پانی کے بہائو کے ساتھ خشک وتر تو بہہ جاتے ہیں لیکن جن کی جڑیں زمین میں گہری‘ تنے مضبوط اور قد بلند وبالا ہوتا ہے وہ سیلابوں میں بھی اپنے مقام پر کھڑے رہتے ہیں اور زمانہ انہیں سرخرو دیکھتا ہے۔ ایسے سربلند ہی آنے والی بہاروں کا نظارہ کرتے ہیں۔ یہ تو فطرت کا اصول ہے کہ آگ بھی لگے تو جنگلوں میں بہت کچھ راکھ ہو جاتا ہے‘ نام ونشان مٹ جاتا ہے‘ مگر تناور درخت بھسم ہونے کے باوجود اپنی شناخت اور مقام کبھی نہیں کھوتے۔ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ پھر تروتازہ ہو جاتے ہیں اور ان پر برگ وبار پھوٹنے لگتے ہیں۔ انسانوں اور معاشروں کی کیفیت اس سے کچھ مختلف نہیں۔ کچھ افراد ہوتے ہیں جو اس اجتماعی گروہ بندی کی تشکیل کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کی پہچان‘ سہارے اور اشتراک کار میں رنگے بے شمار سلسلے موتیوں کے ہار کی طرح ایک ہی لڑی میں پروئے رکھتے ہیں اور اس نظم ہستی کو بکھرنے سے بچاتے ہیں۔ معاشروں پر جو مکمل طور پر دورِ جدید میں سیاسی نوعیت کے ہیں‘ بلکہ بنیاد اور ان کا تانا بانا سب سیاست کے عناصر سے متشکل ہوئے ہیں‘ مگر سیاست وہ جو افراد اور گروہ اور ان کے درمیان ہر روز پیدا ہونے والی کشمکش کی آگ کے شعلوں پر ٹھنڈا پانی ڈال کر بجھاتی ہے۔ اگر سیاست اُن کے ہاتھ میں آ جائے اور مسندِ اقتدار پر بھی وہی فائز ہو جائیں جو دیکھنے میں عوام کے مصلح‘ نجات دہندہ‘ محافظ‘ مدبر ہوں‘ مگر اُن کے پوشیدہ عزائم کچھ اور ہوں تو تباہی سے بچنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ تاریخ اور انسانی نفسیات ہمیں واشگاف الفاظ میں بتاتی ہے کہ ہماری ساخت اور وجودیت میں حرص و ہوا‘ طاقت کا حصول‘ ذاتی مفاد وعناد‘ حاکمیت اور زر ودولت کی چمک کا غلبہ ہے۔ اگر ان جذبات اور خواہشات کو اخلاق اور قانون کے بندھن میں جکڑنا کسی معاشرے میں دشوار ہو جائے تو آفت پہ آفت‘ ہیجان‘ بے چینی اور آخرکار ذاتی جنگوں تک نوبت آ سکتی ہے۔
آئین‘ قانون اور انصاف جدید ریاست کے بنیادی عناصر اس لیے ہیں کہ ایک پُرامن معاشرہ تشکیل پا سکے جہاں ہم آزاد اور بے خوف اپنی زندگیوں میں اپنے خیالات اور نظریات کے مطابق رنگ بھرتے رہیں‘ اور چاہے اختلاف ہو‘ لیکن کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک توازن اور طاقت کا نظام طاقتور‘ ظالم اور حریفوں کو افراد اور معاشرے کی آزادیوں‘ حقوق اور خوشیوں پر ڈاکا ڈالنے سے نہ روک سکے۔ کوئی ایسا کرنے کا مرتکب ہو تو اُسے کیفر کردار تک پہنچانے میں دیر نہیں لگتی۔ جاندار اور کامیاب سیاسی معاشروں کی یہی پہچان ہے۔ پہلی بات تو انہوں نے ہر انسان کی ساختی کمزوریوں کا گہرا ادراک کیا ہے کہ اگر مادر پدر آزاد چھوڑ دیے گئے تو پُرامن اور خوشحال معاشرہ پیدا نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے اخلاقی تربیت‘ تعلیم اور معاشی مواقع کے ساتھ فرد کو آئین اور قانون کے دائرے میں محدود کیا۔ دوسری بات یہ کہ آئین‘ قانون اور انصاف کن کے ہاتھوں میں ہو گا‘ اس لیے سیاسی تجربہ یہ تھا کہ اگر ایک یا چند لوگوں کے ہاتھ میں انہیں تھما دیا گیا تو مطلق العنانیت قائم ہو گی اور ظل سبحانی کے فلسفے گھڑنے والوں کی اور اشرفیوں کی تھیلیاں ہاتھوں میں تھامنے والوں کی کمی نہیں ہو گی۔ فرد کو مقتدر بنا کر یہ فیصلے ان کی نمائندہ حکومت پر چھوڑ دیے گئے۔ ہماری زبان میں بہت فصاحت وبلاغت ہے اور عام لوگ بھی نمائندہ اور منتخب حکومت کا فرق جانتے ہیں۔ صرف اپنے ملک میں نہیں‘ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں‘ سب حکمران اپنے آپ کو منتخب منوانے کے لیے عوام کا پیسہ ہرکاروں پر اُڑاتے رہتے ہیں لیکن وہ نمائندہ نہیں ہوتے۔ اپنی اس دھونس کو قائم رکھنے کے لیے وہ پہلا حملہ دو اداروں پر کرتے ہیں۔ ایک قانون ساز اوردوسری عدلیہ‘ کہ انتظامیہ تو پہلے ہی ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے‘ اور اسی کا ڈنڈا لہراتے ہوئے دوسرے دو اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ کہانی مضطرب‘ مفلوج‘ بے سکون اور مفتوح سیاسی معاشروں کی ہے۔ شمالی افریقہ کی سرزمین سے مشرق وسطیٰ کے ریگستانوں سے ہوتے ہوئے وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلوں کی عبور کرکے اپنی مغربی سرحدوں تک آج کا نقشہ کھول کر سامنے رکھیں تو آپ کو نمائندہ اور منتخب حکومتوں کا فرق واضح ہو جائے گا‘ اور جس آگ میں یہ سب معاشرے جل رہے ہیں اور جس ذہنی کیفیت کا شکار ہیں‘ اُس کے بارے میں ہم تو روز پڑھتے ہیں۔ یہ کہانی کوئی نارمل معاشروں کی نہیں۔
جابروں‘ ظالموں اور بے انصاف حکمرانوں کے سامنے کامیاب معاشروں نے جدوجہد کی ہے۔ آزادی‘ سکون اور اطمینان اور خوشحالی کے خواب میں ہر سال ہزاروں لوگ سمندروں اور صحرائوں کو عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ انہیں خوشحالی طشتری میں رکھ کر کسی نے پیش نہیں کی۔ ان کے مفکرین‘ سیاسی کارکنوں‘ جماعتوں اور دانشوروں نے طویل اور گھٹن زدہ ماحول میں جدوجہد کی ہے۔ آزادی زندگی کے بعد انسان کو ملنے والا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ آزادی نہیں تو زندگی میں سانس تو کوئی بھی لے سکتا ہے مگر روح اور چاشنی غائب ہو جاتی ہے۔ امریکہ کے ایک نامور سیاستدان‘ ہنری پیٹرک کے الفاظ آج بھی ذہنوں میں گردش کرتے ہیں: مجھے آزادی چاہیے‘ اگر نہیں تو پھر موت۔ ہمارے ملک میں بھی آزادیوں‘ انصاف‘ نمائندہ حکومت اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ نہ جانے کتنے ہیں جو تاریک راہوں میں مارے جا چکے ہیں‘ کتنے ہیں جنہوں نے اپنی پیٹھ پر کوڑے کھائے اور کتنے پسِ زنداں اپنی عمروں کا ایک حصہ ہمارے اجتماعی خوابوں کی تعمیر کے لیے قربان کر گئے۔ شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں‘ دانشوروں اور سیاستدانوں میں سے بھی کچھ نے آئین‘ قانون اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا۔ جادوگر بھی آئے‘ مصلح بھی اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے اُڑتی ہوئی خاک بھی دیکھی۔ اس ملک میں آزادی اور انصاف کی چنگاری کہیں نہ کہیں موجود رہی اور وقت آنے پر دل گداز شعلوں میں بھی تبدیل ہوئی۔ ایک عرصہ سے ہماری ریاست ایک نوآبادیاتی سیاسی گروہ اور اس کے سرپرستوں کے ہاتھ میں یرغمال ہے۔طاقت اور ترغیبات کا ایسا جال بُنا ہوا ہے کہ اس سے علیحدہ ہو کر سوچنا اور کسی مقام پر کھڑا ہونا ہر آنے والی نئی بندوبستی حکومت کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ہم اس نوآبادیاتی بندوبستی نظام کی سخت گیری‘ تنگ نظری اور کور مغزی کی نوحہ خوانی کرتے ہیں وہاں خوشی کی بات ہے کہ آزادیٔ فکر اور مزاحمت کی چنگاریاں کہیں نہ کہیں روشن ہیں۔ ٹھنڈے دل اور ذرا انصاف کا کوئی بنیادی اصول ذہن میں رکھ سوچیں کہ اگرگزشتہ ہفتے پچپن آئینی ترامیم جنہیں ایک ہی ٹوکری‘ جو سخت فولادی نوعیت کی معلوم ہوتی تھی‘ میں رکھ کر اس رات کے اندھیرے کے آخری پہر میں جنہیں ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تک نہیں تھا‘ آئین کا حصہ بنا دیا جاتا تو یہ ملک آج مصر‘ سوڈان‘ ازبکستان اور تاجکستان سے مختلف نہ ہوتا۔ صرف ایک رہنما‘ مولانا فضل الرحمن رکھ رکھاؤ اور مہمان نوازی کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ اس خوفناک کہانی کے وہ قومی ہیرو ہیں کہ آئین اور جمہوریت کو تباہی کے دھانے سے نکال کر کچھ سانس لینے کا موقع دیا ہے۔ اسے کہتے ہیں ایک کی اکثریت۔