"RBC" (space) message & send to 7575

باغِ لاہور کی نہر

پہلے بھی لکھا تھا‘ اسے آج بھی دہرانے میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی مسافر کہیں سے بھی لاہور کی نہر کی سڑک پر ٹھوکر نیاز بیگ سے داخل ہو تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک وسیع وعریض باغ کے درمیان میں سے گزر رہے ہیں۔ اب لاہور میں نہ رہتے ہوئے بھی اس شہر‘ اس نہر اور اس کے ساتھ آباد جامعہ پنجاب سے اتنی محبت ہے جو کسی زمانے کے سچے عاشقوں کو اصلی اور نسلی محبوبائوں سے ہوا کرتی تھی۔ اب آپ کو بتا دیتے ہیں کہ اسی نہر کے کنارے پر ہم نے ایک زمانے میں محبتیں پروان چڑھتی دیکھیں۔ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ نہر کے کنارے پر درختوں کی قطاروں کے متوازی نوجوان جوڑے کیمپس اور ہوسٹلوں کے درمیان آتے جاتے پانی کے اندر پھینک دیے جائیں۔ ابھی یہ کیمپس نیا نیا بنا تھا۔ یہ ہمارے یہاں آنے سے چند سال پہلے کی بات ہے۔ جامعہ پنجاب کے درمیان صرف نہر ہی بہتی تھی اور کناروں پر درختوں کی بہار کے علاوہ بھی ہر طرف ہزاروں کی تعداد میں درخت لگائے جا چکے تھے۔ اس کے مغربی طرف‘ جہاں تدریس اور تحقیق کے شعبے ہیں‘ نہر کے کنارے چلنے کے لیے کچا راستہ تھا‘ سڑک نہ تھی۔ مشرقی طرف کیمپس کے آخری ہوسٹل سے کچھ فاصلے پر جہاں روڈ ریسرچ سنٹر ہوا کرتا تھا‘ یہ معمولی سڑک ختم ہو جاتی تھی۔ اُس سے آگے کھیت اور نہر کے کنارے کچھ سڑک تھی‘ مگر سابق گورنر ملک غلام مصطفی کھر نے اپنے عروج کے دور میں کچھ فاصلے پر ''کھر ہائوس‘‘ بنوایا جو کسی دیہاتی وڈیرے کے ڈیرے سے کچھ زیادہ نہ تھا۔ اسی کچی سڑک پر جب وہ اپنے ہی مربی کے ہاتھوں زیرِ عتاب تھے تو یہ درویش پیپلز پارٹی کے اپنے علاقے کے چند دوستوں کے ہمراہ اُنہیں کھر ہائوس کی چارپائیوں پر مرغیوں اور بطخوں کے درمیان ملا تھا۔ اُس زمانے کے جغرافیے اور تاریخ کا یہ کچھ ذکر اس تمہید کے طور پر کیا ہے کہ کیسے آبادی کے پھیلائو اور دہائیوں سے لاہور اور پنجاب پر حکومت کرنے والے خاندان کی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کے شہروں میں خوشی اور اطمینان سے زندگی گزارنا محال ہو چکا ہے۔
کل ہی ہمارے پرانے دوست شوکت جاوید صاحب‘ جو اپنے دور کے دبنگ پولیس افسروں میں شمار ہوتے تھے اور اب فطری ماحول‘ درختوں‘ پھولوں اور سبزہ زاروں کے ر کھوالوں کی صف میں شامل ہیں بلکہ سب سے دو قدم آگے ہیں‘ کا دکھ بھرا فون آیا اور مجھے یاد دلایا کہ کبھی آپ نے نہر اور اس کے کناروں پر ہر ے بھرے درختوں کو باغ کہا تھا‘ وہ اب خطرے میں ہیں۔ لاہور کی تاریخ گواہ ہے کہ جب یہاں سلطنتیں مسلط ہوئیں‘ انہوں نے اس باغوں کے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور جب لاہوریوں کو موقع ملا‘ انہوں نے بھی شہر کا حشر نشر کر دیا۔ لگتا ہے کہ حکمران لاہور اور لاہوریوں سے انتقام لینے کے درپے ہیں۔مگرباغوں کے شہر کی ترقی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کوئی کیسے ہضم کر سکتا ۔ جب چھوٹے میاں صاحب کا تیسرا دور تھا تو ان پر اورنج لائن کی دھن سوار تھی۔ لاہور کے باشعور شہریوں‘ سماجی تنظیموں‘ لاہورکے تاریخی‘ ثقافتی اور تعمیراتی حسن کی شناخت رکھنے والوں نے ہر طرف صدائے احتجاج بلند کی‘ بے شمار سیمینار منعقد کیے‘ مگر من مانیاں ہو کر رہیں۔ ایسی ٹرینیں دنیا میں زمین دوز راستوں پر چلتی ہیں۔ یہ صرف مغربی ممالک کی بات نہیں‘ ہمارے ہمسایہ ملک نے بھی ایسا کر دکھایا ہے۔ راستہ بنانے کے لیے دو ہزار درخت جان کی بازی ہار گئے۔ اب ہمارے جیسے پرانے عاشقانِ لاہور آہیں بھرتے ہیں اور نیند میں بھی بددعائیں ضبط میں نہیں رہتیں۔اب لاہور نہر کے کنارے درختوں کو کاٹ کر بسوں کی لائن بنانے اور ہمارے ٹیکسوں کے 90 ارب روپے لگانے پر مصر ہیں۔ خدشہ ہے کہ میری عمر کے 14 ہزار درخت وہ کٹوا کر رہیں گی۔ اب صرف 27 ہزار 950 درخت اور پانچ ہزارکے قریب جھاڑیاں باقی ہیں۔ آپ خود سوچیں‘ معاشرے کے خلاف طاقتور لوگ دیہاڑیاں لگانے کے چکر میں کیا کیا مظالم کر جاتے ہیں۔ اس سے پہلے جو ہو چکا ہے‘ اس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ جب اس تاریخی اور خوبصورت نہر کے دونوں جانب سڑک کو توسیع دی گئی تو 1300 درخت کاٹ دیے گئے۔ اس طرح جب چھوٹے میاں صاحب دوسری بار تخت پنجاب پر براجمان ہوئے تو پنجاب اور لاہور کی خدمت کے لیے جامعہ پنجاب کے درمیان ایک نئی سڑک گزاری گئی۔ احتجاج ہوتے رہے اور ساتھ ہی جامعہ کے 120درختوں‘ جو میلوں دور سے نظر آتے تھے‘ پر مطلق العنانی کا کلہاڑا چل گیا۔ بسیں ہی چلانی ہیں تو موجودہ دورویہ سڑک پر چلائی جا سکتی ہیں۔ مسئلہ لاہور میں سڑکوں کی تنگی کا نہیں‘ بے ہنگم ٹریفک کا ہے جس پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے لاہوریوں‘ کسی زمانے کے زندہ دل والوں‘ عاشقانِ شہر اور اس کی ثقافت اور باغوں سے محبت کرنے والوں سے درخواست ہے کہ اس ہمارے زمانے کی نہرِ محبت کی یادوں کے گہوارے اور اس عظیم زمین کے اس باغ کوا جڑنے سے بچائیں۔ ان ڈھکوسلوں میں نہ آئیں کہ ایک درخت کاٹنے کے بدلے میں سو اور لگائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر سال جو اس موسم میں دکھاوے کی شجر کاری ہوتی ہے‘ اب تک جنگلات میں درختوں کی تعداد کو کئی ہزار گنا زیادہ کر چکے ہوتے۔ شکر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے ابھی تک فیصلہ دے رکھا ہے کہ کوئی درخت نہیں کاٹا جائے گا‘ مگر آج کے دور کے 'شہنشاہی نظام‘ جو انگریزی کے نام کا دیسی ترجمہ ہے‘ میں عدالتوں کے احکامات راتوں رات کوئی قانون بنا کر ادھر اُدھر دبا دیے جاتے ہیں۔ بات عوام کی بیداری‘ شعور اور عملی اقدام کی ہے۔ لاہور ہماری ثقافتی‘ ادبی‘ علمی اشرافیہ اور ممتاز تاریخی خاندانوں کا مرکز ہے۔ آپ سب خاموش رہے اور لاہور کے باغوں کے ساتھ یہ تیسرا یا چوتھا سانحہ بھی چپکے سے گزرنے دیا تو یہ درختوں کے خلاف اس ظلمِ عظیم میں شرکت کے مترادف ہو گا۔ میں درویش اور کمزور سہی‘ مگر یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ شہری آبادیوں‘ اس کے باغوں‘ پارکوں اور سرکاری املاک‘ نہروں‘ ندیوں اور دریائوں کے کنارے قدرتی اور خود لگائے گئے درختوں کو کاٹنا جرم ہے۔ یہ فطرت کے خلاف اقدام‘ شہریوں کے حقوق کی پامالی اور لاہور کی شناخت کی بربادی ہے۔ جاگیں‘ قدم بڑھائیں۔ ہم بھی اپنا ایک سفری قافلہ لے کر نہر کے کنارے پڑائو ڈالیں گے۔ البتہ ماضی کے ایسے پڑائو اور احتجاجوں کو سامنے رکھیں تو وہ سب بے نتیجہ رہے۔ اس سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ لاہور کی ثقافتی اشرافیہ اور سماجی تنظیمیں نہر بچائو تحریک کو بغیر کوئی سیاسی رنگ دیے فقط جنوبی ایشیا کے اس منفرد شہر کی تاریخی شناخت کو محفوظ بنانے کی خاطر تمام وسائل بروئے کار لائیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے وزیراعلیٰ صاحبہ نے یہ مناسب سمجھا یا نہیں کہ لاہور کے شہریوں سے بھی مشاورت کی جائے۔ دنیا میں جب اتنے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں تو سب کی بات سنی جاتی ہے اور اتفاقِ رائے پیدا کیا جاتا ہے۔ شکاگو‘ نیویارک اور لندن جیسے شہروں میں‘ جو جنگلات میں گھرے ہوئے ہیں‘ ایک عمارت بنانے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے کئی سال کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ جلدبازی اور یکطرفہ فیصلوں سے ہم شہروں کا بہت نقصان پہلے کر چکے ہیں۔ لاہور شہر کی جو اپنائیت اور اس کی شہر کی محبتیں ہیں‘ ہمیں اسی طرح بلکہ زیادہ لوٹانی چاہئیں۔ آج کے حکمرانوں کو تو اس شہر نے بنایا ہے‘ کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کا بہت بڑا قرض بنتا ہے۔ کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ اس کا قدرتی حسن‘ باغات اور یہ نہر اور اس کے گرد سرسبز درخت اپنی روایتی شان سے ہمیشہ کے لیے قائم رہیں۔ یہ سب کچھ لاہوریوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔ ہم کمزور لوگ درخواست ہی کر سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں