"RBC" (space) message & send to 7575

روایت پسندی اور انگریزی دیہات

یہاں کے دیہات کے نام بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے ساتھ تاریخ‘ افسانے اور داستانیں جڑی ہوئی ہیں۔ سیاسیات اور تاریخ کی دہلیز پر قدم رکھا تو (اب تو کئی زمانے گزر گئے ہیں)برطانیہ کے بارے میں روایت پسندی کا ذکر پڑھا۔ کئی بار‘ بلکہ بار بار خیال آتا رہا کہ کہیں ہمارے اردو میں درسی کتب لکھنے والوں نے اس ملک کو سمجھنے میں غلطی تو نہیں کر دی‘ یا ہو سکتا ہے کہ کاتب نے قلم الٹا چلا دیا ہو‘ کہ ایک ایسا ملک جس کی سلطنت میں ایک وقت میں سورج بھی غروب نہیں ہوتا تھا‘ اور تقریباً دو سو سال برصغیر پر حکمرانی کرتا تھا‘ اور پھر ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک‘ جو پورے یورپ کو تگنی کا ناچ بھی نچاتا رہا‘ کیسے روایت پسند ہو سکتا ہے؟ روایت پسندی تو ہمارے جاگیردار‘ قبائلی اور زرعی ثقافت رکھنے والے معاشرے میں تھی‘ اور جس کا بھوت اب بھی اکثریت کے ذہنوں پہ سوار ہے۔ یہاں کی اور ہماری روایت پسندی میں فرق آہستہ آہستہ نکھر کر سامنے آتا گیا۔ برطانیہ میں ہمارا آنا جانا اور کچھ دیر قیام کرنا‘ جو کبھی بھی ایک وقت میں تین چار ہفتوں سے زیادہ نہیں ہوا‘ گزشتہ پندرہ سال کے دوران ہوا ہے۔ اس سے قبل کانفرنسوں میں شرکت کی غرض سے یا آتے جاتے دو چار دن ادھر اُدھر گزارتے‘ اور رخصت ہو جاتے۔ ایک بات ضرور ہے کہ ہمیشہ اس ملک کی تاریخ کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی دل میں تحریک رہی اور جو کچھ کہیں میسر آیا‘ پڑھ لیا۔ اب تو کئی ممالک میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ذہن میں واضح ہو چکا ہے کہ آپ کسی ملک کے بارے میں جتنا بھی پڑھ لیں‘ اگر آپ وہاں کچھ عرصہ نہیں رہے‘ یا کم از کم اس کے کونوں کھدروں کی کھوج زمین پر قدم رکھ کر نہیں کی تو تاریخ کی کتابوں کی حقیقت افسانے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ برطانیہ کی روایت پسندی پر قدامت پسندی کا رنگ بھی غالب ہے۔ تہذیبی‘ اخلاقی اور ثقافتی اعتبار سے یہ ملک انقلابی نظریوں اور ایسے افکار کو گمراہ کن‘ مہلک اور ہمیشہ خطرناک خیال کرتا رہا ہے۔
یہاں کی تہذیب کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو چیز کام کر رہی ہے‘ اُسے نہ چھیڑیں‘ خواہ مخواہ کے نئے تجربے نہ کریں‘ اور جو قانون‘ روایت اور ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے‘ اُس کی فوراً اصلاح کریں‘ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اُسے ترک کرکے اس سے بہتر متبادل کا سوچیں۔ افادیت پسندی سیاسی فلسفوں کی ایک لڑی ہے‘ جو برطانوی تاریخ کے حوالے سے اس کے قوانین میں اصلاحات لانے سے متعلق ہے۔ آپ خیال کر رہے ہوں گے کہ بات تو دیہات سے شروع ہوئی اور کہاں سے کہاں نکل گئی۔ یہ تمہید ارادتاً باندھی ہے کہ آپ اس ملک کی دیہی زندگی کا کچھ عکس ہمارے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے آئینے میں دیکھ سکیں۔ جہاں آج کل بسیرا ہے‘ اس کے پیچھے کھیتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ڈھلوانوں‘ چھوٹی پہاڑیوں اور کھلی وادیوں میں سمندرکی بلند لہروں کی طرح پھیلا نظر آتا ہے۔ ہر علاقے کی زمین کی ساخت اور موسم کے مطابق کاشت کاری ہوتی ہے۔ جہاں ہم ہیں‘ کاشت کاری نہیں بلکہ زیادہ تر بھیڑوں اور گھوڑوں کے پالنے کے فارم ہیں۔ گائیں بھی نظر آ جاتی ہیں۔ ان فارموں کے درمیان پتھروں کی چند فٹ اونچائی کی دیواریں‘ معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں سے قائم ہیں۔ موسموں کے تغیر وتبدل‘ بارشوں اور ماہ وسال کے آنے جانے سے ان پر کائی اور کالا رنگ غالب آ چکا ہے مگر شاذ ونادر ہی کہیں کوئی دیوار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہو۔ ان فارموں کے ایک کونے میں جانوروں کے چھوٹے شیڈ اور انتہائی معمولی ساخت کے مختصر گھر ہیں‘ جن کی پتھر کی دیواروں کی تعمیر پتھر کے اُس قدیم زمانے کی یاد دلاتی ہے جس کا ذکر ہم چوتھی جماعت کی کتاب میں پڑھتے تھے۔ باہر سے ان دیہاتی گھروں کی تعمیر تقریباً ایک جیسی ہے‘ اور سب پتھروں سے بنے ہوئے ہیں‘ سوائے چوراہے میں چند دکانوں کے‘ جہاں سرخ اینٹیں استعمال ہوئی ہیں۔ روایت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ان فارموں کی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتے‘ ان پر رہائشی ٹائون نہیں بن سکتا۔ یہاں تک کہ گھروں کا مالک بھی ان کا بیرونی حلیہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ ضرورت پڑنے پر آپ گھر کو دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں‘ مگر اس کا حلیہ وہی پرانا رکھیں گے۔
دیہات ہوں یا شہر‘ فطری ماحول‘ درخت‘ جنگلات کی حفاظت کو مذہبی عبادت گاہوں سے بھی اہم خیال کیا جاتا ہے۔ یہاں پر کئی شہروں میں دیکھا ہے کہ جب پرانی عیسائی آبادی ادھر اُدھر نقل مکانی کر گئی‘ دیگر مذاہب کے نئے لوگ آ گئے یا لوگوں نے چرچوں میں جانا چھوڑ دیا توتنگ آکر منتظمین نے انہیں فروخت کر دیا۔ آج صبح جس سکول کو باہر سے دیکھتا رہا‘ ایک خوبصورت چرچ کی پرانی عمارت میں ہے۔ اس سکول کی جو بھی ضرورت ہو‘ چرچ کا حلیہ تبدیل نہیں ہو گا۔ ہاں‘ اس کا مصرف بدل سکتا ہے۔ جنگل کو نہ کوئی بیچ سکتا ہے اور نہ اس کا کوئی درخت کبھی کاٹتا ہے۔ آبادی میں بے تحاشا اضافہ اس وقت کسی منہ زور سیلاب کی طرح ہمارے معاشرے میں موج زن ہے۔ یہ صورت حال اور کسی ملک میں نہیں ہے۔ اس وقت تو بات ایسے ملک کے دیہات کی ہو رہی ہے جہاں آبادی کا طوفان کبھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا‘ کم از کم جدید تاریخ میں اب تک ٹھہرائو ہے۔ یہاں کوئی شخص اپنے گھر کے اندر یا اپنی جائیداد میں شہری علاقوں میں درخت کی کانٹ چھانٹ خود نہیں کر سکتا‘ سوائے چھوٹی جھاڑیوں اور باڑ کے۔ ایسی کوئی ضرورت پیش آئے تو آپ مقامی کونسل کو درخواست دیں گے‘ اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد آپ تربیت یافتہ 'ٹری سرجن‘ کی خدمات حاصل کریں گے۔ یہاں کے ٹری سرجن کا متبادل ہمارے ہاں وہ شخص ہے جس کے ہاتھ میں آپ کلہاڑی یا آرا دے کر درخت پر چڑھنے کا حکم دیتے ہیں‘ اور وہ آناً فاناً اس کو تہس نہس کرکے آپ کے سامنے پھینک دے گا۔
دیگر دیہات کی طرح امجورتھ کھلی سڑکوں‘ چھوٹے گھروں‘ درختوں کے جھنڈوں اور ہر گھر کے ساتھ کھلے سبزہ زاروں کی رونق سے آباد ہے۔ انگریزوں کو ویسے تو کئی پرانے شوق ہیں جو ان کے روایتی مزاج کا حصہ ہیں۔ دیہات کے حوالے سے ان میں سے دو کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ ایک کتوں کا‘ اور دوسرے پھولوں اور درختوں کا۔ یہاں کئی بار آ چکا ہوں‘ اور کئی سالوں سے آ رہا ہوں‘ آج تک کہیں باہر کاغذ‘ پلاسٹک یا کسی چیز کا ٹکرا پڑا نظر نہیں آیا۔ سب لوگ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ پلاسٹک کے بڑے لفافوں میں بڑے کوڑا دان میں پھینکتے ہیں۔ مقامی کونسل کی گاڑی ہفتے میں دوبار آتی اور اٹھا کر لے جاتی ہے۔ ترتیب‘ تہذیب‘ شہریت اور اس کے ساتھ ہر گھر میں ہر خاندان کی اپنی نجی زندگی ہے۔ اس روایت پسند معاشرے میں کوئی گھر پر آکر کبھی دستک نہیں دیتا۔ سوائے ڈاکیے کے‘ یا اگر کوئی مشکل صورت حال سے دوچار ہو۔ دوسرے کے آرام‘ ان کی خلوت اور انفرادیت کا پورا خیال مغربی معاشروں میں نمایاں ہیں۔ یہاں کی زندگی کا موزانہ اپنے ماحول سے کرنا مناسب نہیں۔ ہمارے اپنے رنگ ڈھنگ ہیں‘ اپنی رونقیں ہیں اور ہم تو جس حال میں ہیں‘ وہاں اور اپنے غریبوں سے بھرے دیہات میں خوش ہیں۔ اگر یہاں کی زندگی میں ہمارے لیے کوئی کشش ہوتی تو ہمیں تو جوانی کے شروع کے ایام میں کئی مواقع ملے تھے۔ ان دیہات کا ذکر کرنے کا ایک مقصد ضرور ہے کہ کاش ہم اپنے دیہات‘ زمینوں‘ جنگلات اور باغوں کو ہر چھوٹے بڑے شہروں میں بننے والی رہائشی سکیموں کے پھیلائو سے محفوظ کر سکتے۔ ایک زمانے میں اسلام آباد سے نکلتے تو ہر طرف کھیت‘ جنگلات اور سرسبز پہاڑ نظر آتے تھے‘ اب آپ کی ترقی کے لیے جب سے ایک 'جمہوری‘ حکومت نے ان کھیتوں اور پہاڑیوں کو ٹائونوں میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ہے‘ تو ہر طرف بازار ہی بازار‘ اور گھر ہی گھر نظر آتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں