ہیں تو وہ صدر‘ مگر باتیں بادشاہوں والی کر رہے ہیں۔ اُن کے اقدامات کچھ ایسے ہی ہیں۔ ابھی تو شروعات ہے‘ آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو صرف ایک ماہ اور ایک دن ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں سیاسی بھونچال آ گیا ہے‘ اور اس کے جھٹکے وقفے وقفے سے دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پہلے دن اوول آفس میں عہدہ سنبھالتے ہی دھڑا دھڑ صدارتی حکم نامے جاری کرنا شروع کر دیے۔ اسرائیل‘ مصر اور چند دیگر ممالک کے علاوہ سب کی امداد بند کر دی‘ بلکہ امدادی محکمہ کو ہی ختم کرکے اس کے دفاتر پر قفل لگا دیے‘ اور ملازمین کو بھی فارغ کیا جا رہا ہے۔ امریکی جامعات خصوصاً وہ جہاں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے تواتر سے ہوئے ہیں‘ ان پر گرفت سخت کر دی گئی ہے اور ان کی سائنسی تحقیق کی گرانٹس میں واضح کمی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت کسی کو معلوم نہیں کہ کتنے گھر جائیں گے اور کتنے کام پر رہیں گے۔ سکولوں‘ کالجوں اور جامعات میںجو تاریخ اور سماجی علوم صدیوں سے پڑھائے جا رہے ہیں ان کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے۔ پڑھائے کہیں نہ کہیں ضرور جائیں گے‘ مگر نصاب اور تاریخ نویسی کے روشن اور ترقی پسند افکار سے پاک کرکے ان کی جگہ رجعت پسندی اور پرانی طرز کے خیالات کو دی جائے گی۔ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ امریکہ کے دیہات اور قصبوں اور بڑے شہروں میں کچھ مصنفین کی تحریر کردہ کچھ اور موضوعات پر کتابیں کتب خانوں سے نکال کر باہر پھینک دی جائیں گی۔ ایک صدارتی حکم نامے میں تیسری جنس کے بارے میں ان کے کچھ الفاظ سرکاری طور پر حذف کر دیے گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پختہ جمہوریت میں انتخابی عمل کے ذریعے ایک رائٹ وِنگ ٹولے نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ نعرہ کتنا پُرکشش ہے کہ ''امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائو‘‘۔ کسی کو معلوم نہیں کہ تاریخ کے کس زمانے کا براعظم امریکہ ان کے ذہن میں ہے۔ مگر اس نعرے کے فریب میں جس طرح کوئی بیل چینی کے برتنوں کی دکان میں گھس جائے‘ وہ اداروں‘ روایات اور روشن خیالی کو تہس نہس کر رہے ہیں۔ خوف اتنا پھیلا ہوا ہے کہ کسی زمانے کے کھلے میڈیا میں بات کرنے اور کچھ لکھنے سے بھی نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ گھبرا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو تو نیویارک ٹائمز اور کئی دیگر کو مختلف ٹیلی ویژن چینلوں سے رخصت ہوتے دیکھا گیا ہے۔
سب سے پہلے تو انہوں نے اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے درآمدات پر بھاری ٹیکس لگانا شروع کر دیا ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ چین کی درآمدات کو کم یا محدود کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مگر اب تک سب کو پتا چل گیا ہے کہ یکم مارچ سے سب درآمدات پر ٹیکس برآمدات پر ٹیکس کے برابر ہو گا۔ عالمگیریت کی اس دور میں کوئی چیز بھی مکمل طور پر کسی ملک میں نہیں بنتی‘ بلکہ سینکڑوں کمپنیاں کئی ممالک میں پرزے بنا رہی ہوتی ہیں اور مصنوعات حتمی شکل کسی اور ملک میں اختیار کرتی ہیں۔ دیکھیں‘ آگے آنے والے دنوں میں عالمی انتقامی ٹیکسوں کی بھرمار سے عالمی سطح پر اشیا کی فراہمی اور قدر کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اس وقت تو یورپ‘ خصوصاً یوکرین پریشان ہے کہ ان کے ساتھ کیسا ہاتھ ہو گیا ہے۔ امریکہ سے دوستی گہری کرنے سے پہلے اگر صدر زیلنسکی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ کا کچھ جائزہ لے لیتے تو شاید اب وہ مایوسی کے عالم میں یہ کہتے سنائی نہ دیتے کہ روس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر مجھے کیوں نہ بلایا۔ بات تو میز کے ساتھ تیسری کرسی سے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب تو امریکی صدر یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ تین سال تک آپ کہاں تھے‘ جنگ کیوں شروع کی‘ شروع ہو گئی تھی تو ختم کرنے کا چارہ کیوں نہ کیا؟ معاملات پہلے ہی طے کر لیتے تو بہتر تھا۔ یورپی ممالک بھی رواں ہفتے پیرس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ امریکہ کی باتوں اور روس کے ساتھ معاملات طے کرنے سے ان کی سلامتی کا کیا بنے گا۔ اس بارے میں امریکی دہائیوں سے یورپ کو کہہ رہے تھے کہ اپنا انتظام خود کرو‘ دفاعی اخراجات اور استعداد میں اضافہ کرو اور اپنی جنگیں خود لڑو۔ مگر اس طرح اچانک نیا رخ بدلنے کے بارے میں انہیں اندازہ نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کی جنگ ختم کرنے‘ اور امن کا معاہدہ طے کرنے میں پیش رفت ہوتی ہے‘ اور شواہد بتاتے ہیں کہ اب ایسا ہو کر رہے گا‘ تو یوکرین کے ساتھ بھی بات چیت ہو گی۔ آگے چل کر اس کی قیادت کو بھی میز پر بٹھا دیا جائے گا۔
نائب صدر جے ڈی وینس نے تارکین وطن کی روک تھام میں کمزوری اور قدامت پسند سیاسی جماعتوں کو کھلی چھوٹ نہ دینے کی یورپ سے شکایت کی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی جمہوری ممالک کی سیاست پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش میں ہے۔ ٹرمپ ٹولہ اپنی جیسی قیادت اور سیاسی تحریکوں کو ہوا دے کر جدید لبرل ازم کو دفنانے کی فکر میں ہے۔ چند دنوں بعد ہی معلوم ہوگا کہ جرمنی میں انتخابات کے کیا نتائج نکلتے ہیں‘ مگر تمام پرانے جمہوری ممالک میں قومیت اور نسل پرست تحریکوں کے زور پکڑنے کے خدشات واضح دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے قومیت پرستوں کو رنگ دار لوگوں کی اپنے معاشروں میں موجودگی اچھی نہیں لگتی۔ ایسا تو اب شاید ممکن نہ ہو کہ جو لوگ شہریت حاصل کر چکے ہیں‘ انہیں غیر قانونی تارکین وطن کی طرح جہازوں میں بھر کر کسی ملک میں چھوڑ آئیں‘ مگر معاشی اور سماجی حالات بگڑے تو یورپ اور امریکہ میں تارکین وطن کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات کی مہم کے دوران جو باتیں ٹرمپ نے ہیٹی کے تارکین کے بارے میں کیں کہ وہ مقامی لوگوں کے کتے اور بلیاں ذبح کرکے کھا گئے ہیں‘ تو ان لوگوں کے خلاف نفرت اتنی بڑھی کہ اکثریت کو ہجرت کرکے کہیں اور جانا پڑ گیا۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے خطرات کہیں زیادہ نمایاں ہیں۔ ابھی غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت ہو رہی ہے‘ اور امریکہ نے اس وقت دو ہزار انتہائی تباہ کن (غیر جوہری) بم اسرائیل کے حوالے کر دیے ہیں۔ اسرائیل یہاں تک کہہ رہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ اب ایران کی طرف رخ کیا جائے۔ یہ بات محض خدشہ نہیں‘ بلکہ جس طرح کی قیادت آج کل امریکی نظام پر قابض ہو چکی ہے‘ لگتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے اور وہاں کی قیادت کو تبدیل کرنے کا پرانا خواب پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی پہلے بھی لین دین پر مبنی تھی‘ اور اب آپ اس میں کئی گنا اضافہ دیکھیں گے۔ بھارت کے وزیراعظم جب وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ سے گلے مل رہے تھے تو سینکڑوں بھارتیوں کو ہاتھ پائوں باندھ کر فوجی طیاروں میں ڈال کر امرتسر اتارا جا رہا تھا۔ مودی صاحب نے ایک لفظ بھی میڈیا کے سامنے نہیں کہا۔ مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی‘ اور صرف اسلحہ اور دیگر امریکی مصنوعات خریدنے کی ترغیب پر سر ہلاتے رہے۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ڈیمو کریٹک پارٹی میں اس کی حمایت ٹرمپ کے نشانے پر ہیں۔ وہ اس وقت بزور طاقت‘ جو صدر کے اختیارات کی نئی آئینی تشریح سے تعبیر ہو رہی ہے‘ سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی۔ یہ جمہوریت نہیں‘ بادشاہت لگتی ہے۔