جنوبی پنجاب جسے ہم تو اپنی علاقائی روایات کے مطابق سرائیکی وسیب کہتے ہیں‘ کے بارے میں کچے اور پکے علاقوں کی اصطلاح عام لوگ استعمال کرتے ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف پر برسات کے موسم میں سیلاب امڈ آتا ہے‘ اسے کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ نہری علاقے یا وہ بھی جو دریائی سیلاب کی زد میں نہیں آتے‘ انہیں پکا کہتے ہیں۔ دریائوں کے ساتھ ساتھ بسنے والے قبائل ضلع مظفر گڑھ سے لے کر سندھ کے شمالی اضلاع تک‘ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ زیادہ تر بلوچی اور سرائیکی زبانیں بولتے ہیں‘ مگر اکثر علاقوں میں‘ سوائے راجن پور کے‘ بلوچوں کی نسلی ثقافت تو تاریخی ہے مگر اب سرائیکی زبان اور ثقافت کے رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔ میرا ذاتی تعلق بھی سندھ اور سرائیکی وسیب کے ایسے علاقے سے ہے جو دریا کے قریب تقریباً چار مختلف اضلاع میں آباد ہے۔ بچپن میں اکثر دریا کے پار رحیم یار خان کے تین گائوں ایسے تھے جہاں ہم اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رابطہ رکھتے اور شادی بیاہ کے مواقع پر تو ضرور حاضری دیتے۔ زیادہ تر ایسا سفر سردیوں کے موسم میں ہوتا کہ گرمیوں میں پھیلے ہوئے دریا کو کشتی کے ذریعے عبور کرنے میں پورا دن لگ جاتا۔ اور ایسا بھی ہوا کہ سیلاب کے پانیوں اور دریا سے نکلتی ندیوں کی طغیانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یہ پرانی باتیں ہیں جب کچے کے علاقے سے چند کلومیٹر پکے میں ایک ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ سکول ضلع رحیم یار خان میں تھا اور ہم تب ضلع ڈیرہ غازی خان کے باسی تھے۔ کوئی مجبوری یا حادثہ ایسا تھا کہ اپنے ضلع کو چھوڑ کر رحیم یار خان کی بستی میں دو سال تک ڈیرہ جمائے رکھا۔ اکثر‘ بلکہ تقریباً ہر ماہ سردیوں کے موسم میں پیدل تقریباً بائیس کلومیٹر کا سفر کرتا‘ دریائے سندھ سے محبت تو اس سے بھی پہلے اُس دن سے ہے جب بھاگسر پرائمری سکول میں پہلے روز داخل ہوا تھا۔ تب سکول دریائے سندھ کے کنارے تھا اور یہ اس کی پہلی زیارت تھی۔ جس چھوٹی سی جگہ پر ہماری جنم بھومی کے کھنڈرات ابھی باقی ہیں‘ وہاں سے دریاچند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ سکول آتے جاتے دریا کے کنارے کھلے میدانوں میں گلی ڈنڈا ہی ایک ایسا کھیل تھا جو بچے کھیلا کرتے تھے۔ دریا میں نہاتے‘ تیراکی کی مشقیں کرتے‘ سیلاب اتر جاتا تو مچھلیاں بھی پکڑتے‘ اور ہم اس چھوٹی سی دنیا میں بہت شاد تھے۔
کچے کے علاقوں کا موسم بھی قدرے دور دراز کے علاقوں سے زیادہ مرطوب ہے‘ بارشیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ابھی تک مون سون کی ایک بھی بارش نہیں ہوئی۔ اس لیے لوگ سیلاب کا انتظار کرتے ہیں‘ ایسے ہی جس طرح پوٹھوہاری فصلوں کی کاشت کے لیے بارش کا۔ سیلاب زیادہ ہو یا کم‘ اس کی پروا نہیں۔ پانی دریا سے ابل کر دور دراز کے علاقوں تک پھیلے گا تو ہی کوئی کھیتی باڑی ہو سکے گی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ سیلاب کے ساتھ کاشت کار ندیوں سے ٹیوب ویل کے ذریعے پانی لفٹ کرکے فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ یہ نئی زرعی ٹیکنالوجی بھی کمال ہے کہ اب کچے کے ان علاقوں میں گنے کی فصل اگائی جاتی ہے جسے رحیم یار خان اور گھوٹکی کے اضلاع میں کئی مشہور گھرانوں کی شوگر ملیں خریدتی ہیں۔ کچے کی زرخیزی اور اس کی فصلوں کو کبھی دیکھنے کا موقع ملے تو آپ نہری کاشت کاری کو بھول جائیں۔ دس پندرہ سال پہلے ایک کورس پانچ سے سات مختلف دیہات میں پڑھایا کرتا تھا۔ ساتھ چند اور اساتذہ ہوتے اور تقریباً چالیس پچاس کے قریب طلبہ تھے۔ اس سال ہم نے گھوٹکی کو منتخب کیا۔ کلاس کسی ضلع میں لے جانے سے پہلے اس علاقے میں جا کر دس بارہ دیہات کو وزٹ کرتا‘ حالات کا جائزہ لیتا‘ مقامی لوگوں سے کچھ تعلق پیدا کرتا۔ اس کے بغیر ایسا کورس ناممکن تھا۔ گھوٹکی شہر سے دریا کی طرف نکلیں تو سیلاب سے بچائو کا بند ہے۔
