا دیا گیا۔ گرفتار کرکے فوجی عدالت لگائی گئی‘ بغاوت کا مقدمہ چلا‘ تین سال قید اور اپنے گاؤں میں تاحیات جلاو طنی کی سزا دی گئی۔ ایران تین چار بار جا چکا ہوں‘ آئندہ جانے کا اتفاق ہوا تو مصدق کے گاؤں‘ ان کے گھر کی زیارت ضرور کروں گا جہاں وہ مدفون ہیں۔ ایران میں اس مداخلت اور اس کے بعد رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو مضبوط رکھنے کے لیے جو کچھ کیا گیا‘ اس کی داستان سنانے کے لیے سینکڑوں صفحات درکار ہوں گے۔
ایران کا انقلاب مغرب کی مشرقِ وسطیٰ میں حکمتِ عملی اور اثر و رسوخ میں ایک ایسا شگاف ڈال گیا جو ابھی تک پُر نہیں ہو سکا۔ کئی کوششیں کی گئیں کہ وہاں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے‘ اورکئی منصوبے بنے لیکن دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایران نے اپنا دفاعی حصار غیرریاستی اتحادی تنظیموں کی صورت لبنان‘ عراق‘ شام اور یمن میں بنا رکھا ہے۔ داخلی طور پر ایک متوازی حکومت اور حقیقتاً اصل طاقتور ادارے رہبرِ انقلاب آیت اللہ خمینی کے ہاتھ میں ہیں۔ آج بھی ایران کو کمزور کرنے‘ محدود کرنے اور وہاں حکومت کی تبدیلی مغربی طاقتوں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس وقت خفیہ ایجنسیاں وہاں لسانی گروہوں کو متحرک کیے ہوئے ہیں جن میں بلوچ اور کرد سب سے آگے ہیں‘ اور اس کے ساتھ جیش العدل جیسی دہشت گرد تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔ کئی دہائیوں سے ایران پر امریکہ اور کچھ مغربی طاقتوں کی پابندیاں اس لیے ہیں کہ ایک تو ایران کی طاقت بڑھنے نہ دی جائے‘ دوسرے اندر سے لوگوں کو مسلسل بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رکھا جائے تاکہ وہ حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ اسرائیل اور امریکہ نے مشترکہ طور پر ایران کے اندر اور دیگر ممالک میں جہاں غیرریاستی ایرانی اتحادی ہیں‘ ان کو نشانہ بنایا ہے۔ کئی مرتبہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ناکارہ کرنے کی کارروائیاں کی گئیں‘ سائنسدانوں کو قتل کرایا گیا اور جاسوسوں کا جال پھیلا کر القدس کے کمانڈروں پر حملے کرائے جاتے رہے ہیں۔ ایران کے دفاعی حصار کے بارے میں ہزاروں باتیں آپ سنیں گے مگر ایران کے خلاف خفیہ جنگ یا اس کی تاریخ کے بارے میں سب خاموش ہیں۔ (جاری)