یہ ہمارے نہیں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ ہیں۔ جو پاکستان وہ نظریاتی نوعیت اور جن جغرافیائی حدود میں حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اس وقت کے حالات نے ناممکن بنا دیا۔ تاریخ کا سب سے قدیم اور آج کے دور کا بھی سب سے بڑا سبق اگر قوموں نے سیکھا ہے اور جس کی کسی نہ کسی طرح کی صلاحیت انہیں حاصل ہے تو وہ طاقت کا ایسا توازن ہے جو کم ازکم اپنے مفادات کے تحفظ میں ان کے حق میں ہو۔ اگر حالات اس کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے سیاسی اور سماجی وسائل میں اتنی جان نہیں تو بہترین سے بہترین دماغ اور اعلیٰ ترین دلائل ننگی طاقت کے سامنے اپنا وزن کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ تو ایک طے شدہ حقیقت تھی جو برطانوی سامراج نے اپنے اقتدار کے غروب ہوتے سورج کے آخری سال میں طے کر رکھی تھی کہ مسلم اکثریت کے صوبے پاکستان اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت کے ساتھ جائیں گے۔ جب برطانوی ہند کو آزادی کے بعد ایک متحدہ ریاست کا آخری منصوبہ‘ جسے تاریخ میں کرپس مشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ ناکام ہو گیا تو دو آزاد ریاستوں کے خدوخال سیاسی رہنمائوں‘ دانشوروں اور کم از کم پڑھے لکھے طبقے کی فہم کی حد تک ابھرنے لگے۔ ایک اور بات بھی ذہن میں رکھ لیں کہ قائداعظم نے کرپس مشن کو اس لیے قبول کر لیا تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو تقسیم نہیں ہونا پڑے گا اور وہ خودمختار ہوں گے۔ اگر آپ ابوالکلام آزاد کی کتاب ''ہندوستان کی آزادی‘‘ کے وہ 30 صفحات پڑھیں جو ان کی وصیت کے 30 سال بعد شائع کیے گئے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ جدوجہدِ آزادی کے آخری سالوں میں کانگریس پارٹی کے صدر رہنے کے باوجود اس عہدے سے جواہر لال نہرو صاحب کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ ان کے مطابق‘ وہ چاہتے تھے کہ اس عہدے کی وساطت سے ہندوستان کا پہلا وزیراعظم ہونے کا اعزاز اکثریتی مذہبی گروہ کی شناخت رکھنے والے رہنما جواہر لال نہرو کو ملے۔ اگر وہ صدر رہتے تو وہ قائداعظم کی طرح کرپس مشن کی تجاویز کو ہندوستان کو تقسیم سے بچانے کی غرض سے مان لیتے۔ مہاتما گاندھی بھی یہ چاہتے تھے‘ مگر نہرو اور پٹیل نے کانگریس پارٹی کی نئی سمتیں مقرر کرنا شروع کر دیں‘ جب نہرو پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے۔ انہوں نے سینٹرل پارٹی کی کونسل کا اجلاس بلا کر اسے رد کر دیا۔ باقی تاریخ اور واقعات سے آپ واقف ہی ہوں گے۔ اس پس منظر کے ساتھ جو بات میں آپ کے سامنے بوجھل دل اور دکھ کے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں وہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم ہے۔ ان دو بڑے صوبوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور آزادی کے وقت یہاں کے وزرائے اعلیٰ بھی مسلمان تھے۔ بنگال معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی طور پر تب سب صوبوں سے بہت آگے تھا۔ جب مستقبل کے پاکستان کا ایسا نقشہ کانگریس کے رہنمائوں کی آنکھوں میں ایک تلخ حقیقت کی تصویر بن کر ناچنے لگا تو وہ سازشوں میں مصروف ہو گئے۔ اکثر ہم سیاست کے بارے میں بات کرتے وقت کچھ سادگی اور کچھ عارفانہ تجاہل کا لبادہ پہن لیتے ہیں کہ سازش‘ جسے آپ خفیہ تدابیر سے زیادہ برا نہیں کہہ سکتے‘ ناقابلِ قبول ہے۔ سب تاریخ میں یہ کرتے رہے ہیں اور ہمیشہ سے اور آنے والے وقتوں کے لیے بھی کہ سیاست کی تاش کے پتے سامنے میز پر کھول کر نہیں کھیلے جاتے۔ ایسی خفیہ تدابیر میں کامیاب وہی ہو سکتے ہیں جن کی طاقت کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔
کانگریس کسی صورت پنجاب اور بنگال کو سالم اکائیوں کی صورت میں پاکستان کے ساتھ جاتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ یہاں آپ اس کے روشن خیال رہنمائوں کا تضاد دیکھیں کہ وہ ہندوستان کی تقسیم مذہبی یا فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہونے کے نظریاتی مخالف تھے‘ اور ایک کثیر المذہبی اور کثیر اللسانی سیکولر اور جمہوری ہندوستان کی باتیں کرتے تھے۔ مگر بنگال اور پنجاب‘ جو لسانی اور ثقافتی طور پر ہزاروں سالوں کی شناخت کے حامل تھے‘ کے بٹوارے کا مطالبہ مذہبی بنیادوں پر کرنا شروع کر دیا۔ کسی بھی ایسے خطے خصوصاً جنوبی ایشیا میں‘ کوئی بھی ایسا علاقہ کبھی تھا اور نہ اب ہے جہاں آپ ہر گائوں‘ قصبے اور شہر میں آٹے‘ نمک اور دال کی طرح اکٹھی گندھی ہوئی انسانی آبادیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر سکیں۔ اس کے بعد ظلم اور بربریت کی داستانیں آج بھی پڑھتے ہیں تو پنجاب کے سب دریائوں کا پانی اس درویش کو سرخ نظر آتا ہے۔
بات سازش کی ہو رہی تھی اور ایک دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ان کی بنیاد ٹھوس حقائق اور تاریخ ہے۔ آخری سالوں میں لارڈ مائونٹ بیٹن بطور وائسرائے آئے جو شاہی خاندان کی ذیلی شاخ میں سے تھے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ لیڈی ایڈوینا بھی تھی۔ دونوں کے درمیان رشتہ ازدواج کے ساتھ ایک کھلا معاہدہ بھی تھا کہ وہ دوسرے مردوں اور عورتوں سے رشتہ قائم کر سکتے ہیں۔ نہ لارڈ کو اعتراض ہوگا نہ لیڈی کو کوئی شکایت۔ اوپن میرج کا یہ اصول ان معاشروں میں بہت عرصہ سے قائم ہے۔ جواہر لال نہرو رنگین مزاج انسان تھے اور لیڈی ایڈوینا کے ساتھ ان کا تعلق اتنا خفیہ نہ تھا۔ مگر اس وقت کوئی سوشل میڈیا تو نہیں تھا۔ تب کی افواہیں اب مستند کتابوں کی زینت بن چکی ہیں۔ قائداعظم کو یقین تھا کہ 'بااصول‘ انگریز کوئی ڈنڈی نہیں مارے گا اور تقسیم طے شدہ معاہدے کے منصوبے کے مطابق ہو گی۔ مگر کانگریس بنگال اور پنجاب میں ہندو اور سکھ رہنمائوں کو پاکستان میں شمولیت کے خلاف متحرک کر چکی تھی۔ آخری وقت تک قائداعظم نے کوششیں جاری رکھیں کہ یہ دو صوبے تقسیم نہ ہوں۔ پنجاب کو متحد رکھنے کے لیے تو انہوں نے سکھ رہنمائوں کے سامنے کورا کاغذ رکھ دیا کہ آپ کو جو چاہیے لے لیں‘ مگر ان صوبوں کی تقسیم کی حمایت نہ کریں۔ اوپر کی سطح پر لارڈ مائونٹ بیٹن فیصلہ کر چکے تھے کہ یہ دونوں صوبے تقسیم ہوں گے۔ نہرو صاحب کو بذریعہ لیڈی ایڈوینا کئی ہفتے پہلے سے یہ معلوم تھا۔ انگریزوں‘ کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کی وہ آخری فیصلہ کن میٹنگ شام کے وقت تھی‘ جس میں مائونٹ بیٹن نے ان صوبوں کی تقسیم کا اعلان کیا۔ قائداعظم ششدر رہ گئے اور مطالبہ کیا کہ مجھے وقت دیں کہ یہ معاملہ تقسیم ہند کے ساتھ اپنی پارٹی کی کونسل میں لے جائیں‘ مگر انگریز نے بڑے کھردرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: یہ اب اعلان ہے‘ کسی مشاور ت کی گنجائش نہیں۔ سرحدیں طے کرنے کے لیے وہ ایک ایسے قانون دان‘ ریڈ کلف کو لائے تھے جو اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ آخری رات پنجاب کے اکثریتی اضلاع اور تحصلیں‘ جو وہ پہلے پاکستان کو دے چکے تھے‘ اوپر سے حکم آنے کے بعد ہندوستان کو دے دیے اور اگلے روز برطانیہ بھاگ گئے۔ اس جلدبازی میں لوٹنے کی وجہ انہوں نے اپنے سوتیلے بیٹے کو یہ بتائی کہ اگر وہ ایک دن بھی رہ جاتے تو پنجاب کے لوگوں نے اس کی تکا بوٹی‘ بلکہ کباب بنا ڈالنے تھے۔ بعد میں جو ظلم بالحاظ مذہبی شناخت لاکھوں انسانوں کے ساتھ ہوا‘ اس کے مجرموں کے گھنائونے چہرے آج بھی تاریخ کے صفحات پر نمایاں ہیں۔