یہ موسم بہار کے پہلے ہفتے تھے جب سندھ میں گندم کی فصل تیار ہو چکی تھی۔ اس بند پر کھڑے ہوں تو حدِ نظر تک گندم کے وسیع کھیت نظر آتے تھے۔ فصلوں کے ایسے نظارے آپ کو امریکہ کی وسطی مغربی ریاستوں میں دکھائی دیتے ہیں یا آج کے کچے کے علاقوں میں۔ کسی زمانے میں جہاں ہر طرف سیلاب کے بعد اگے ہوئے گھنے جنگل تھے‘ اب ہر طرف کھیت ہی کھیت ہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ کہیں گے کہ یہ کچے کے ڈاکو کہاں سے آ گئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کچھ چھوٹے چھوٹے جزائر رحیم یار خان‘ گھوٹکی اور کشمور کے اضلاع میں دریا کے ساتھ گھنے جنگلات کے ساتھ اب بھی موجود ہیں۔ دوسرے آبادی کے چھوٹے ٹکروں میں قبائل اور قومیں اپنے محدود گاؤں اور بستیاں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ سماجی ڈھانچہ پنجاب اور پکے کے علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔ کچھ علاقوں میں اغوا برائے تاوان کی اور پولیس مقابلہ کی وارداتیں ہوتی ہیں۔
قبائلی عصبیت کی بنیاد پر پھیلے گائوں میں سرحدی علاقوں کی طرح کوئی وڈیرہ ڈاکوئوں کی فصل بھی کاشت کرتا رہتا ہے۔ ایک کھیپ جب پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں اور گرفتاریوں‘ اور کچھ کو سزائوں کے بعد ختم ہو جاتی ہے تو اس وقت تک دوسری تیار ہو چکی ہوتی ہے۔ سندھ کے جن دو اضلاع کی بات کی ہے‘ وہاں کچھ بااثر جاگیردار اور سیاسی لیڈر ڈاکوئوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کے معنی اور مفہوم آپ خود سمجھ لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بلوچستان کے قبائلی علاقے تیس‘ چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اور آج کل کے جدید ڈاکوئوں کے تعلق ہر نوع کے دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروہوں سے ہیں۔
بڑی بڑی فصلیں اور دولت تو کچے کے علاقوں میں پیدا ہو رہی ہے‘ مگر یہ سب بڑے زمین داروں اور صنعت کاروں کی جیب میں جا رہی ہے۔ کچے کی زرعی ترقی سے ایک طبقے کو سونے کی کانیں مل گئی ہیں‘ مگر پرانی بود باش کے لوگ جو مال مویشی ایک زمانے سے جنگلوں میں پالا کرتے تھے وہ چرا گاہوں سے فارغ ہوگئے ہیں۔ کہیں کہیں تو ڈاکو اس لیے بھی ابھرے ہیں کہ سرکاری زمینیں‘ جو ان کے قبضوں میں تھیں‘ اب کسی اور کے پاس چلی گئی ہیں۔ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن ایسے ہی ہے جیسے آپ ملیریا یا کسی بیماری کا علاج کر رہے ہیں مگر اس کے اسباب کے بارے میں کوئی فکر اور فہم نہ ہو۔ وہاں سڑکوں کا نیٹ ورک محدود اور ایسی حالت میں ہے کہ بہتر ہے کہ وہ نہ ہوں۔ سکول نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اور جہاں ہیں وہاں اساتذہ کے لیے حالات ایسے نہیں کہ یہ ادارے معمول کے مطابق چل سکیں۔ ایک ڈاکو سے ملاقات کی کہانی ایک دفعہ لکھی تھی۔ پھر کبھی لکھوں گا‘ مگر اس کی خواہش تھی کہ کوئی اس کے بچوں کے لیے سکول بنا سکے تاکہ وہ اس کی طرح ڈاکو نہ بنیں۔ اس نے تو ہاتھ جوڑے‘ منتیں کی تھیں۔ یہ واقعہ تو اس سال کا ہے کہ جب گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں ایک ہفتہ قیام کیا تھا۔ اس علاقے میں ابوظہبی کے بادشاہ نے دریا پر پل پندرہ سال قبل بنوایا تھا۔ وفاقی اور پنجاب حکومتیں آج تک رابطہ سڑکیں بنا کر اسے کھول نہیں سکیں۔ حکمران اور حکمرانی بھی پکی ہو تو کچے کی سماجی ترقی کی فکر کسے ہو گی۔