بڑے انقلابوں کے خواب‘ صرف خواب ہی‘ ہم نے تاریخ کے اوراق میں دیکھے ہیں۔ ایسے خوابوں کی تعبیر میں لاکھوں انسانوں کو زندگی گنوانا پڑی اور ظلم وستم کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ ان کے بارے میں پرانی کتابیں کھولنے سے بھی جی گھبراتا ہے۔ ہم ان انقلابوں سے متاثر ہیں جو چھوٹے قدم اٹھانے سے ہمارے معاشرے میں برپا ہوئے ہیں۔ پوری عمر‘ ان کی ابتدا سے لے کر آج تک‘ ہم شاہد ہیں۔ خوش قسمت ہیں کہ اس پورے علاقے کی قسمت کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ پرانے جنگلات‘ غیر آباد زمین‘ محدود آبادیاں اور بہت سی محدود زراعت سے آج کی سرمایہ کار زراعت تک کا سفر تو کافی طویل ہے‘ مگر تبدیلیوں کا عمل گزشتہ 30 سالوں میں بہت تیزی سے ہمارے دور دراز کے علاقوں میں طے ہوا ہے۔ آج کل بچپن کے ان پرانے جنگلوں کی صرف ذہن میں تصویر ہی رہ گئی ہے‘ جو کبھی دھندلائی ہے نہ میلی ہوئی۔ ان کی جگہ حدِ نظر تک سرسوں کے پیلے مہکتے پھولوں اور سرسبز گندم کے کھیت نظر آتے ہیں۔ جس روز اسلام آباد سے پنجاب کے آخری ضلع کی آخری تحصیل تک سارا دن خود گاڑی چلا کر پہنچا تو راستے میں خیال آیا کہ سب سے پہلے اپنی جنم بھومی کی‘ جو گزشتہ 70 سال سے قائم اور اب ایک چھوٹی سی ڈھیری کی صورت میں اپنی جگہ موجود ہے‘ زیارت کروں۔ ہر مرتبہ ایک دفعہ تو ضرور وہاں جاتا ہوں‘ مگر اس بار خواہش تھی کہ اپنے گھر قدم رکھنے سے پہلے کم از کم ایک رات وہاں گزاروں۔ اپنے ہمدم درینہ محمد اقبال رئیس کے ساتھ‘ ان کے موٹر سائیکل کی سواری نمبر دو کے طور پر وہاں تک رسائی ممکن ہوئی۔ گاڑی اپنے جنگل پر‘ چند کلومیٹر پہلے چھوڑنا پڑی۔ شام کا وقت ویسے ہی ہمارے لیے سحر انگیز ہے‘ مگر یہ صبحیں اور شامیں ہمارے دیہات کی کھلی فضا اور کھیتوں کے درمیان گزریں تو سالوں کی تھکن دور ہو جاتی ہے۔ یقین کریں‘ ساڑھے نو گھنٹے ڈرائیونگ کرنے کے بعد بھی‘ ایک لمحے کیلئے اپنے مسمار شدہ گھر کے گھیرے میں گھومتے پھرتے تھکن کا احساس تک نہ ہوا۔ کچھ بچپن کے بڑے درختوں کے نشانات جھاڑیوں کی صورت میں اب بھی موجود ہیں‘ مگر ہر طرف گندم اور سرسوں کے کھیتوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
نصف صدی قبل اس کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ مکمل طور پر زیادہ تر غیر آباد علاقہ کسی دن اپنی زمین سے سونا اُگلے گا۔ چند ٹکڑے ادھر ادھر گرمیوں میں دور ایک نہر میں پانی آنے سے آباد ہو جاتے۔ سردیوں کی فصلوں کیلئے رہٹ ہوا کرتے تھے‘ وہ کنویں جن سے بیلوں کی مدد سے پانی نکالا جاتا تھا۔ کچھ سبزیاں اور گندم کاشت ہوا کرتی تھی۔ آج کے دور کی آبادی کا دسواں حصہ ہونے کے باوجود خوراک میں یہ علاقہ کبھی خودکفیل نہ تھا۔ اس زمانے میں‘ خوب یاد ہے کہ جب امریکہ کے ساتھ ہمارے دفاعی معاہدے ہوئے تو وہاں سے گندم آنا شروع ہوئی‘ جس کا کاروبار ہمارے والد بزرگوار کیا کرتے تھے‘ اور ہم پابند تھے کہ دس کلو سے زیادہ کسی خاندان کو گندم فروخت نہیں کرنی۔ تب میں تین‘ چار جماعتیں پڑھ چکا تھا۔ گاہکوں کا نام لکھنا‘ ان کا انگوٹھا حساب کے رجسٹر پر لگوانا میرا کام تھا۔ آج کل اس علاقے کی آبادی کئی گنا پھیل چکی ہے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کیلئے لاکھوں من گندم یہاں سے ملک کے دوسرے حصوں اور خفیہ راستوں سے افغانستان اور وسطی ایشیا تک روانہ کی جاتی ہے۔ یہاں آپ کو اپنی ہی مثال دینے میں مجھے کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ اس وقت میرے پاس 500 من گندم اپنے جنگل کے ذخیرے میں موجود‘ کسی گاہک اور معقول ریٹ کا انتظار کر رہی ہے۔ یاد ہوگا کہ گزشتہ سال انہی مہینوں میں نگران وزیراعظم اور ایک نگران وزیراعلیٰ‘ جو آج بھی پاکستانی سیاست میں کارآمد ہیں‘ نے لاکھوں من گندم عین اُس وقت‘ جب ہماری فصل تیار تھی‘ باہر سے منگوا لی تھی۔ حکومت کا وعدہ چار ہزار روپے من سرکاری طور پر خرید کرنے کا تھا اور ہم اس وعدے پر اعتبار کر بیٹھے تھے۔ آخر یہ انقلاب کیسے آیا کہ لاکھوں من گندم‘ لاکھوں من کپاس اور لاکھوں من گنا کے علاوہ پھل اور سبزیاں قدیمی بنجر زمینوں کے سینوں سے نکلنے لگیں۔ یہ ہمارے کسانوں‘ محنت کشوں اور چھوٹے زمینداروں کی انتھک محنت‘ مسلسل جدوجہد کے ساتھ جدید زرعی ٹیکنالوجی اور زرعی سائنس کا کمال ہے۔
کئی عشروں سے چھوٹے زمینداروں کو اپنی بنجر‘ شور زدہ اور ریتلی زمینوں کو آباد کرتے دیکھ رہا ہوں۔ یہ وہ زمین ہے جہاں سے غریب لوگ مٹی کھود کر اس میں پانی حل کرنے کے بعد نمک بنا کر بازار میں فروخت کیا کرتے تھے۔ آج وہاں چاولوں‘ گندم اور دوسری فصلوں کو دیکھ کر دل شاد ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگ دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہیں کہ کیسے جفا کشی اور فطرت کو بھول کر جنگلوں کو جدید زرعی حیثیت میں لوگوں نے تبدیل کیا ہے۔ ہم خود مایوسیوں کا شکار ہیں‘ اس لیے اپنی کاوشوں اور کچھ محیر العقول کامیابیوں کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ شہروں کے لوگ ہر ملک کے‘ مگر ہمارے تو انتہا کی آخری حدود تک ناشکرے ہیں۔ جب یہ حد سے زیادہ کھاتے اور ہمارا اُگایا ہوا ضائع کرتے ہیں اور اس کے باوجود ہمیشہ مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ کبھی آج کل کے مالوں اور جمعہ بازاروں میں لوگوں کو خریدتا دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ اگلے کئی ماہ کا بندوبست کر رہے ہیں اور اگلے ہفتے اسی طرح واپس آتے ہیں۔ دیہات میں بھی خوراک کا ضیاع دیکھتا رہتا ہوں اور اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں۔
کاش ہم مشرقی پاکستان کی طرز پر ہر موسم میں زرعی سیاحت کو فروغ دے سکتے۔ یورپ کے سب ممالک اور جاپان میں بھی یہ ہوتا ہے کہ شہروں کے لوگ اختتامِ ہفتہ یا چھٹیوں میں دیہات کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں اس مقصد کیلئے کیفے‘ ریسٹورنٹ‘ ہوٹل اور کرایہ داری پر مہمان خانے موجود ہوتے ہیں۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ لوگوں کا فطرت اور زراعت سے لگائو پیدا ہوتا ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک گوبھی کا دستہ پیدا کرنے اور شہریوں کے باورچی خانے تک پہنچانے اور اعلیٰ ترین کھانوں کو ان کے دستر خوان پر سجانے کیلئے کاشتکاروں کو کتنی محنت کرنا پڑتی ہے اور انہیں بہت ہی قلیل معاوضہ پر گزر اوقات کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے زراعت کے ساتھ دیہاتی سیاحت کو فروغ ملنے سے مقامی لوگوں کی آمدن میں معقول اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ زرعی میلوں اور پھولوں کی نمائش کی صورت میں ایک رجحان تو پیدا ہوا ہے‘ مگر وہ بھی شہروں کے اندر یا ارد گرد ہونے کی حد تک ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہماری حکومتیں لاہور سے لے کر ضلع اور مقامی سطح تک‘ نہ عوام دوست بنیں ہیں اور نہ اس کی سامراجی شکل تبدیل ہوئی ہے‘ جو ابھی تک انتظامی امور پہ چھائی ہوئی ہے۔ سوچیں ہمارے جنگلات‘ جو ہر ضلع میں موجود ہیں‘ ایک نہیں کئی‘ وہ انگریز دور سے چلے آ رہے ہیں‘ ان میں آباد جگہیں ہوتیں‘ جو کبھی موجود تھیں‘ مگر اب عملے کی بداعمالیوں کی نذر ہو چکی ہیں۔ نجی مہمان خانے کافی تعداد میں ہوتے اور ہماری ضلعی انتظامیہ ہمارے مقامی تاریخی ورثے کو‘ جن میں جنگلات بھی شامل ہیں‘ تجاوزات سے محفوظ کرتی تو ہمارے مقامی لوگ خصوصاً نوجوان بے کار اور بے روزگار نہ ہوتے۔ شہر کے لوگوں کو کیسے بتائیں اور ان کو بھی‘ جو دیر تک جاگنے اور دیر سے بیدار ہونے کے عادی ہیں کہ طلوعِ آفتاب سے پہلے مشرق میں شفق کا رنگ کیسا ہوتا ہے اور جب اس کے ساتھ جو دھندلا چاند مغرب میں نیچے کی طرف اُتر رہا ہوتا ہے‘ تو سرسوں اور گندم کے کھیتوں کے درمیان سردی میں چلنے سے قدم تو زمین پر لگتے ہیں مگر روح کسی اور جہان میں سمو جاتی ہے۔ وہ جنگلات تو ہم کھو چکے ہیں‘ ان کی یادیں اور آج کھیتوں کی بہار کا لطف پورے سال کی تکان کو دور کر دیتا‘ اور اگلے سال کیلئے تازگی فراہم کر دیتا ہے۔