"RBC" (space) message & send to 7575

کچھ تو پتا چلا

ایران نے ایک اور مثال قائم کر دی ہے۔ بہادری‘ جرأت اور استقامت کی۔ جنگ جنہوں نے جس طرح اچانک اس پر مسلط کی تھی‘ اسی طرح غیر متوقع طور پر اچانک ہی رات کے اندھیرے میں اسے ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ یہ جنگ کون جیتا اور کون ہارا‘ اس کے بارے میں ہم بیانیے‘ قصے اور کہانیاں ہر طرف سے سنتے رہیں گے۔ ہم نے ہمیشہ یہ گزارش کی ہے کہ جدید جنگیں کوئی نہیں جیت سکتا‘ فقط کسی کا زیادہ تو دوسروں کا کم نقصان ہوتا ہے۔ سیاست‘ معاشرے اور معیشت پر اتنے گھائو لگتے ہیں کہ بھرنے میں بہت عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ہم نے فتح کے اعلان اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے سب سے پہلے سنے ہیں‘ مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کے بیان میں حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔ تازہ فرمان یہ ہے کہ اگر وہ جنگ بند نہ کرواتے تو یہ کئی سال تک جاری رہتی اور اس کا دائرہ پورے علاقے تک پھیل جاتا۔ بالکل درست فرمایا آپ نے۔ یہی تو ہم ایران کے حوالے سے بات کر رہے تھے کہ زخم پر زخم ضرور کھائے گا‘ نقصان بھی برداشت کرے گا‘ مگر آپ کے سامنے جھکے گا نہیں۔ ایران نے عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ سے‘ جسے امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی ہر قسم کی اعانت حاصل کی تھی‘ کچھ سبق پہلے ہی ذہن میں بٹھا لیے تھے۔ لڑتے رہو‘ قربانیاں دیتے رہو‘ دشمن خود ہی تھک ہار کر مذاکرات کی میز پر آئے گا۔ نہ وہ اور نہ یہ جنگ ایران نے شروع کی۔ دونوں جنگیں دفاعی انداز میں لڑی گئیں۔ پہلی میں بے پناہ‘ لاکھوں میں جانی نقصان ہوا‘ تو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ حالیہ جنگ میں بہت سا مالی اور دفاعی نقصان اسے برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ اور کون سا راستہ تھا کہ اپنا بھرپور دفاع کرے؟ پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں‘ گزشتہ کسی مضمون میں‘ کہ امریکہ کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ کھلے دل اور صاف نیت سے کیا تھا‘ اور آج تک کسی غیر جانبدار ادارے نے یہ بات نہیں کی کہ ایران نے اس کی کوئی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا اور ان کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب‘ جنہوں نے کئی دیگر بین الاقوامی معاہدوں سے دستبرداری کی روایت قائم رکھتے ہوئے اس دو طرفہ سمجھوتے سے راہِ فرار اختیار کی۔ دوبارہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو کچھ حدود میں رکھ کر مغربی اور علاقائی ممالک کی تشویش کو دور کرنے کی غرض سے مذاکرات میں شامل ہوا۔ اگلے دور سے صرف ایک دن پہلے اسرائیل نے حملہ کر کے اس کے خلاف پیش بندی کر دی۔ بحرِ اوقیانوس کے اُس پار اچھی طرح معلوم تھا بلکہ شہ دی گئی کہ بزورِ طاقت ایران کے جوہری اثاثے تباہ کر دیے جائیں۔
سفارت کاری کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ دوسرا فریق مذاکرات کا انتظار کر رہا ہے‘ میزبان بھی تیار بیٹھے ہیں اور کسی حتمی نتیجے کا انتظار کیے بغیر پوری طاقت سے اور جدید اسلحے کے زور پر ایران پر چڑھائی کر دی گئی۔ مقاصد کچھ اور تھے۔ اولین تو یہ رہا ہے کہ ایران کی اسلامی حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ اُسی نظریاتی اور سیاسی رنگ ڈھنگ کے لوگ اقتدار کی کرسی پر بٹھائے جائیں جو امریکہ اور مغرب کے تزویراتی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ اسے ذرا اور کھول کر دیکھیں تو مطلب اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں آباد کاری‘ توسیع پسندی اور غزہ میں نسل کشی پر ایک اہم اور دہائیوں سے مسلم ممالک میں گونجتی آواز کو خاموش کر دیا جائے۔ ایران کا جوہری پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی عرب ملک تمام تر تیل وگیس کے ذخائر اور کھربوں ڈالرز کی دولت اور اسلحہ‘ جس کا انحصار امریکہ پر ہے‘ کے باوجود اسرائیل کے سامنے کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتا۔ 1973ء کی جنگ میں مصر کو اسرائیل کے لیے فوجی میدان میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ بہت سے علاقے واگزار کرا لیے تھے‘ پیش قدمی جاری تھی اور اسرائیلی پسپائی کا شکار تھے۔ آخری حربہ انہوں نے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کا استعمال کیا۔ مصر کو جنگ بندی کرنا پڑی اور بعد میں امن کا معاہدہ بھی‘ جس کے بعد عرب قومیت اور مزاحمت کا سورج غروب ہونا شروع ہو گیا۔ انقلاب کے بعد ایک مختلف ایران علاقائی طور پر ابھرا تو پورے خطے میں نئی صف بندی ترتیب پائی۔ پورا زور‘ جو کبھی اسرائیل کو محدود کرنے کے لیے تھا‘ اب ایرانی انقلاب کو محدود کرنے کے لیے آزمایا جانے لگا۔ تاریخ کے کئی اور ابواب پر ابھی پردے پڑے ہیں کہ اس خطے کے مسلم ممالک میں سے کس نے کیا کیا‘ اور ان کی دوستیوں اور دشمنیوں سے کس کو نقصان اور کس کو فائدہ ہوا۔ تین باتیں تو واضح ہیں۔ اسرائیل گزشتہ چالیس سالوں میں کئی گنا طاقتور ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ دفاعی سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس کا خطے میں کوئی ہم پلہ نہیں۔ مغرب نواز عرب ممالک میں ایک مختلف قسم کی خوشحالی آئی ہے۔ یہ وہ اقتصادی ترقی نہیں جو آپ صنعتی ممالک میں دیکھتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ان سب تیل پیدا کرنے والے ممالک میں دولت کی فراوانی ہے‘ عیش و عشرت کے سب سامان ہیں اور شاہی محلات ایسے کہ اگر ہمارے مغل بادشاہ ایک بار زندہ ہو کر دیکھیں تو ان کے جمالیاتی ذوق کا مذاق اڑائیں۔ صرف ڈونلڈ ٹرمپ دادِ تحسین دے سکتا ہے کہ مغرب اور امریکہ کے ارادے بہت نیک ہیں کہ یہ محلات بنائیں‘ جزیرے خریدیں‘ ان کے شاہی ہوائی جہاز بھی اڑتے محلات ہوں‘ اور عام شہری سے لے کر بیچارے غیر ملکی مزدور تک صنعتی ممالک کی چمکتی اشیا کے وفادار صارفین رہیں۔ عربوں کی خوشحالی ان کی قوتِ خرید میں ہے۔ درست ہے کہ وہ سیاحت اور خدمات کے شعبے میں بھی ترقی کر رہے ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ امریکہ اور یورپ کے ساتھ تزویراتی یک رنگی کے طفیل ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ جو کبھی عرب انقلابی ممالک تھے‘ اب وہ اپنا سب کچھ لُٹا چکے ہیں۔ سب خانہ جنگیوں سے نکلنے کی کاوش میں امریکہ کے ساتھ رشتے جوڑ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد اس خطے میں بہت بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔
ایران ہی واحد ملک ہے جو مزاحمت کرتا رہا ہے۔ ابھی جو بارہ دنوں کی جنگ اس کے خلاف امریکہ اور اسرائیل نے لڑی‘ اس کے دو ہی مقاصد تھے: ایک‘ اس کا جوہری پروگرام دھماکوں سے اڑا دیا جائے‘ اور دوسرا‘ وہاں حالات ایسے پیدا کیے جائیں کہ ایرانی حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کی توقع کے برعکس ایرانی قوم ایک مضبوط پہاڑ کی طرح کھڑی ہو گئی اور نہ صرف اپنا دفاع کیا‘ بلکہ پہلی مرتبہ کسی علاقائی ملک نے کسی جنگ کو اسرائیل کے شہروں تک پہنچایا ہے۔ارادے تو یہ تھے کہ ایران کو ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم دیں گے‘ اور اگلے دن اپنی شرائط پر جنگ بندی ہو جائے گی۔ لیکن ایرانی میزائل‘ سب نہیں تو کچھ‘ محبت کا پیام لے کر آسمان سے گرتے رہے۔ ایران اور اس کی حکومت کے بارے میں کئی مفروضے تھے جو سب اب دم توڑ چکے ہیں۔ جنگوں کے بعد سب فتح کے جشن منائیں گے‘ لیکن میرے نزدیک فتح تو ایران کی ہوئی کہ پوری دنیا میں تن تنہا اس نے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ کچھ اور باتیں ہیں جو دور رس نتائج کی صورت حاصل ہوں گی۔ اسرائیل اور امریکہ کی اس خطے میں تھانیداری کمزور پڑے گی۔ جنگی جنون صرف جنون ہی رہے گا‘ کہ عملی میدان میں اس کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دیکھیں‘ ایران ایک نئے جوش اور جذبے سے اپنا جوہری پروگرام شروع کرتا ہے یا کوئی اور فیصلہ ہوتا ہے۔ آئندہ آنے والے ہفتوں میں ہم دیکھیں گے کہ اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے مندرجات کیا ہو سکتے ہیں۔ ایران کو فتح مبارک ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں