اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ سرمایہ داری نظام نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔ چند سو سال پہلے وضع کیا جانے والا اس کا معاشی نظریہ اب ایک عالمگیر طاقت بن چکا ہے۔ سرمایہ داروں‘ سیاستدانوں‘ ریاستوں‘ میڈیا اور دانشوروں کا اس پر مذہبی عقیدے کی طرح مکمل ایمان ہے۔ کوئی بھی آج اس کی گرفت سے آزاد نہیں۔ عام لوگ اس کی خیرہ کن ترقی‘ پھیلتی ہوئی خوش حالی‘ غربت اور بیماریوں کے خاتمے اور صنعتی انقلابوں کی صورت دیکھتے ہیں۔ ہمارا زاویۂ نگاہ ذرا مختلف ہے‘ کہ ہم اس کے اثرات ماحولیاتی تبدیلیوں‘ کرۂ ارض میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور قدرتی وسائل کے ناقابلِ تلافی استحصال کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر نوآبادیاتی نظام سامراجیت‘ کمزور قوموں کی طویل اوردردناک غلامی کی تاریخ اور ہماری ثقافتی‘ تہذیبوں اور فطری ساختوں کو منظم طور پر مسخ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ آپ نظریاتی طورپر اس کے حق میں ہیں یا اس کے خلاف ہیں‘ یہ تو پرانی کشمکش ہے‘ اور ابھی تک جاری ہے۔ میری دلچسپی سرمایہ داری نظام کے ہمارے رویوں‘ معاشرتی تبدیلیوں‘ شخصی تعمیر اور طرزِ زندگی پر اثرات کو سمجھنے میں ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس کی پرتوں‘ تہوں اور پہلوئوں پر تقریباً ڈیرھ صدی سے بحث جاری ہے۔ میرے علمی قبیلے کے لوگ اپنے اپنے ملکوں میں اندازِ فکر اور بدلتے ہوئے رویوں کے بارے میں لکھتے چلے آئے ہیں۔ ہم سب کا اصل نکتہ یہ ہے کہ بنیادی محرک سرمایہ داری نظام کا پھیلائو ہے۔ جس ملک نے بھی اور جہاں کہیں بھی‘ اسے کھل کھیلنے کی چھٹی دی ہے‘ اس نے ایک دو نسلوں میں معاشرے کو تہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ نظام جو اشیا متعارف کراتا ہے‘ اُنہیں پرکشش بنا کر ہمیں استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی اپنی بڑھوتری اس اصول پر قائم ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرو اور زیادہ سے زیادہ استعمال کرو۔ تبھی مزید سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے گا۔
چند دن پہلے ایک دوست کے ساتھ کام کے سلسلے میں ایک سرکاری دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کی تفصیل بتانے کے لیے ایک سو سال قبل کے ایک امریکی میگزین میں ایک اشتہار کا ذکر ضروری ہے۔ یہ اشتہار پیکارڈ کار کا ہے‘ جو میں نے ایک عرصہ سے فریم کرا کے دیوار پر آویزاں کر رکھا ہے۔ میرے مختصر نوادرات میں کار سازی کے اوائل کے دور کے پانچ چھ ایسے اشتہارات بھی ہیں‘ جن کا ذکر کر رہا ہوں۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کے تخت پر خوبصورت رنگوں میں مصوری ہے۔ استاد عیسیٰ‘ جس نے تاج محل کو ڈیزائن کیا تھا‘ اس کا نمونہ ہاتھ میں اٹھائے بادشاہ کو دکھا رہے ہیں۔ بادشاہ آگے کی طرف جھک کر بغور دیکھ رہا ہے۔ ساتھ کھڑی ملکہ ہاتھ سینے پر رکھے تعجب خیز نگاہوں سے نمونے کو دیکھ رہی ہے۔ اشتہار کا عنوان ہے ''ممتاز گاہک کے لیے‘‘ اور پورے صفحے پر کار کی تصویر اور تفصیل درج ہے۔ بادشاہ کی تصویر کے نیچے عبارت میں ہزاروں ہنر مندوں کا ذکر ہے جو ہندوستان اور وسطی ایشیا سے جمع کیے گئے تھے۔ بظاہر پیکارڈ کو تاج محل کی خوبصورتی‘ ہنر مندی‘ جذبے اور لگن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ہر دور میں صنعت کاروں نے معاشرے کے حالات کے مطابق انہی مصنوعات کو عام کرنے کے لیے اشتہارات کے پیغامات کو تخلیق کیا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں اشتہارات‘ میڈیا اور مارکیٹ کا آپس میں گہرا تعلق ہے‘ جو اب دنیا کے دور دراز کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
سرکاری دفتر میں جو دیکھا‘ وہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اپنے سامنے‘ دائیں بائیں‘ ابھی جہاں آپ بیٹھے ہیں‘ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک پورے فلور پر بڑے حال کے اندر چھوٹے چھوٹے ورک سٹیشن تھے‘ جس میں دو تین میزوں کے پیچھے تین چار سرکاری اہلکار مصروف تھے۔ اگر کوئی کام آپ کے ذہن میں آ رہا ہو تو آپ اسے بالکل نکال کر باہر پھینک دیں۔ پہلا‘ دوسرا‘ تیسرا‘ میں نے وہاں گھوم کر ہر حصے کا خوب مشاہدہ کیا تو ہر شخص کی نظریں ٹچ موبائل پر گڑی ہوئی تھیں۔ کوئی باہر سے آتا‘ سلام کرتا تو تھوڑی دیر کے لیے وہ نظریں اوپر کرتے‘ پھر دوبارہ سکرین میں کھو جاتے۔ وقت گزار کو گھر اور پھر دفتر‘ کام تو زیادہ ہے نہیں‘ تو وہ اور کیا کریں‘ یہ تو ایک الگ کہانی ہے۔ انسانوں کے درمیان اب مکالمہ‘ بات چیت اور قربت کے رشتے کی جگہ ٹچ موبائل نے لے لی ہے۔ یہ صرف سرکاری دفاتر کی بات نہیں‘ کسی پارک میں چلے جائیں‘ تعلیمی اداروں کے اندر جھانک کر دیکھ لیں‘ گھروں کے اندر کی کیفیت کا جائزہ لیں‘ اور اپنے قریبی دوستوں کے رویوں کو دیکھیں تو سب لوگ ٹچ موبائل پر مصروف نظر آتے ہیں۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ مناظر دیکھنے کا عادی تو ہو چکا ہوں‘ مگر فوراً میرا دھیان ڈیوڈ ریزمین (David Riesman) کی کتاب‘ ''دی لونلی کرائوڈ‘‘ (The Lonely Crowd) کی طرف چلا جاتا ہے‘ جو علم معاشرت پر ابھی تک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے اور زیر بحث رہنے والی کتاب ہے۔ یہ پہلی بار 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی مکمل تفصیل اور عام مضامین کا احاطہ تو یہاں نہ مقصود ہے اور نہ ممکن ہے‘ ایک بات جو صنعتی دور کے ہمارے رویوں اور معاشرے کے بدلتے ہوئے انداز پر ہے‘ وہ یہ ہے کہ اپنی ذات سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔
اپنی ذات سے اجنبیت اور بیگانگی مارکسی فلسفے کے سرمایہ داری نطام کے حوالے سے اہم ترین موضوع رہا ہے۔ ٹچ موبائل کی مردوں‘ عورتوں‘ نوجوانوں اور بچوں تک کی مصروفیت اس بیگانگی کی ایک صورت ہے۔ ریزمین انسانوں کے رویوں پر اندر اور باہر کی طاقتوں کے اثرات کو دیکھتا ہے۔ اس بیگانگی کی علامت یہ ہے کہ ہم اندر کی طاقت کھو چکے ہیں۔ باہر کی طاقت مصنوعات کے اشتہاروں کی ترغیب‘ دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی اور ہم مرتبہ افراد کی عادات سے موافق ہونے کا دبائو غالب آ چکے ہیں۔ اس میں ہم اپنی آزادی‘ اپنا دل‘ اپنی قوتِ فیصلہ دوسروں کے اثرات کی نذر کر چکے ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ لوگ مجمع میں بھی اب اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتے ہیں کہ سامنے بیٹھے انسانوں میں دلچسپی نہیں رہی۔ باتوں میں چاشنی پیدا کرنے کی صلاحیت رہی ہے‘ نہ علم‘ مطالعہ اور پُرکشش مشغلے ہیں‘ جن پر کبھی دن رات باتیں ہوتی تھیں۔ ایک عرصہ سے اپنے فون کی گھنٹی بند کرکے دور یا جیب میں رکھ کر اکثر دوستوں اور قریب بیٹھے افراد کو ٹچ موبائل میں کھوئے دیکھ کر ان کی اس حالت پر ترس آتا ہے۔ فون کو تو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے‘ ہماری زندگی کا ہر پہلو مارکیٹ‘ شاپنگ‘ مصنوعات کی خریداری‘ گھروں کی ایک دوسرے سے بڑھ کر تزئین و آرائش اور اشیائے خور ونوش کی فروانی سرمایہ داری نظام کی جکڑ بندی کے مظہر ہیں۔
مارکسی فلسفے کی لڑی میں پروئے انتونیو گرامچی‘ جو ہمارے گروئوں میں سے ایک ہیں‘ نے اس کا توڑ بھی نوے سال پہلے نجات‘ رہائی اور آزادی حاصل کرنے میں بتا دیا تھا۔ اس کے لیے اندر کی آواز اور طاقت اور زنجیروں کو توڑنے کا حوصلہ چاہیے۔ میرے نزدیک ہر انسان ایسی تمام چیزوں اور رویوں سے رہائی حاصل کرنے کی سکت رکھتا ہے‘ اگر اسے اپنے دل اور اندر کی خواہش پر اختیار حاصل ہو جائے۔ یہی تو رہائی اور آزادی ہے۔ اس تمام تر بیگانگی میں یہ باتیں دیوانگی معلوم ہوتی ہیں۔ ہم دیوانے ہی تو ہیں‘ تو دیوانوں کی سی کیوں باتیں نہیں کریں گے؟