ہماری عمر کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ہم جب اپنے گاؤں‘ قصبوں اور شہروں سے کہیں اور کا سفر کرتے تو گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے اڈے معقول اور وسیع تھے اور بسیں ہر سمت دن میں کئی بار جانے کے لیے تیار ملتی تھیں۔ بس وقت پر چلتی‘ سپیکر پر اعلان ہوتا اور ایک زمانے میں صاف ستھرے اور باوردی ڈرائیور اور کنڈکٹر مسافروں کو خود خوش آمدید کہتے۔ ساتھ ہی نجی کمپنیوں کی بسیں‘ جو تعداد اور منزلوں میں بہت کم اور اکثر مقامی شہروں کو دیہات سے جوڑتی تھیں‘ مہیا ہوتی تھیں۔ بسوں اور ٹرینوں کی سرکاری شعبے میں ترقی اور کارکردگی کا سنہری دور فیلڈ مارشل ایوب خان کا تھا۔ آج کے زمانے میں یہ ناقابلِ یقین لگتا ہے لیکن تب میرے دور دراز کے گاؤں نما قصبے سے بھی صبح سویرے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بس روانہ ہوتی اور شام کو اپنا سفر ضلع ڈیرہ غازی خان تک مکمل کرنے کے بعد واپس آتی۔ ریلوے کا نظام بھی ابھی کرپشن اور لوٹ مار کا شکار نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے اپنے اسی آبائی قصبے کے ریلوے سٹیشن پر‘ جو اَب بھوت بنگلہ بنا ہوا ہے‘ دو ٹرینیں رکتیں اور ہم راولپنڈی سے شام کے وقت ایک ٹرین میں سوار ہوتے اور دوسرے دن دوپہر کے بعد اپنے گھر پہنچ جاتے۔ وقت اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا۔ یہ سہولت ایسی تھی کہ سونے‘ کتاب پڑھنے اور کھڑکی سے دوڑتے مناظر دیکھنے میں وقت کا کوئی احساس نہ ہوتا۔ ہر بڑے شہر میں اومنی بسیں چلتی تھیں‘ جس کا محکمہ اور نظام الگ تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں مجھے یاد نہیں کہ لاہور میں کبھی کسی وین میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہو‘ جو انسانوں کو اس طرح لے کر چلے کہ وہ مرغی خانے یا قیدیوں کی وین کا امتزاج لگے۔ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سے دو تین سمتوں میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں‘ اور ہماری بلکہ سب کی کوشش ہوتی تھی کہ رنگ محل تک اوپر کی منزل میں سیٹ پر قابض ہوں۔
معاشی‘ انتظامی‘ ریاستی اور دیگر المناک بحرانوں کا آغاز پہلے عوامی دور سے ہوا۔ سب عجیب اور معاشی فیصلوں کی بنیاد پاپولزم یا سستی شہرت کے لیے تھی۔ سرکاری ٹرانسپورٹ نظام پر پہلا وار ایسے ہی فیصلے سے کیا گیا کہ طالب علم جس کلاس میں ہوں‘ اور جہاں جائیں‘ نجی اور سرکاری بسوں میں مفت سفر کریں گے۔ اس کی شرط یہ تھی کہ آپ کے پاس سٹوڈنٹ کارڈ ہونا ضروری ہے۔ مفت سفر کے مزے لینے کے لیے سرکاری محکمے کے ملازمین اور عام لوگوں نے بھلا کیسے پیچھے رہنا تھا۔ انہوں نے بھی کسی جعلی ادارے میں داخلہ لے لیا اور ایک عدد سٹوڈنٹ کارڈ بذریعہ رشوت حاصل کر لیا۔ ضرورت سے زیادہ بھرتیوں نے باقی کسر بھی پوری کر دی اور ساتھ ہی جو اوپر سے ہاتھوں کی صفائی شروع ہوئی تو ریلوے اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے کرپٹ افسران کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ آہستہ آہستہ بسیں اور ٹرینیں غائب ہونے لگیں اور ملازمین کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ وہ دور ختم ہوا تو نقصان اس قدر ہو چکا تھا کہ ہم آج تک سنبھل نہیں پائے۔ اس کے بعد ہر کوئی بات اپنے نظریاتی جھکاؤ‘ سیاسی وابستگیوں اور نقصانات کی بنیاد پر کرتا ہے۔
1981ء میں دوسری بار اسلام آباد میں ہم نے چھ سال کے وقفے کے بعد آغاز کیا تو یہاں اربن ٹرانسپورٹ کا مکمل نظام ابھی تک قائم تھا بلکہ بہتر ہو چکا تھا۔ تب ہمارے پاس نہ موٹر سائیکل تھی نہ گاڑی کی سہولت‘ اور اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے‘ نہ ہی ایسی ضرورت محسوس ہوئی۔ یونیورسٹی آنے جانے کے لیے عین وقت پر گھر کے دروازے پر بس آتی اور راولپنڈی صدر یا سیٹلائٹ کمرشل مارکیٹ‘ جہاں ہم گھومنے پھرنے جاتے‘ وہاں کے لیے بھی اربن ٹرانسپورٹ کی بس اس وقت کے چھوٹے سے اسلام آباد سے مل جایا کرتی تھی۔ آبپارہ کے سامنے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا اڈ ا تھا جہاں اب ہر کسی نے قبضہ کر رکھا ہے‘ اور یہاں سے راولپنڈی اور مری کے لیے بسیں چلتی تھیں۔ دوسرا فوجی دور ختم ہوا اور پھر دوسرا عوامی دور شروع ہوا تو دوبارہ وہی کچھ ہونے لگا۔ ریلوے کا وزیر ایک ایسے شخص کو بنایا گیا جس کا ٹرکوں اور ٹرالرز کا کاروبار تھا‘ اور پھر افغان جنگ کی سپلائی لائن کے لیے آمر حکومت نیشنل لاجسٹک سیل کی صورت میں ایک ادارہ چھوڑ گئی جس نے ریلوے کے ذریعے مال کی ترسیل کی مانگ کم کر دی‘ اور پھر نجی شعبہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ اس نے ہماری سڑکوں اور ریلوے کو برباد کر دیا۔ ریلوے میں جدت‘ اصلاحات اور بہتر کارکردگی کی ضرورت تھی تاکہ مسابقت برقرار رکھ سکے مگر معاشرتی اور سیاسی اخلاقیات اور نظام ذمہ داری اور احتساب کا جنازہ صاحبِ اقتدار اپنے ہاتھوں سے نکال دیں تو قوموں کا وہی حال ہوتا ہے جو ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔
اسی دور میں پنجاب کی حکومت نے‘ جو میاں نواز شریف کی پہلی وزارت تھی‘ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کو تحلیل کرنا شروع کر دیا کہ اب تو یہ ناقابلِ اصلاح ہے۔ وفاق میں اسی دور میں آئی ایٹ‘ جہاں ہماری اشرافیہ اور کاروباری لوگوں کی رہائش گاہیں ہیں‘ بسوں اور ٹرینوں کے سٹیشنوں کے لیے مختص تھا اور اس کے ایک سب سیکٹر میں گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا ڈپو تھا‘ عوامی سرکار نے فیصلہ کیا کہ اسے سرکاری ملازمین اور کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کو الاٹ کردیا جائے۔ کس کے بارے میں ہم کیا کہیں کہ ہماری بربادی ایک داستان نہیں داستانوں کا سلسلہ ہے۔ اور ان کے کردار کسی ایک سیاسی گھرانے یا شخصیت تک محدود نہیں‘ سب کے نام آتے ہیں۔
ہر ملک میں شہروں اور دیہات‘ صنعتوں‘ انرجی کے وسائل اور زمین کی منصوبہ بندی کئی دہائیاں پہلے کر دی جاتی ہے اور جو مقاصد سامنے رکھے جاتے ہیں ان پر عمل ہوتا رہتا ہے۔ ہماری ٹرانسپورٹ کی سرکاری سہولت اس زمانے میں ختم کی گئی جب شہری آبادی پھیل رہی تھی۔ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا‘ جو اَب بھی جاری ہے۔ حکومت صرف اس آبادی کو خوش رکھنے کی تگ و دو میں ہے کہ ووٹروں میں اضافہ ہو اور خاندانوں کی دوسری اور تیسری نسل کا نام چمکے۔
اسلام آباد اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں سرکاری شعبے میں برقی بسیں سڑکوں پر دوڑتی نظر آ رہی ہیں۔ اس سے قبل شہباز شریف نے لاہور‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد میں بہت پہلے میٹرو بسیں مخصوص راستوں پر چلانے کا نظام متعارف کروایا تھا۔ بسوں پر تو کبھی اعتراض نہیں کیا مگر ان پھرتیوں میں لاہور کی کئی ایک اور راولپنڈی کی مشہور مری روڈ کا حلیہ بگڑگیا۔ ایک حد تک اسلام آباد کا بھی۔ ایسی فراست اور سمجھداری کا ہم آج تک ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ برقی بسیں‘ جو اسلام آباد کی مختلف سمتوں میں منزل پر جا رہی ہیں‘ وہ مناظر بہت خوش کن ہیں۔ مگر ڈر یہ ہے کہ خوبصورت شہر کے صرف دو انٹرچینجز اور چند سٹیشنوں کی تعمیر کے وقت جو پھرتیوں کا ریکارڈ قائم کیا گیا‘ وہ ٹرانسپورٹ کو مزید پھیلانے کے لیے نہ دیکھنی پڑیں۔ ہم ان انٹرچینجز کے ڈیزائن کی سزا نسلوں تک بھگتیں گے اور ان منصوبوں سے فیض پانے والے کسی اور ملک میں بسیرا کر رہے ہوں گے۔ جو ایسے کمالات اس ملک اور شہر میں پہلے کر گئے ہیں‘ کبھی سنا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ ہمارے لاہوری بادشاہوں اور دیگر کو جلدی بہت ہے کہ کھڑے کھڑے ایسے منصوبوں کے فیصلے کرتے ہیں کہ جن کے لیے سالوں کی مشاورت‘ ماحولیاتی تجزیے اور ماہرین کی رائے درکار ہوتی ہے۔ لاہور ہو یا کوئی اور شہر‘ نہ مختص سڑکوں کی ضرورت ہے‘ نہ ہی ستونوں پر تعمیر سڑکوں کی۔ تجاوزات ختم ہوں‘ ٹریفک کا مربوط نظام ہو‘ بسوں کی ہم آہنگی اور وقت کی پابندی ہو تو سینکڑوں کروڑ بچا کر تعلیم و صحت یا سماجی خدمت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ جب کوئی طاقتور حکمران جلد بازیاں کرتا ہے تو ہمارے جیسے سادہ دلوں کے ذہن میں سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