ہمیں عام لوگوں پر اعتماد رہا ہے کہ انہیں موزوں اور مناسب مواقع اور حالات نہ بھی میسر ہوں‘ اکثریت اپنی راہ بنا لیتی ہے۔ اگر انہیں ایسی حکومت مل سکے جو اُن کی سماجی ترقی کا بندوبست مؤثر طریقے سے کر سکے تو ایک ہی نسل میں سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ اعداد وشمار کو دیکھیں تو ضلع راجن پور سماجی ترقی کے انڈیکس میں پنجاب میں پسماندہ ترین ہے۔ اپنا تعلق اسی علاقہ سے ہے اور ہم اس کے سرکاری سکولوں اور تب‘ ضلع کے واحد کالج سے پڑھ کر آگے نکلے ہیں۔ یہاں اب سرکاری سکولوں‘ کالجوں اور جامعات کی کمی نہیں۔ کوئی ایسی بستی‘ ایسا گائوں اور قصبہ نہیں جہاں بچوں اور بچیوں کے لیے سرکاری سکول نہ ہوں۔ آبادی میں اضافے کے مطابق ان سکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صبح گھر سے باہر قدم رکھتے ہی سینکڑوں بچوں کو وردی میں ملبوس‘ سکول بیگ کندھوں پر لٹکائے تیزی سے سکولوں کی طرف رواں دواں دیکھ کر ایک نئے رجحان اور نئی بیداری کا احساس نمایاں طور پر ذہن میں ابھرتا ہے۔ یہ مناظر پہلے میں مرکزی اور شمالی پنجاب میں دیکھا کرتا تھا مگر اب اپنے پسماندہ علاقے میں بھی والدین کو اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے جذبے سے معمور دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ رجحان ہر گھر‘ ہر گائوں اور ہر خاندان میں یکساں طور پر نہیں۔ مختلف دیہات میں ادھر اُدھر روزانہ کے معمول کے سفر کے دوران بڑی تعداد میں بچے ٹولیوں کی صورت آوارہ گھومتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔ جب لوگوں سے ان کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کیوں سکول نہیں جا رہے تو یہ سن کر مایوسی بھی ہوتی ہے کہ بیداری سورج کی روشنی کی طرح ہر طرف ابھی نہیں پھیلی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی کبھار ایسے والدین یا ان بچوں سے بات ہوئی جو سکول چھوڑ کر آوارگی برائے آوارگی میں وقت اور زندگی کا ضیاع کر رہے ہیں تو بہانے غربت‘ وسائل کی کمی اور کئی ناقابل فہم مجبوریوں کے سننے کو ملے۔ اس بارے میں بطور استاد میرا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرنا لازمی ہو اور اگر والدین بچوں کو سکول نہ بھیجیں تو انہیں اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی پاداش میں سزا کا حقدار تصور کیا جائے۔ یہ نگرانی ضلعی حکومتوں کے فرائض میں سے سرفہرست ہونی چاہیے‘ تاکہ سب بچے سکول میں ہوں۔ اب اگر ترجیحات ہی سیاسی نوعیت کی ہوں اور ہر فریضہ صوبوں اور مرکز میں حکمران سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تابع ہو تو بچوں کو حالات کے رحم وکرم پر ہی چھوڑیں گے۔ جو میں اکثر دیکھتا ا ور اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں۔
یہ درست ہے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے‘ اس کے باوجود خوشخبری یہ ہے کہ اس سے کہیں بڑی تعداد سکولوں کا رُخ کر رہی ہے اور یہ تعداد کم نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے‘ خصوصاً اس پسماندہ علاقے میں۔ اس سے اس پھوٹی ہوئی نئی روشنی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کئی بچیاں موٹر سائیکل پر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بٹھا کر سکولوں میں جانے لگی ہیں۔ پہلے اس علاقے میں ایک بچی کے بارے میں سنا تھا اب یہ خبریں کئی علاقوں سے لوگ لاتے ہیں۔ شہروں میں تو ہم موٹر سائیکلوں کی بھرمار کا رونا ان کی ٹریفک کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے روتے ہیں مگر دیہات میں یہ سواری ایک بڑے سماجی اور معاشی انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ آپ سیل فون کو بھی شامل کر لیں تو آپ کو کچھ اندازہ ہو گا کہ کیسے ہمارے دیہات اور ان کی آبادیاں اور ان کی زندگیاں تبدیل ہو رہی ہیں۔ موٹر سائیکل نے سکولوں‘ ہسپتالوں‘ مارکیٹوں اور دفتروں تک رسائی آسان کر دی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ کوئی منظم سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام سکولوں کے لیے حکومتیں کرتیں مگر جہاں ہم معاشی طور پر کھڑے ہیں یہ دیہات میں ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ لوگوںنے ہمت کرکے اپنی راہ خود بنائی ہے‘ جو تمام تر خطرات‘ حادثات اور آئے روز پٹرول کی قیمت میں اضافے کے باوجود قابلِ بھروسہ اور کسی حد تک لوگوں کی استطاعت میں ہے۔
