"RBC" (space) message & send to 7575

زہر کا کاروبار

اگر آپ سفید شکر‘ جسے ایک خاص سیاق و سباق کی وجہ سے ہمارے جنوبی ایشیا کے ملکوں میں چینی کہا جاتا ہے‘ کو میٹھا زہر خیال نہیں کرتے تو آپ کے لیے ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔ گنے کی دریافت‘ اس کی کاشت کاری اور اس کے رسیلے شربت سے لے کر چینی کے کارخانوں اور اس کے عام استعمال تک ایک لمبی داستان‘ بلکہ داستانیں ہیں۔ گرم مرطوب اور بارشی جزیروں میں ہر نوع کے قدرتی جنگلات‘ خود رو جھاڑیاں اور پودوں کی اپنی بہار پورا سال جاری رہتی ہے۔ وہاں کے مقامی باشندے جنگلی پھل اور پودے کھا کر پیٹ بھرتے تھے۔ اسی طرح خوراک کی تلاش نے گنے کی مٹھاس کی طرف راغب کیا۔ میٹھا انسان میں عارضی خوشی اور اطمینان کی جو لہریں پیدا کرتا ہے‘ اس کا تعلق اُن کیمیاوی مادوں سے ہے جو ہمارے ذہن میں میٹھی اشیا دیکھ کر پیدا ہوتے ہیں۔ نیوگنی میں سب سے پہلے گنا کاشت ہونا شروع ہوا۔ اس کی شہرت میں مذہبی لوگوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ وہ مذہبی تہواروں میں گنے کے رس کے شربت اور بعد میں اس سے تیار کردہ میٹھی اشیا کو عبادت کا حصہ قرار دیتے۔ اس طرح اس کا مذہبی حوالہ بھی دیگر جزائر تک پھیلاؤ میں مددگار ثابت ہوا۔ تقریباً پانچویں صدی عیسوی کے قریب یہ برصغیر میں تاجروں کے ذریعے متعارف ہوا۔ یہاں کے حکیموں نے گنے سے بنی شکر کے جو اوصاف گنوائے‘ وہ روحانیت سے لے کر اُس طاقت کے اشتہاروں تک پھیلے ہوئے تھے جن سے آج بھی پاکستان کی دیواریں کالی ہو رہی ہیں۔ یہاں بھی مذہبی لوگوں نے پوجا پاٹ اور مندروں پر چڑھاوے کے لیے میٹھی اشیا کو اہمیت دی‘ جو آج تک جاری ہے۔
شکر اور گڑ بنانا تب ایک خفیہ کاروبار تھا جو نسل در نسل چلتا تھا‘ اور ابھی عام نہیں ہوا تھا۔ یہ شکر سازی کا سلسلہ کوہِ ہمالیہ پار کر کے چین اور دریائے سندھ کے مغرب میں‘ دور ایران تک بھی جا پہنچا تو وہاں کے بادشاہوں اور امرا نے شکر اپنے لیے مخصوص کر لی۔ اسلام پھیلا‘ ایران فتح ہوا تو عربوں نے شکر سازی اپنے ہاتھ میں لے کر امارت کی نئی بلندیوں کو چھوا‘ بلکہ اسے اپنی ثقافت کا حصہ بھی بنا لیا۔ اب جہاں جہاں اسلام گیا‘ وہاں اس کے ساتھ شکر بھی پہنچی اور یوں اس کا استعمال عام ہوتا گیا۔ یورپ میں تجارت میں اہم ترین اشیا جو مشرق سے جاتی تھیں‘ ان میں شکر بھی شامل تھی۔ تیرہویں‘ چودھویں صدی عیسوی تک یورپی اسے مسالوں میں شمار کرتے تھے۔ انہیں بھی جلد احساس ہو گیا کہ شکر کی پیداوار سے وہ امیر ہو سکتے ہیں‘ اگر انہیں گرم مربوط علاقے‘ جو مشرق اور کریبین سمندر کے جزائر تھے‘ پر غلبہ حاصل ہو جائے۔ پرتگال‘ سپین اور نیدرلینڈز کی سامراجی پالیسی میں گنے کی کاشت سرفہرست تھی۔ کولمبس جب ہندوستان کی تلاش میں نکلا تو گنے ساتھ لایا تاکہ وہاں اس کی کاشت کاری سے مال کمائے۔ یہ کوئی گپ شپ نہیں‘ تاریخی تحقیق کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں۔ آج وہ علاقے جہاں کولمبس کا پہلا جہاز لنگر انداز ہوا‘ وہاں شوگر کی پیداوار سب سے زیادہ ہے۔ بات لمبی ہو جائے گی‘ آتے ہیں اپنے ملک کی طرف۔ یہ بھی تاریخی بات ہے کہ چینیوں کو کوئی نئی چیز مل جائے تو اسے نئی صورت میں پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہمارے علاقوں کا گڑ اور شکر جب ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کچھ تجربے کرکے اس کا بھورا رنگ تبدیل کر کے سفید کر دیا‘ اور برصغیر میں برآمد کرنا شروع کر دیا۔ اب لوگ اس میٹھے کو چینی کہنے لگے۔ آج آپ جہاں جائیں‘ لوگ اسے چینی کہتے ہیں۔ ابھی تک شکر وہی بھورے رنگ کی ہے‘ جسے ہم دیسی میٹھا بھی کہتے ہیں۔
