گزشتہ دو برسوں میں مغربی دنیا میں‘ جہاں زندگی بے حد مصروف ہے‘ ہم جیسے لوگ جہاں زندگی گزارنے کے لیے دیگر کام کرتے رہے‘ ہر رنگ و نسل کے متحرک باضمیر مرد و خواتین اور بچے کال ملنے پر اسرائیل کی بربریت کے خلاف سڑکوں پر آتے رہے ہیں۔ مشرقی اور مسلم دنیا کا حال آپ کو معلوم ہی ہے۔ چین‘ روس اور ان جیسے سب غیر جمہوری ممالک میں لوگ سڑکوں پر اپنے کاموں کے لیے چل تو سکتے ہیں مگر کسی سیاسی عمل کے لیے اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ فرق یہ ہے کہ آپ مغربی جمہوریت کے بارے میں جو بھی فیصلے صادر کرتے رہے ہیں‘ وہاں شخصی اور اجتماعی آزادیاں‘ حقوق اور رائے عامہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کیلئے معنی رکھتے ہیں۔ ان کا دل نہ بھی چاہے‘ سیاسی ضرورت کے تحت عوام کی منشا کا احترام اپنی بقا اور عوامی تائید حاصل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ رائے عامہ‘ دوسرے لفظوں میں لوگ کیا چاہتے ہیں‘ کسی قومی مسئلے کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں‘ جمہوری سیاست میں دوطرفہ عمل ہے۔ مدبر اور مضبوط شخصیتوں کے حامل رہنما عوامی رائے کو اپنے منشور اور نظریات کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں‘ اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو عام لوگوں کی اُمنگوں سے ٹکر نہیں لیتے۔ اور اگر معاشی اور سماجی حالات میں کوئی بھونچال آجائے اور عوام اُٹھ کھڑے ہوں تو منتخب حکومتوں کو مستعفی ہو کر نئے انتخابات کرانا پڑتے ہیں اور پھر رہنماؤں کو عوام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر جمہوری ملکوں کی انتخابی سیاست کا تعین داخلی مسائل کرتے ہیں‘ مگر کوئی سیاسی قیادت کسی دوسرے ملک سے جنگ کر رہی ہو تو اس کے لیے عوام کی حمایت کے بغیر جانی اور معاشی قربانیاں دینا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اس تاثر کے برعکس کہ ہمیشہ مغرب میں اندرونی مسائل ہی سیاسی جماعتوں اور سیاسی تحریکوں کا مقدر طے کرتے ہیں‘ کوئی سائنسی فارمولا نہیں ہو سکتا۔ امریکہ میں ویتنام جنگ اور بعد میں افغانستان اور عراق کی جنگوں میں جب قیادت کو اپنے ہی لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں ان جنگوں کو ختم کرنا پڑا۔ غزہ میں دنیا کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر نسل کُشی ہورہی ہے۔ اسے اسرائیل کی جنگ کہنا نہتے فلسطینیوں اور معصوم بچوں‘ جو ہزاروں‘ لاکھوں کی تعداد میں شہید ہو چکے ہیں‘ کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اب اس جنگ کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ اسرائیل کے مظالم کے خلاف پہلی آواز مغربی دنیا میں جامعات کے نوجوانوں‘ اساتذہ‘ دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھی جنہوں نے فلسطینی جھنڈے اور ''کوفیہ‘‘ گلے میں ڈالے اپنے ادارے‘ سڑکوں اور پارکوں میں مظاہرے کیے۔ اس دوران سخت پکڑ دھکڑ اور کچھ ملکوں سے بے دخلی کے خطرات بھی لاحق تھے‘ لیکن وہ انہیں خاطر میں نہ لائے۔ سب سے بڑے مظاہرے برطانیہ‘ سپین‘ اٹلی‘ سویڈن اور دیگر یورپی ممالک میں ہوئے۔ امریکی ترقی پسند اور لبرل طبقے بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ اپنے ساتھ کچھ موازنہ کریں تو یہاں فلسطینیوں کے حق میں سب سے بڑے مظاہرے مذہبی جماعتوں‘ خاص طور پر جماعت اسلامی کی قیادت میں ہوئے۔ کیا عجب بات ہے کہ اہلِ مغرب انسانیت‘ انسانی حقوق کے حق میں اور نسل کُشی کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں‘ اور ہماری تحریکوں کا غالب رنگ مذہبی ہے مگر ظاہر ہے کہ ان کا مقصد بھی کچھ مختلف نہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ کم از کم کسی جماعت اور تحریک نے اپنے جلسے جلوسوں اور امدادی سامان کی ترسیل میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ سابق سینیٹر مشاق احمد صاحب کچھ دیگر پاکستانیوں کے ساتھ امدادی سامان کی رسائی اور غزہ میں محصور فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر بین الاقوامی مزاحمت کاروں کا حصہ بنے ہیں۔ ہمارے لیے ان کی یہ کاوش قابلِ فخر ہے۔
یہاں دو باتیں عرض کرنا مقصود ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانیت کے حق میں اور جنگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں ہوں یا غلامی کے خاتمے اور جمہوریت کے حق میں عوامی دباؤ ہو‘ صرف ان ملکوں میں ابھرتے ہیں جہاں آزادیٔ فکر ہو اور انسان اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے۔ اسے یہ خوف نہ ہو کہ ظلم‘ داخلی ہو یا خارجی‘ کے خلاف آواز اٹھائی تو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑیں گے‘ جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ اس کے ساتھ جڑی دوسری بات یہ ہے کہ مزاحمت پُرامن بھی وہاں رہتی ہے جہاں جمہوری آزادیاں ہوں۔ لوگ جلسے جلوس نکالنے کے لیے قانون کی پاسداری کرتے ہیں۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں کئی شہروں میں مقامی انتظامیہ سے اجازت لی جاتی ہے‘ وقت اور جگہ کی قید ہوتی ہے‘ اور کوئی ہاتھ میں اینٹیں‘ پتھر اور ڈنڈے لے کر نہیں آتا۔ آتشیں اسلحے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب عوام کے سرسے پانی گزر جاتا ہے تو وہ پھر اجازت ناموں کا انتظار نہیں کرتے۔ ویتنام کی جنگ اور سیاہ فام شہریوں کے لیے برابر کے حقوق کی تحریکوں کے دوران جب شہری انتظامیہ نے رکاوٹیں ڈالیں تو بھی لوگوں کے مظاہرے جاری رہے اور قانون کی خلاف ورزی پر انہوں نے گرفتاریاں بھی دیں۔
دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مزاحمت کی تحریکیں اگر پُرامن نہ ہوں تو آج کل کے دور میں ان کا کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ اب غالب سیاسی نظریہ‘ جو ہمیشہ میری ذاتی سیاسی سوچ کا حصہ رہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ مزاحمت پُرامن نہ ہو تو وہ مزاحمت کے زمرے میں نہیں آتی۔ اسے کوئی اور نام دے دیں‘ مگر مزاحمت کے نام پر تہمت نہ لگائیں۔ ہمارے اپنے ملک میں بھی پُرامن مزاحمت غیرجمہوری اور شخصی آمروں کے خلاف ادب اور شاعری کے حوالوں سے ہماری ادبی ثقافت کی شناخت رہی ہے۔ گھٹے ہوئے ماحول اور جبر کی صورت میں بھی ہمارے لکھاریوں نے آزادی کی فکر کی شمع کو روشن رکھا۔ ایسی مزاحمت میرے نزدیک زیادہ دیرپا ہوتی ہے۔ اپنی ہر تاریخ میں دیکھ لیں‘ جنہوں نے ہتھیار اٹھا کر مزاحمت کے نام پر جنگیں لڑیں‘ وہ نامراد ہی گھروں کو لوٹے‘ بشرطیکہ انہیں لوٹنے کی مہلت مل سکی۔ خونیں انقلابوں کا وہ دور جو ہماری اوائل جوانی میں لاطینی امریکہ میں دیکھا تھا‘ وہ اہلِ فکر کی نظروں میں تب بھی بے وقعت تھا‘ اور اب تو جو اُس نسل کے لوگ بچے ہیں‘ وہ دنیا سے نظریں چرا کر چلتے ہیں۔ روس اور چین کا ذکر کیا تھا‘ اور ان جیسے دیگر ممالک کا کہ وہاں مغرب کی مزاحمتی تحریکوں کا رنگ کیوں نہ جم سکا؟ وضاحت پہلے ہی کردی ہے‘ اس کا تعلق آزادیٔ فکر اور جمہوری ثقافت سے ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس قسم کی ابھرتی ہوئی عالمی تفریق میں آپ کہاں کھڑے ہونا پسند کریں گے۔ غزہ کے شہیدوں نے اپنی قیمتی جانیں قربان کرکے مغرب کی رائے عامہ اپنے حق میں کر لی ہے۔ آزادی ایسے ہی جذبوں سے ملتی ہے‘ مگر ان سے بھی گزارش ہے کہ مزاحمت پُرامن ہو ۔