میرے خیال میں سماجی ترقی جب کہیں شروع ہو جائے‘ رفتار کم ہی سہی‘ تو اسے روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بچیوں کی تعلیم کے بارے میں بے حد سماجی رکاوٹیں‘ روایتی سوچ اور ملک کے کچھ حصوں میں افغان طالبان کی ذہنیت اور سوچ حاوی رہنے کے باوجود ہم اپنی جامعات‘ کالجوں اور سکولوں میں کئی برسوںسے خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ میڈیا کو بھی ہم بوجوہ معتوب کرتے ہیں مگر اس کے کئی مثبت اثرات معاشروں کی سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر گھر میں سیل فون‘ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ صرف خبریں‘ سیاسی تنازعات اور مباحث ہی نہیں‘ شہری طرزِ زندگی‘ خوشحالی کی علامات اور نئے پیشوں سے وابستہ مرد وخواتین کے کردار جب ڈراموں اور کئی شوز میں نمایاں ہوتے ہیں تو دور دراز کے علاقوں میں بسنے والے لوگ اپنے بچوں کے بارے میں خواب آنکھوں میں سجا لیتے ہیں۔ زرعی معاشرے میں اگر کوئی مثال قریب تر ہو تو دیکھا دیکھی اس کلچر میں لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے‘ ڈاکٹرز اور انجینئر بنانے کی تحریک زور پکڑتی ہے۔ ہم خود تو بطور استاد کوئی بڑی مثال نہ تھے مگر یہاں سے جب کچھ ڈاکٹر اور وکیل بنے تو یہ رجحان زور پکڑ گیا۔ اب تو کچھ لوگ بھاری فیس ادا کرکے نجی اداروں اور غیر ملکی کالجوں‘ چاہے ان کا معیار کتنا ہی پست کیوں نہ ہو‘ میں بچوں کو بھیجنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
سماجی ترقی اور معاشی تبدیلی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ معاونت کرتے ہوئے ترقی کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں نیا رجحان دیہات میں نئی خوشحالی کا مرہونِ منت ہے۔ ایسی باتیں لکھنا اور ان کے بارے میں شہروں میں کسی سے بات کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے کہ لوگ ان پر بمشکل ہی یقین کرتے ہیں۔ ہم تو گزشتہ ستر برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے علاقوں کے لوگ کیا تھے اور اب کیا ہو گئے ہیں۔ وہ سیاسی سہاروں سے نہیں‘ فقط اپنی محنت‘ جفاکشی اور جدوجہد سے آگے نکلے ہیں۔ دیہات میں بھی ایک بہت بڑی مڈل کلاس پیدا ہوئی ہے جس کا دائرہ ہر آنے والے سال مزید پھیل رہا ہے۔ جب میں چند دہائیاں پیچھے کی طرف دیکھ کر آج کے لوگوں کی خوشحالی کا ان کی ماضی کی پسماندگی سے موازنہ کرتا ہوں تو مجھے بھی یقین نہیں آتاکہ ان کے حالات مثبت انداز میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سیاست اور سیاسی لوگ اور ہماری نوکر شاہی اپنی معاونت اور عوام کی خدمت میں اس جذبے میں کمزور بھی ہوں تو عوام کی بڑھتی ہوئی اکثریت بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اب اتنی غافل نہیں جتنا ہمارے شہروں میں مایوسی کا اظہار ہوتا ہے۔
آخر میں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ سرکاری سکولوں کا معیار اور ان اداروں کے اساتذہ کے بارے میں لوگوں کو اطمینان نہیں۔ دیہات کا درمیانی طبقہ یہاں تک کہ غریب لوگ بھی اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں داخل کرا رہے ہیں کہ کہیں وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ یہ ایک بڑی بیداری کی علامت اور نئی سماجی تربیت کی ضمانت ہے۔