انگریز ہمارے ملک پر قابض ہوئے تو انہوں نے ہمارے وسائل کے استحصال کا مربوط اور جدید نظام بنایا‘ جو ایک جدید ریاستی طاقت اور سرمایہ دارانہ نظام سے جڑا ہوا تھا۔ وادیٔ سندھ کے ساتھ دریا اور اردگرد ہموار میدان اور قدرتی جنگلات انہیں لبھائے کہ کیسے نئی فصلیں کاشت کر کے اپنی معاشی طاقت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تمباکو‘ جو وہ امریکہ سے لائے تھے‘ اور افیون بھی کاشت کرتے اور زبردستی چینیوں کو بیچتے۔ چینی تو ایک ایسی چیز ہے جو صرف چائے کی ایک پیالی سے انسان کو اس کا عادی بنا ڈالتی ہے‘ اسے دھڑا دھڑ عام کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اتنی نہیں جتنے پاپڑ انہوں نے سگریٹ اور چائے کو عام کرنے کے لیے بیلے۔ آج یہ تینوں چیزیں ہمارے ہاں قومی وبا بن چکی ہیں۔ تمباکو‘ چائے اور مٹھائیاں ایسا مقام حاصل کر چکی ہیں کہ آپ پوری عمر لکھتے اور تقریریں کرتے رہیں‘ کہیں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ امریکہ میں اس زمانے میں جب ہم تعلیم حاصل کرنے گئے‘ شہریوں اور سماجی تنظیموں نے تحریکیں چلائیں تو تمباکو نوشی اور چینی کی کھپت میں کچھ کمی نظر آئی۔ یہاں معاملہ الٹ ہے‘ اور وہ اس لیے کہ چینی کی پیداوار پاکستان کے 42طاقتور سیاسی خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لیے اگر کوئی صنعت تیزی سے اس ملک میں پھیلی ہے تو وہ چینی بنانے کے کارخانے ہیں۔ یہ ایک نچلی سطح کی ٹیکنالوجی ہے اور منافع کئی گنا ہے‘ خسارے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح سے بڑے کاروباری لوگ جو چائے کی درآمد اور یہاں پر مختلف قسم کے رنگ ڈال کر ہمیں بیچتے ہیں‘ انہوں نے بھی چینی کے کارخانہ داروں کی معاونت میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ عام آدمی چینی کے بغیر چائے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ ہم جیسے درویش کہیں مہمان ہوں اور بغیر چینی کے چائے کی درخواست کریں تو دیہات میں لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں‘ اور اگر اردگرد لوگوں کو چینی کے بغیر چائے کا مفت مشورہ دیں‘ جس سے ہمارے لیے باز رہنا ممکن نہیں‘ تو ہلکی سی تردیدی ہنسی سے بات ٹال دی جاتی ہے۔
اس مضمون میں یہ بات کرنا کہ افریقی لوگوں کی غلامی اور مقامی باشندوں کی نسل کشی میں چینی کا اہم کردار تھا‘ شاید عام آدمی کے لیے قابلِ فہم نہ ہو‘ مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں کہ یہاں ہماری سیاسی غلامی میں بھی اس بدبخت چینی کا بڑا ہاتھ ہے۔ سندھ اور پنجاب کے بڑے سیاسی خاندانوں کی معاشی اور سماجی طاقت شوگر ملیں ہیں۔ ایک مرتبہ خود تقریباً تیس ایکڑ گنا کاشت کیا‘ مگر شوگر مل کی ایسی اجارہ داری دیکھی کہ وہ پھر آخری فصل تھی‘ اور زیادہ تر گڑ بنا کر جان چھڑائی۔ کاشت کار کا گنا بھی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر خرید ہوتا ہے۔ خرید سے لے کر چینی کی ذخیرہ اندوزی‘ برآمد‘ درآمد اور اس کے گونا گوں استعمال کے وسیع اور پیچیدہ نظام میں‘ جسے ہم زہر کا کاروبار کہیں تو بے جا نہ ہو گا‘ پر طاقتور سیاسی اور صنعتی گھرانوں کا غلبہ ہے۔ آج کی نہیں‘ گزشتہ نصف صدی کی میڈیکل سائنس کا بار بار اور ہر نئی تحقیق کے بعد کہنا ہے کہ ہر بیماری کی ابتدا میٹھے کے استعمال سے ہوتی ہے‘ جس میں چینی کے علاوہ میدہ‘ گندم کی روٹی اور دیگر ایسے اجناس کا زیادہ دخل ہے۔ گزشتہ صدی کے آغاز میں شوگر کے مریض دنیا میں پانچ فیصد تھے‘ اور آخر میں 33فیصد ہو گئے۔ ہمارے ملک میں 30فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ ایک طرف زہر کا کاروبار کرنے والے کما رہے ہیں‘ دوسری طرف ادویہ ساز کمپنیاں اور ڈاکٹر۔ ہمارے اپنے آبائی علاقے میں کوئی فربہ آدمی نہیں ہوتا تھا‘ اور نہ کبھی سنا تھا کہ کسی کو شوگر اور بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ آج کبھی وہاں جاؤں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہر دوسرے آدمی کا پیٹ نکلا ہوا‘ منہ سوجھا ہوا اور دانتوں کا تو کوئی حال نہیں۔ آج بھی کوئی مذہبی تہوار ایسا نہیں جہاں مٹھائیاں اور میٹھے چاول تقسیم نہ ہوں۔ کوئی عجب نہیں اگر یہاں بھی سرمایہ داروں‘ سیاست دانوں اور پروہتوں کا گٹھ جوڑ ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں