"RBC" (space) message & send to 7575

وہ بنگالی لڑکی

ہم اُس زمانے میں جامعہ پنجاب میں تھے جب مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات مغربی پاکستان کی جامعات میں داخل تھے۔ اسی طرح یہاں سے وہاں کے تعلیمی اداروں میں اس کے بدلے ایک مربوط پروگرام کے تحت داخلے دیے جاتے‘ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کیلئے وظیفوں کا بھی انتظام کیا جاتا۔ ہماری کلاس میں بھی چندطالب علم ملک کے اُس حصے سے تھے جس سے ہماری محبت اور اس کی تاریخ اور ثقافت کی خوشبو آج بھی دل میں بسی ہے‘ جو ہمارے ساتھ ہی جائے گی۔ ہم دور دراز کے دیہات سے آنے والے جامعہ کی زندگی کو جنتِ ارضی سے کم خیال نہ کرتے۔ دیگر ممالک کے معاصرین سے ملنا‘ ان سے گفتگو کرنا اور مل کر تقریبات میں شرکت کرنا انتہائی دلچسپ اورمنفرد تجربہ تھا‘ جو آہستہ آہستہ گائوں کی یکسانیت کی زندگی سے نکال کر بڑے شہر کی کثیر النظریاتی‘ سیاسی اور سماجی زندگی کے رنگوں سے روشناس کراتا چلا گیا۔ میرے دل میں ہمیشہ خواہش رہتی کہ افریقہ‘ ایران‘ عرب ممالک اور مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں سے بات چیت کروں لیکن انگریزی زبان رکاوٹ بنتی۔ پھر بھی ہم ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات کرنے کی کوشش کرتے اور اس مشق نے ایسا انقلاب پیدا کیا کہ ہماری دنیا ہی بدل گئی۔کوئی زبان ہو‘ اس میں گفتگو کرنے ہی سے مہارت آتی ہے۔ ہماری کلاس تعداد کے لحاظ سے منفرد تھی‘ اتنے داخلے نہ پہلے ہوئے تھے اور نہ کبھی بعد میں شاید ہوئے ہوں گے‘ ایک سو چالیس کے لگ بھگ۔ اتنی بڑی کلاس میں وہ بنگالی لڑکی منفرد نظر آتی تھی۔ بنگالی آپس میں بنگالی زبان میں بات کرتے اور ہمارے ساتھ انگریزی میں۔ تاہم ان میں سے کچھ اُردو سیکھنے کی بھی کوشش کرتے۔
بنگالی لڑکی ایک ہی تھی‘ شکل وصورت میں مختلف‘ خوبصورت‘ نفیس اور لباس میں بالکل مغربی‘ عادات واطوار سے نہایت آسودہ حال‘ خوش مزاج اور ثقافتی لحاظ سے ہم سب سے آگے تھی۔ گرمی ہو یا سردی‘ ایک چھوٹی سی چھتری ساتھ رکھتی۔ دل پھینک حضرات کی جامعات میں کمی نہیں ہوتی‘ اور ہم تو اُس آزاد زمانے اور وہ بھی جامعہ پنجاب کی بات کر رہے ہیں۔ بنگالی لڑکی سے بات کرنے کی خواہش دل میں دبائے رکھتے۔ بنیادی وجہ تو انگریزی زبان کی رکاوٹ تھی۔ اس کے سامنے طبقاتی فرق محسوس ہوتا‘ مگر بڑی وجہ ایک شخص تھا جو کسی چوکیدار کی طرح سائے کی مانند اس کے ساتھ رہتا‘ اور جونہی کلاسیں ختم ہوتیں‘ وہ اسے لے کر چلا جاتا۔ وہ ایک دوسرے شعبے میں طالبعلم تھا۔ سنا تھا کہ بنگالی لڑکی کی نسبت ایک فوجی افسر سے طے ہو چکی تھی۔ وہ مشرقی پاکستان میں تعینات تھا۔ یہ شخص اس کا عزیز ہونے کے ناتے چوکیداری کے علاوہ خاندان کی مستقبل کی دلہن کی خدمت پر مامور نظر آتا تھا۔ کتابیں بھی وہ اٹھاتا‘ اور اُسے ہوسٹل تک چھوڑ کر گھر جاتا۔ پھر مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا‘ ہمارا جامعہ کا دورانیہ ایک سال اور بڑھ گیا اور بڑی تبدیلی یہ دیکھی کہ ہمارے بنگالی دوست ہمیں چھوڑ کر اپنا نیا ملک بسانے چلے گئے‘ صرف وہ بنگالی لڑکی یہاں رہ گئی۔ جب اپنی پڑھائی سے ہم فارغ ہوئے تو سب خزاں آلود پتوں کی طرح ایسے بکھرے کہ کسی کی خبر نہ ہوئی کہ قسمت کی ہوا نے کس کو کہاں جا پھینکا۔ خوابوں کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔اکثر نوکریوں‘ دفتروں میں‘ اور ہم جامعات کی تعلیمی سرگرمیوں میں استاد کی حیثیت سے مصروف ہو گئے۔ کوئی اگر مل جاتا تو منفرد لوگوں کے بارے میں ضرور بات ہوتی۔ میں ذاتی طور پر اپنے کلاس فیلوز کی بڑی تعداد سے اب بھی رابطے میں ہوں۔
زندگی میں کئی موڑ آئے اور آتے ہی چلے گئے۔ ایسے ہی ایک موڑ پر ہماری ملاقات اس بنگالی لڑکی سے ہو گئی۔ ہماری نصف بہتر اور ہماری کئی مشترکہ خواتین دوستوں کی وہ قریبی دوست۔ عجیب سا لگا کہ اس 'چوکیدار‘ بندے ہی نے بنگالی لڑکی سے شادی کر لی تھی اور وہ دونوں اسلام آباد میں مختلف شعبوں میں نوکریاں کر رہے تھے۔ ہمیں پہلی اور آخری بار اُن کے ایک سرکاری فلیٹ پر کھانے کی دعوت ملی تو ہم دونوں خوشی خوشی گئے کہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ فوجی افسر جنگی قیدی بننے اور اذیت کی وجہ سے دماغی توازن کھو بیٹھا تھا‘ اور پھر اس نے اپنے چوکیدار سے شادی کر لی۔ ہمارا دل مطمئن تو ہوا مگر اُسی ایک نشست میں بہت کچھ دیکھا اور سنا۔ چوکیدار خاوند ادھر اُدھر ہوا تو بنگالی لڑکی نے کہا کہ یہ مجھے بہت مارتا ہے اور بچوں کو بھی‘ اور بڑا بچہ مجھ سے چھین کر اپنی غیر شادی شدہ بہنوں کے پاس چھوڑ آیا ہے‘ میں اپنے بچے کیلئے تڑپتی رہتی ہوں۔ وہ اسلام آباد کے مشہور سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھانے کی وجہ سے ہماری بیگم کی ہم کار بھی تھی۔ ان کا رابطہ رہتا‘اور اس کے بارے میں خبریں ملتی رہیں۔ ہم بھی ایک عرصہ تک ملک سے باہر رہے اور جب واپس آئے تو معلوم ہوا کہ اُسے طلاق ہو گئی ہے اور ادارے کے ہوسٹل میں وہ اکیلی زندگی گزار رہی ہے۔ چوکیدار خاوند ایک طاقتور ادارے میں ملازم تھا‘ وہ زبردستی اسکے چار بچوں کو لے گیا۔ وہ یہاں میرے بچے‘ میرے بچے پکارتی اور اس کی سسکیوں بھری آواز ہمارے دل دہلا جاتی۔ میری رائے اور کچھ اعانت شامل ہوئی تو معاملہ عدالت میں لے گئے مگر ایک دن اس کے بچے اس سے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کچھ بھی کر لیں ہمیں آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔ ایسا لگا کہ اُس کا گھائل دل ہمیشہ کیلئے ٹوٹ گیا ہے۔ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی‘ اس امید کے ساتھ کہ شاید ایک دن بچے اُس کے پاس آ جائیں۔ آخری وقت تک کسمپرسی کی زندگی گزارتی رہی۔
اس کے والد پاکستانی آرمی میں بریگیڈیئر تھے۔ بعد میں بنگلہ دیش میں مزید ترقی کی۔ وہ صاحبِ جائیداد تھے۔ کئی بار وہ بنگلہ دیش اپنے اکلوتے بھائی اور بہنوں سے ملنے گئی کہ وہ اُسے جائیداد میں سے حصہ دیں تو وہ یہاں کوئی فلیٹ خرید کر آسودگی سے زندگی گزارے مگر وہ لیت ولعل سے کام لیتے رہے۔ وہ ہر بار خالی ہاتھ واپس لوٹتی ۔ ہمارا رابطہ دو تین دہائیوں تک اس بنگالی لڑکی سے رہا‘ ہم سے دکھ سکھ بانٹتی رہی۔ بہت عرصہ پہلے اس کا سب سے چھوٹا بیٹا گھر سے بھاگ کر اس کے پاس آیا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اُسے تعلیم دلوائی‘ شادی بھی کی۔ گھر گرہستی کا سلسلہ اس کی معمولی سی پنشن سے ہی چلتا۔ اپنی پرانی سہلیوں سے ادھار مانگتی‘ ہر مرتبہ واپس کرنے کا وعدہ کرتی اور وہ بھی اس کی مجبوری سمجھ کر معاف کر دیتیں۔ ہمارا رابطہ فون پر رہتا‘ بہت کم ہوا کہ وہ ہمارے گھر آ سکے۔ اس کی باتیں سن کر دکھ ہوتا کہ اُس کے بچے بڑے ہوئے‘ نوکریاں کرنے لگے تھے‘ ایک ملک سے باہر ڈاکٹر بھی تھا‘ مگر کوئی اسے ملنے نہ آتا۔ وہ ایک بچہ اس کے ساتھ آخری سانسوں تک رہا۔ وہ اس کی ضرورت بھی تھا کیونکہ خود باہر جا کر دوا لینے کے بھی قابل نہیں رہی تھی۔ گزشتہ سال بتایا کہ اس کا چوکیدار خاوند‘ جو کبھی سائے کی طرح ساتھ رہتا تھا‘ کئی سال پہلے فوت ہو چکا اور اُسے اُس کے بچوں نے بتایا تک نہیں‘ نہ ہی انہوں نے اس سے اُس وقت رابطہ کیا۔ گزشتہ سال ہی اس کی بیٹی ملنے کیلئے آئی‘ صرف ایک دفعہ‘ اور دوسری میرے خیال میں کبھی نہیں‘ لیکن اس کے باوجود اس نے کبھی شکایت نہ کی۔ کہتی‘ ایک دن وہ ضرور آئیں گے۔ روزانہ صبح سویرے جن لوگوں کو سلام دعا کا پیغام بھیجتا ہوں‘ وہ اس میں شامل تھی۔ کبھی کبھار وہ فون بھی کر لیتی‘ رسول بخش! میں بہت بیمار ہوں‘ میرے لیے دعا کروکہ میں ٹھیک ہو جائوں۔ جب ٹھیک ہو گئی تو آپ کو پوری کہانی سنائوں گی کہ اس نے مجھے کیسے اپنے دام میں گرفتار کیا اور پھر میرے اوپر بہت ظلم ڈھائے۔ میں کہتا کہ میں تمہاری کہانی ایک دن لکھوں گا۔
ایسی مظلوم خواتین زندگی میں بہت دیکھی ہیں جنہیں اپنے بھی جائیداد ہتھیانے کے لالچ میں بے یارو مددگار چھوڑ جاتے ہیں۔ جب اپنے بچے ہی چھوڑ دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ڈیرھ ماہ پہلے آخری پیغام تھا کہ اب میسج لکھنے کی سکت بھی نہیں رہی۔ وہ اس کا آخری دن تھا۔ کل ہی اطلاع ملی۔ خدا انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں