دنیا کے بدلنے اور سرچکرا دینے والی رفتارکا اندازہ آپ گھروں میں ہر نوع کی سکرینوں پر ادھر اُدھر انگلیاں گھما کر نہیں کر سکتے۔ اخبارات ‘ رسالے اور کتابیں جو اَب آپ زیادہ تر سکرینوں پر پڑھتے ہیں‘ صنعت‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب در انقلاب کے بارے میں ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کی ابتدا تو سترہویں صدی میں شمالی یورپ میں ہو چکی تھی مگر جو انقلاب ہم نے اپنی مختصر زندگی میں دیکھا وہ حیران کن ہے۔ بعض اوقات تو یقین نہیں آتاکہ واقعی یہ وہی کرۂ ارض ہے جہاں ہم نے دریائے سندھ سے کچھ فاصلے پر ایک جنگل میں ہوش سنبھالا تھا اور روزانہ کئی میلوں کی مسافت پر سکول پیدل جایا کرتے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور ہماری آزادی کے ساتھ مغربی ‘ مشرقی اور جنوبی دنیا کے پرانے ملک اور نو آزاد ریاستیں تعمیرِنو ‘ نئی فکری تحریکوں ‘ نظریاتی کشمکش کے ساتھ ساتھ سماجی ‘ سیاسی اور معاشی ترقی کی راہیں تلاش کرتی ہوئی ان پر تیزی سے گامزن ہوگئیں۔ ظاہر ہے کہ ہر ملک کے حالات‘ جغرافیہ ‘ انسانی سرمایہ اور قیادت کی صلاحیتیں یکساں نہ تھیں۔ اب یہ موضوع تو کچھ بوسیدہ سے معلوم ہوتے ہیں کہ کوئی کیوں آگے نکل گیا اور دیگر کیوںپیچھے رہ گئے‘ ترقی اور جدیدیت کی ریل گاڑی کیلئے انجن کتنا طاقتور ہو‘ پٹری کتنی ہموار ہو‘ اور منزل کا رخ کیا ہو ؟ پرانی اور تازہ مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال سامراج کی بڑھتی ہوئی طاقت ‘ مغلیہ دور کی آخری دہائیوں سے ہی آپ پلے باندھ لیں اور اس سے پہلے ضروری ہے کہ دو مختلف تہذیبوں اور علاقوں کی تاریخ پر گہری نظر ہو تو شاید آج کی مسلسل بدلتی دنیا اور چھوٹی بڑی ریاستوں کے درمیان طاقت کے توازن کا آپ کچھ ادراک کر سکیں۔ایک بات جو ہم مغلیہ دور کے زوال کی کہانی پڑھتے وقت بھول جاتے ہیں وہ ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ان کے بدترین مخالف بھی نہیں کرتے اور وہ یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت اُس وقت کی خوشحال ترین سلطنت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پرتگالی‘ ولندیزی ‘ فرانسیسی اور انگریز تجارتی کمپنیاں بنا کر یہاں تجارت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔ ایسی بڑی سلطنتوں کو اور آج کی ریاستوں کو بھی مرکزیت اور مرکز میں ایسے نظام ‘ قانون اور طاقت کی ضرورت تھی جو اَب بھی ہے ‘ کہ استحکام پیدا ہو‘ قانون کی حکمرانی اورجلد انصاف مہیا ہو۔ ترقی اور خوشحالی اور تہذیبی نکھار انتشار اور کشمکش کی فضا میں پروان نہیں چڑھتے۔ مغلوں کا سب سے بڑا المیہ طاقت کی پُرامن منتقلی اور وراثتی بادشاہت کے دوام کے لیے کسی واضح نظام کا فقدان تھا۔افغانوں اور مغلوں کا ایک اور مسئلہ جو مسیحی بادشاہتوں میں نہیں تھا‘ وہ کثرتِ ازدواج اور شہزادوں کی فوج ظفر موج تھی‘ جو بادشاہ کی آنکھ بند ہوتے ہی ایک دوسرے پر دشمنوں کی طرح حملہ کرکے تخت یا تختہ کی خونیں جنگ میں مصروف ہوجاتے۔ ایسا ہی انجام مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پنجاب حکومت کا بھی ہوا جس کی فوج انگریز فوج سے بھی زیادہ طاقتور تھی۔ مرکز کمزور ہوا تو ہر طرف راجے ‘مہاراجے سلطنت کے طول و عرض میں ابھرنے لگے اور صورت حال ویسی ہی بن گئی جیسی ہم نے افغانستان میں دیکھی جہاں ریاست کے تباہ ہوتے ہی ہر طرف جنگجو چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی عمل داری دوسرے علاقوں تک پھیلانے کے لیے لڑنے لگے۔ بالکل یہی کیفیت مغل دور میں تھی۔ اپنی لڑائیوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے صاحب بہادر کی اعانت حاصل کرنے اور کمپنی کو ایک دوسرے سے بڑھ کر مراعات دینے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ انتشاراور کشمکش سے دیسی راج کمزور ہوا اور کمپنی جو خالصتاً تجارت کی غرض سے آئی تھی ‘ ہمارے وسائل ‘ ہماری زمین اور ہمارے ہم وطنوں کی مدد سے ایک فوجی طاقت بن گئی۔
ونسٹن چرچل نے اُس زمانے کی کیفیت پر عجیب تبصرہ کیا ہے کہ ہندوستان کے لوگ تب پانچویں صدی میں رہ رہے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ نہ نظام‘ نہ قانون اور نہ ہی مرکزیت اور یہی وہ اصول تھے جن کی بنیاد پر یورپ کی قرونِ وسطیٰ کی جنگیں ختم ہوئیں اور سترہویں صدی کے درمیانی سالوں میں جدید ریاست کی بنیاد پڑنے لگی۔ تہذیب اور ترقی استحکام سے پید اہوتی ہے ۔ جدید ریاستوں کے بنیادی اصول جو دہرانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا‘ ایک متفق نظام ‘ قانون کی حکمرانی اور اقتدار کی مرکزیت ہے۔ باقی ریاستی معاملات ان تینوں کی چھتری کے اندرہی طے ہوتے ہیں۔
آج کل امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ جو صدارتی آرڈر پر آرڈر جاری کر رہے ہیں‘ کون سی وفاقی ریاست‘ کسی گورنر یا حزبِ اختلاف کی جماعت سے مشاورت اور بات چیت کے بعد ان پر دستخط کیے ہیں ؟ مرکزیت کا مطلب مطلق العنانی نہیں اورنہ جمہوری آمریت ‘ کہ قاعدے اور قانون کے مطابق امن ‘سلامتی اور استحکام کیسے قائم کرنا ہے ا ور ترقی کی راہیں متعین کرنے کے لیے کون سے اقدامات کرنے ہیں۔ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے اور نتائج ہمیشہ وہی برآمد نہیں ہوتے جو مقصود ہوتے ہیں ‘ مگر استحکام اور تسلسل ہو تو سمت‘ ذرائع ‘ رفتار اور آگے بڑھنے کی تدبیریں بدلی جا سکتی ہیں۔
تین سال پہلے روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ اور سولہ ماہ سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور اب بزور طاقت نقل مکانی کے منصوبے ایک اور خطرناک دور کی علامت ہیں۔دنیا کے سامنے اتنا بڑا انسانی المیہ اورکھلی تباہی ہم نے پوری زندگی نہیں دیکھی ‘ اور یہ بھی کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کھل کر اس نسل کشی کی حمایت کررہے ہیں حالا نکہ یہی ممالک انسانی حقوق کے فلسفے جھاڑنے والوں کی جیبوں میںہر سال کچھ ٹکے ڈالتے رہتے ہیں اور ہم مغرب کی انسان دوستی کی قسمیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ غزہ میں جو ہم نے دیکھا اور پڑھا ہے اور مزید جو ہونے کے خدشات ہیں‘ وہ مجھے انسانی تاریخ کو الٹا پڑھنے پر مجبور کررہے ہیں ‘ جس میں آج کل دل اٹکا ہوا ہے۔
حاصلِ بحث یہ ہے کہ اگر دل اور آنکھیں کھلی ہوں اور ہمارے حکمران آزاد اور ہم آزاد ریاستوں میں سے ہوں تو پھر اندھیروں میں بھٹکنے کی روایت کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ ہر کوئی طرم خان بن کر جاگیرداری ریاستیں قائم کرنے کی تگ و دو میں ہو تو مرکزیت کیسے قائم ہوگی؟ اپنی صورت حال کو آج دیکھیں ‘ افغانستان کی زمین مورچہ بند جنگجو گروہوں اور بلوچ عسکریت پسندوں کا مقصد مرکزیت کو کمزور کرنا اور اگر موقع ملے تو تباہ کرنے اور اپنے آقائوں سے دادوتحسین حاصل کرنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ کچھ تاریخ بھی پڑھ لیں کہ کمپنی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ آج کل کوئی ایسی کمپنی تو نہیں مگر تین بڑی طاقتیں ‘ امریکہ ‘ روس اور چین اور کچھ نئی ابھرتی ریاستیں ہیں۔ امریکہ میں سیاسی تبدیلی مغرب کا نظریاتی رنگ بدل سکتی ہے۔ اس کے نائب صدر جیمز ڈیوڈ وائنس اب مغرب کو قدامت پسند‘ دائیں بازو کی جماعتوں کو آگے لانے اور تارکینِ وطن کے ساتھ وہی سلوک کرنے کا کہہ رہے ہیں جو وہ کررہے ہیں۔ کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ امریکی صدر کہے گا کہ کینیڈا امریکہ کی ریاست ہو‘ گرین لینڈ ہمارا حصہ ہو‘ غزہ پر ہم قبضہ کریں گے اور پچیس لاکھ فلسطینیوں کو عرب ممالک اپنے علاقوں میں بسا لیں۔ اسرائیلی فلسطین پر قبضے سے پہلے ایسی باتیں کررہے تھے مگر آج ان کے خوابوں کی تعبیر ہم طاقت کے نئے توازن کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ سوچ‘ مصنوعی ذہانت ‘ نئے جنگی ہتھیاروں اور پیداواری معیشت کے زمانے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