"RBC" (space) message & send to 7575

بے زبان لوگ

ہماری تاریخی اور قومی روایت دوسروں سے بہت مختلف ہے۔ یہاں لوگوں کی بات سننا تو درکنار‘ ان بھوکے ننگے اور میلے کپڑوں میں لپٹے انسانوں کی طرف اشرافیہ اور حکمرانوں کی نظر بھی نہیں اٹھتی۔ کسانوں‘ مزدوروں اور دیہاتیوں کے بارے میں مروجہ رویہ خصوصاً جب سے جمہوریت مزید جمہوری رنگ نکھار کر بدلے پہ بدلہ لے رہی ہے‘ یہ ہے کہ انہیں خریدا جا سکتا ہے‘ ضرورت پڑے تو دبایا جا سکتا ہے اور عام حالات میں انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر طاقت کے چھوٹے بڑے ایوانوں میں آرام دہ‘ پُرسکون ماحول میں ان کی قسمت کے فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں کہ مقامی‘ سیاسی گھرانے اور ان کی دست وبازو ضلعی انتظامیہ اور صدیوں کے سب محکمے ان کو مضبوط زنجیر اطاعت میں باندھے رکھیں گے۔ کمزور‘ نامعقول اور ناکام بندوبست کے پیچھے حکمران طبقات کا ایک غلط سماجی نظریہ ہے کہ عام لوگ گائے بھیڑیں ہیں‘ اور ہاتھ میں لاٹھی مضبوطی سے تھامی ہوئی ہو تو انہیں ہانک کر نسل در نسل اس حالت میں رکھنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ صدیوں تک یہ خیالِ بادشاہی اقتدار کے جواز اور دوام میں کارفرما رہا ہے۔ جہاں سماجی انقلاب‘ صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی نے لوگوں کی قسمت بدلی‘ وہاں میرا ووٹ‘ میری مرضی کا اصول سیاسی جائزیت کی بنیاد ٹھہرا ہے۔ جمہوری اور کچھ دیگر قسم کے نظاموں میں فرق صرف مرضی کا ہے کہ وہ حکمرانوں کی چلے گی یا عام انسانوں کی۔ بات بھی تو لوگوں کی وہاں سنی جاتی ہے اور اس میں اثر پذیری کی روح موجزن ہوتی ہے‘ جہاں احترام آدمیت اور خدمت خلق کے جذبوں سے بھرپور سیاست کی جاتی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم بھی معاشرے‘ معیشت اور سیاست پر تبصرے بڑے بڑے شہروں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر کرتے ہیں‘ اور کچھ ہمارے ہی میدانوں کے نوجوان کھلاڑی مائیک اور کیمرہ بازاروں اور چوراہوں میں تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ اور ''آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ کا روایتی سوال دہراتے ہیں۔ شاید ہی کسی مرد یا خاتون کو غیر جذباتی انداز میں بات کرتے دیکھا ہو۔ ہم آوارہ گرد لوگوں کی صف میں بغیر کوئی رکنیت کا فارم بھرے ایک عرصہ سے اپنے آپ کو شمار کرتے آئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اس خود شماری پر کوئی اعتراضات کی ایسی بوچھاڑ نہ کر دے جو اکثر ناپسندیدہ امیدواروں کے خلاف کاغذاتِ نامزدگی کے وقت مخالفین کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ شوقِ آوارگی کا رخ اپنے دیہات کی طرف ہوا ہے تو ہر مرتبہ کچھ پرانے خیالات کی تصدیق اس گرم دھوپ جلی زمین پر رینگتے انسانوں سے ملاقات کے وقت ہو جاتی ہے۔ پنجاب کا وہ مفلوک الحال حصہ‘ جو صدیوں سے وڈیروں‘ مخدوموں اور سجادہ نشینوں کے تسلط میں ہے‘ ہمیں اپنی محبت میں بار بار کھینچ کر لے جاتا ہے۔ موسموں کی کوئی قید ہے نہ وقت کی۔ گزشتہ پانچ دنوں سے یہاں کے موسم گرم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ بہت بدلے سماج کا نقشہ اور قدم بقدم اپنے آبائی علاقے میں بیگانگی کا احساس گرم لُو کی تپش کی طرح ذہن میں جاگزیں ہے۔ بہت کچھ بدل چکا مگر کچھ اچھی روایات‘ سماجی رکھ رکھائو‘ باہمی عزت واحترام اور بھائی چارہ قائم ہیں۔ پرانے لوگ اب بھی ایک دوسرے کو راستہ دیتے ہیں۔ چھوٹا موٹا نقصان برداشت کرکے سہولتیں دیتے ہیں اور ضرورت کے وقت ساتھ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ذاتی مشاہدہ تو گزشتہ چند دنوں میں ایسا ہی ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ بھی عاجزی‘ محبت اور خلوص کے ساتھ کسی کے ساتھ ہاتھ ملائیں‘ بیٹھیں اور کسی مطلب کی غرض سے نکل کر کچھ دیر دل کی باتیں کریں۔ زراعت اور آج کل حکومت کے کل پرزے جسے گندم کا بحران کہتے ہیں جو دراصل ان کی اخلاقیات اور طرزِ حکمرانی کا بحران ہے‘ ان دور دراز کے علاقوں میں ہمارے ابتدائی مگر آخری جملے تک موضوع گفتگو رہے۔
لوگوں کو کھل کر بات کرنے کا موقع تب ملتا ہے جب اُن کے دل کی بات کی جائے‘ اور ہر ایک طبقے کے دل کی بات ان کے مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ ہر ایک ملنے والے سے‘ جو ابھی تک درجنوں میں ہو چکے ہیں‘ جب پوچھتے ہیں: گندم کی فی ایکڑ پیداوار کتنی رہی اور اگر بیچ دی تو آپ کو منڈی میں کیا ریٹ ملاہے؟ تو چہروں پر افسردگی چھا جاتی ہے۔ نفع تو دور کی بات ہے‘ اخراجات‘ قرض کی رقم کی واپسی اور اگلی فصل کی تیاری کی فکرمندی میں بیچارے یہ چھوٹے زمین دار ڈوب جاتے ہیں۔ کچھ روایتی انداز میں اپنے دکھ کی کہانی مختصر کرنے کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور 'گزارہ چل رہا ہے‘ کہہ کر بات کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ''کسان کارڈ آپ نے کیوں نہ لیا؟ سود خور دجالوں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اس سوال پر وہ روہانسے ہو جاتے ہیں۔ سنیں ان کی زبانی: کسان کارڈ لیا‘ اس پر ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ملتے ہیں۔ پانچ ہزار تو بینک نے کارڈ کی فیس کاٹ لی‘ جس کھاد ڈیلر کے پاس وہ کارڈ لے کر گئے‘ اُس نے تین سو روپے سے لے کر پانچ سو روپے فی بوری کی کٹوتی کی۔ جب فی ایکڑ کوئی فصل کاشت کرنے کے لیے کم از کم پچاس ہزار کی ضرورت ہو تو اکثر کاشت کاروں کے پاس سود خور کے پاس جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہی لوگ مقامی غلہ منڈی‘ جو کسی منظم شکل میں نہیں‘ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یوریا کی بوری گندم کی فصل کے لیے ادھار پر چھ ہزار کی دی جاتی ہے جبکہ اصل قیمت چار ہزار پانچ سو روپے تھی۔ کہا کہ ہمیں گندم کی فی من قیمت اکیس سو پچاس روپے دی۔ آپ خود سوچیں کہ ہمیں کیا ملا۔ تو پھر آپ نے کسی اور کو کیوں گندم فروخت نہ کی؟ اس لیے کہ آئندہ قرض پر کھاد اور دیگر اشیا ہمیں کہاں سے ملیں گی۔ صرف وہ خوش ہیں جن کی اوسط پیداوار نسبتاً زیادہ ہے‘ اور وہ قرض کے بوجھ سے محفوظ ہیں۔
آپ حکومت سے کیوں نہیں کہتے کہ نہروں کے نظام کو بہتر بنائیں‘ پانی کی چوری کو روکیں اور گندم کا ریٹ اچھا دیں۔ ہمیں وہ حکومت کے قریب سمجھنے کے ظن کا شکار ہیں۔ کچھ تو موقع ملتے ہی نوکریوں کی درخواست کا زبانی پروانہ جاری کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ ڈگریاں لی ہوئی ہیں‘ ایم اے‘ ایم فل اور نہ جانے کیا کچھ کیا ہوا ہے‘ کہیں روزگار نہیں ملتا۔ کس کس کو سمجھائیں کہ ہمارا تعلیمی نظام بوسیدہ ہے‘ اور صنعتی ترقی کی رفتار کو رفتار کے میٹر سے نہیں‘ نقطہ ا نجماد کے پیمانے سے ماپنا پڑ رہا ہے۔ اب اس سوال کا کیا جواب دیں کہ حکومت رہے گی‘ اپنی مدت پوری کرے گی یا کچھ اور ہو جائے گا۔ ہم اپنی لاعلمی کا اعلان کرتے ہوئے موضوع زراعت اور معاشرے کی طرف لے آتے ہیں۔ لوگ تو اپنی کہانیاں بغیر کچھ کہے بھی اگر آنکھیں کھلی ہوں تو یہاں سڑکوں پر سناتے نظر آتے ہیں۔ سالوں سے ٹوٹی سڑکوں پر روزانہ رینگتے موٹر سائیکل رکشوں میں مرغیوں کی طرح بھری خواتین اور بچوں کو میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس پسینے میں شرابور کپاس کی کاشت کی مزدوری کے لیے جاتے دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ نہ جانے کون سا انقلاب ان کی تقدیر بدلے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں