انفرادی اور اجتماعی طور پر ناکامیوں کی فکر دل سے اُتر جائے تو اندھیرے مقدر بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو معاشرے ہونے والے زیاں کا دل کھول کر تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ وہ غلطیوں کا اعتراف کرکے بہتر مستقبل کی طرف مسلسل پیش قدمی کرتے رہتے ہیں۔ کچھ اہداف حاصل کیے‘ نئی منصوبہ بندی کی۔ اور ترقی‘ امن و سکون اور خوشحالی کو قومی شناخت بنا لیتے ہیں۔ سنا تو ہو گا کہ ترقی یافتہ ممالک اور غریب پسماندہ مملکتیں‘ جہاں لوگ بھوک‘ افلاس‘ بدامنی‘ باہمی کشمکش‘ خانہ جنگیوں اور کئی نوع کے تنازعات کا شکار رہتے ہیں‘ عالمی سطح پر ریاستوں کی یہ واضح درجہ بندی صدیوں سے موجود ہے۔ درمیان میں اب ایسے ممالک ابھر کر سامنے آئے ہیں جو غربت اور معاشی بدحالی کو پیچھے چھوڑ کر صنعتی ممالک کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔ چین‘ برازیل‘ میکسیکو اور کئی دیگر ممالک ہیں جن کی معاشی ترقی خیرہ کن ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں ہم نے آگے بڑھنے کے صرف بڑے بڑے دعوے‘ سیاسی نعرہ بازی اور عوامی خطابت کی جادوگری ہی دیکھی ہے۔ فرق‘ ان میں جو ہماری صفوں سے نکل کر متوسط درجے کی آمدنی کے ممالک کے طبقے میں جا ملے اور ہمارے جمود میں یہ ہے کہ وہاں کی سیاسی قیادت نے ہر چند سال بعد اپنی بدحالی اور ترقی کی محدود شرحِ افزائش کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا‘ رکاوٹیں تلاش کیں اور انہیں دور کرکے آگے بڑھنے کی سمت کا تعین کر لیا۔ ریاست اور معاشرے کو بدلنے کے راستے‘ طور طریقے اور نظریے سب جانے پہچانے ہیں۔ تاریخ کے سب اوراق‘ آنکھیں اور دل کھلے ہوئے ہوں تو اندھے بھی پڑھ سکتے ہیں‘ مگر ہم عقل کے اندھوں کی کیا بات کریں‘ اور جب اقتدار پر بھی نسل در نسل وہی قابض ہوں اور انہیں اس بات پر فخر بھی ہو کہ اب ان کی تیسری اور چوتھی نسل نے سیاسی گدی سنبھالی ہوئی ہے۔
پاکستان کے موجودہ بحران‘ جو گزشتہ 78 سال سے مختلف شکلوں میں جاری ہے‘ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور نظریات کے تختۂ سیاہ پر سب کچھ نمایاں ہے۔ یہاں ان سب کے بارے میں گفتگو کرنا مقصود نہیں۔ زیر نظر موضوع وہ ہے جو ملک کی ایک ممتاز شخصیت میاں عامر محمود صاحب نے بغیر کسی لگی لپٹی کے قوم کے سامنے رکھا ہے۔ یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہمارا بحران ایک نہیں ہے بلکہ ہم بحران در بحران کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ صرف سکول سے باہر اڑھائی کروڑ بچوں کا ذکر کریں‘ عدالتوں میں لاکھوں زیر التوا مقدمات کی طرف نظر جائے یا کسی بھی سطح پر سرکاری دفتر میں کسی کو جانے کی ضرورت پڑے تو ہمارے جیسے کمزور لوگوں کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ سیاسی میدان کے نامور کھلاڑی‘ صحافی یا دانشور سب کا اتفاق ہے کہ ہم جمود کا شکار ہیں۔ مسائل آبادی کے پھیلاؤ‘ شہروں میں گندگی کے ڈھیر‘ ندی نالوں‘ دریاؤں اور جنگلات پر قبضے اور انتہا پسندی سے لے کرغربت اور معاشی بدحالی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ بجٹ کا زیادہ تر حصہ سود اور اصل زر کی مقرر مدت میں واپسی پر صرف ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارے تارکین وطن وہ رقوم نہ بھیجیں جو ہماری مصنوعات اور خوراک کی برآمدات سے بھی کہیں زیادہ ہیں‘ تو دنیا کا کوئی ادارہ بھی تقریباً 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہر سال پورا کرنے کے لیے ہمیں قرضے نہ دے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں مسائل پر سیاست باز اور دیگر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں مگر جب ان کے حل کی بات کی جائے تو موجودہ موروثی سیاستدان اور حکومتی نظام سے وابستہ طاقتور حلقے کندھے اچکاتے ہوئے ذمہ داریاں کسی اور کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ طرزِ حکمرانی کا ہے‘ اور اس کی بے پناہ خرابیوں کی وجہ سے شہریوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور پڑ گیا ہے‘ سیاسی عدم وابستگی کا رجحان بڑھا ہے‘ اور لوگ جب اپنا موازنہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے دیگر ممالک کے ساتھ کرتے ہیں تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
میاں عامر محمود صاحب نے اپنی فکر انگیز تحقیق میں ریاستی ناکامیوں اور عوامی محرومیوں کا نقشہ ان شماریات کی بنیاد پر کھینچا ہے جن کے بارے میں کوئی بھی دوسری رائے نہیں رکھتا۔ جس بات پر ملک میں بحث کی ضرورت ہے وہ ان کی رائے میں یہ ہے کہ آپ جو کچھ کہیں یا کرنے کی کوشش کریں‘ 24کروڑ آبادی کے ملک کے موجودہ چار صوبوں کی صورت ناکامیوں کے جنگل میں پھنسے رہیں گے۔ سب کچھ ہم نے کر کے دیکھ لیا ہے۔ یہ بھی انہوں نے درست کہا ہے کہ ماضی میں اور آج بھی لسانی صوبوں کی تشکیل کے لیے تحریکیں چلتی رہی ہیں‘ جیسا کہ بہاولپور‘ سرائیکی صوبہ‘ کراچی‘ ہزارہ اور بلوچستان میں الگ پشتون صوبے کا مطالبہ۔ ان کے نزدیک جو لسانیت کی بنیاد پر موجودہ صوبوں کی توڑ پھوڑ ہے‘ وہ نہ اتنی آسان ہے اور نہ ہی اس سے طرزِ حکومت کا اصل اور بنیادی مسئلہ حل ہونے کی امید پوری ہو گی۔ ان کی اس دلیل میں وزن ہے کہ بھارت نے 9 سے 28 ریاستیں بنائیں اور دیگر آٹھ علاقوں کو وفاقی علاقہ بنایا ہوا ہے۔ اس طرح ہمارے سامنے ہم سے کم آبادی کے ممالک کی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں صوبوں کی تعداد ہم سے آٹھ یا دس گنا تک زیادہ ہے۔ اگر گزشتہ کئی دہائیوں کے سیاسی مکالمے کو دیکھیں تو نئے صوبوں کی تجاویز مختلف شکلوں میں زیر بحث رہی ہیں۔ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ اب چار صوبوں پر قومی اتفاق اگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تو بہت حد تک کمزور ضرور پڑ گیا ہے۔ میاں عامر محمود صاحب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ہر قسم کے بنیادی حقوق ملیں‘ انصاف ملے‘ حکومت جوابدہ بھی ہو اور اس تک عام شہریوں کی آسان رسائی بھی ہو۔ سب سے بڑھ کر معیشت کے بنیادی مسئلے‘ تعلیم‘ صحت اور قانون کی حکمرانی ملک میں مضبوط ہو تا کہ ہم خوشحال ممالک کی صف میں شامل ہو سکیں ۔
میاں عامر محمود صاحب کی تحقیق کامرکزی نکتہ یہ ہے کہ ملک کے موجودہ چار صوبوں کو 33 صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے تو اس تنظیم نو کی بنیاد پر ہم ملک کے سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی بحرانوں‘ جو سلامتی کو لاحق خطرے کی صورت ہمیں درپیش ہیں‘ کا حل نکالتے ہوئے شہریوں کے حقوق کے دیرینہ خواب کی تعبیر کر سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ آئین میں دیے گئے طریق کار کے مطابق نئے صوبوں کی تشکیل کے کوئی واضح امکانات نہیں کیونکہ کوئی بھی صوبائی قیادت دو تہائی اکثریت سے اپنی موجودہ ساخت‘ جس سے کہ ان کے مفادات وابستہ ہیں‘ ختم کرنے کے لیے تیار نہ ہو گی۔ آئین کے آرٹیکل (5) 48 میں ریفرنڈم کی گنجائش موجود ہے‘ جس میں پوری قوم ایک اکائی کے طور پر ووٹ دے کر اس تجویز کی حمایت کر سکتی ہے۔ یہاں سب سے بڑی مشکل ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کے سیاسی مفادات موجودہ صوبوں کی ساخت سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے سہارے اپنی صوبائی مرکزیت قائم کر لی ہے اور این ایف سی کی برکات اتنی ہیں کہ سب کے وارے نیارے ہیں۔ میاں صاحب بھی اسی جانب توجہ مبذول کرا رہے ہیں کہ اگر اقتدار کی منتقلی مقامی حکومتوں کی صورت میں ہر صوبے میں ہو جاتی اور این ایف سی کے اصولوں کے مطابق ہر ضلع کو اس کا حصہ ملتا‘ ہر سطح پر مقامی نمائندہ حکومت قائم ہو جاتی تو شاید قومی بحران میں کچھ افاقہ ہو سکتا تھا۔ اب پانی سر سے گزر چکا۔ موروثیوں سے سب امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ نئے سیاسی راستے کی تلاش عوام کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ میرے خیال میں میاں عامر محمود صاحب کی تحقیق پر سنجیدہ سیاسی گفتگو کی ضرورت ہے۔ قومی مکالمے ہی سے مسائل کا حل نکلے گا۔