فلسطینی اب دنیا کے ہر کونے میں بکھر چکے ہیں کہ 77 برسوں سے مسلسل قتل وغارت گری نے انہیں اپنی جانیں بچانے کے لیے جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ یہ پینتالیس سال پہلے کی بات ہے جب میں کیلیفورنیا میں طالب علم تھا۔ مجھے اپنی یونیورسٹی سے‘ جو چند گھنٹوں کی مسافت پر تھی‘ لاس اینجلس میں واقع اوکسیڈنٹل کالج میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی کالج ہے جہاں سے سابق امریکی صدر براک اوباما نے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وسیع وعریض خوبصورت لان تھے‘ جو لوگ وہاں کے ساحلی موسم سے واقف ہیں آپ کو بتائیں گے کہ ہلکی خنکی‘ طراوت اور بادِ نسیم کے‘ دن کے کسی بھی حصے میں مزے لیے جا سکتے ہیں۔ چلتے چلتے تھک گیا تو بنچ پر احاطہ کیے ایک بھاری بھرکم شخص سے معذرت کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ اٹھ کر بیٹھے اور مجھے کچھ جگہ دے۔ اچھا انسان تھا‘ یوں لگا کہ وہ لاطینی امریکہ کا بھورے رنگ کا باشندہ ہے۔ اپنی دیسی ثقافت کے عمر کے ہر حصے میں اور ہر جگہ ہم اسیر رہے ہیں‘ اس لیے رہا نہ گیا اور پوچھا کہ آپ کس ملک سے یہاں آئے ہیں؟ امریکہ میں اگر آپ بالکل کالے یا سفید نہیں تو آپ گزشتہ کچھ دہائیوں سے‘ یا ہو سکتا ہے کہ کل ہی یہاں تشریف لائے ہوں۔ گرج کر بولا کہ میں فلسطین سے ہوں۔ جب میں نے اپنا تعارف کرایا تو اس کا فخریہ انداز اور اپنی مٹی سے محبت مزید کھلنے لگی۔ اگرچہ ہماری یہ ملاقات مختصر سی رہی مگر اس کا کہنا کہ وہ فلسطین سے ہے‘ اس کے باوجود کہ وہ امریکی شہری تھا‘ میرے ذہن اور دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ گیا۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اس کی شکل اور باتیں تو نہیں بھول پایا‘ اس کانام البتہ ہماری بگڑی ہوئی یادداشت کے خزانے سے محو گیا ہے۔
میری جامعہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‘ سانٹا باربرا میں سینکڑوں کی تعداد میں ایرانی‘ عربی اور کچھ فلسطینی طلبہ تھے۔ فلسطینیوں اور عربوں خاص طور پر جو سعودی عرب سے تھے‘ کے ساتھ میرا محبت کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ انہوں نے دستاویزی فلم ''The Palestinian‘‘ جو 1977ء میں بنی اور جس میں مرکزی کردار بطور نریٹر Vanessa Redgrave کا تھا‘ کیمپس میں ایک چھوٹے سے ہال میں دکھانے کا بندوبست کیا اور مجھے بھی ٹکٹیں فروخت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میرا ایک کلاس فیلو یہودی تھا اور اس کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملک پیرو سے تھا۔ قریب سے گزرا تو میں نے کہا: ایک ڈالر نکالو اور مجھے دو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی میں نے فلم کا ٹکٹ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ ایک دم اچھلا اور ایک ڈالر کی واپسی کا مطالبہ ایسے جارحانہ انداز میں کیا کہ مجھے اپنے علاقے کے سود خور یاد آ گئے۔ ڈالر واپس کر کے جان چھڑوائی۔ آج جو آپ غزہ میں کشمکش دیکھ رہے ہیں اور دو سالہ نسل کُشی سے جو فلسطینی گزرے ہیں اس کے پیچھے بہت بڑی طاقتوں کی سازش اور کئی صدیوں کی منصوبہ بندی ہے۔ اسی طرح ان کی سازشوں اور مظالم کے خلاف مزاحمت کی بھی ایک تاریخ ہے۔ بہت کچھ دیکھا ہے اور کچھ اس قدیم سرزمین اور اس کے باشندوں کی تاریخ سے آگاہی بھی ہے۔ مزاحمت عربوں اور فلسطینیوں کی جانب سے ہر دور اور ہر ملک میں اسرائیلیوں کی سامراجی آباد کاری کے خلاف جاری رہی۔ ایک ضروری بات ذہن میں رکھیں کہ فلسطینی قومیت ایک مشترکہ قومیت ہے جس میں مسیحی فلسطینیوں نے کوئی کم قربانیاں نہیں دیں اور انہوں نے مغرب کے دانشور اور سیاسی حلقوں میں جس مؤثر انداز میں مقدمہ لڑا ہے وہ صرف کچھ ہمارے پیشے سے وابستہ دانشور ہی جانتے ہیں۔ جہاں نعرہ بازی اور فضولیات بِکتی ہوں وہاں ہم ایڈورڈ سعید جیسے فلسطینی مفکرین اور دیگر کے کام کے بارے میں کسی کو کیا بتا سکتے ہیں۔ ہم گواہ ہیں کہ مڈل ایسٹ سٹڈیز ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں وہ ایک شخص کیسے فلسطین مخالف مؤرخین اور دانشوروں کا مقابلہ کرتا تھا۔ ان کے دلائل اور شواہد کے سامنے اکثر سر جھکا کر ہال میں سے نکل جاتے تھے۔
ہمارے زمانے کا امریکہ‘ لگتا ہے کوئی اور ملک تھا۔ دنیا بھر سے دانشور مسافروں کو میرٹ پر بڑی بڑی جامعات میں فیلوشپ ملتیں‘ نوکری دی جاتی اس میں رنگ‘ نسل اور مذہب کی کوئی قید نہ تھی۔ ہمارے اپنے حالات کے مقابلے میں جہاں ہم ہتھیار لیے مخالفین پر ٹوٹ رہے ہیں‘ وہاں ٹرمپ دور کی تمام تر گھٹن کے باوجود آدمی دانش گاہوں میں آزادی کا سانس لے سکتا ہے۔ جس فلسطینی کے بارے میں تمہید باندھی ہے‘ وہ بھی ایک نوجوان مسافر تھا۔ عمر یاغی جو پندرہ برس کی عمر میں نیویارک ریاست اور شہر کے قریب ہڈسن ویلی کمیونٹی کالج میں داخل ہوا۔ ان کالجوں میں وہ بچے داخل ہوتے ہیں جن کی تعلیمی اور مالی استعداد غربا کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر کوئی ہونہار نکلے تو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کسی جامعہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ عمر یاغی کو نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ سٹیٹ یونیورسٹی دیگر کے مقابلے میں کم درجے کی خیال کی جاتی ہیں۔ یہاں سے بی اے کرنے کے بعد یاغی ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنے کے لیے الانوئے سٹیٹ یونیورسٹی‘ اربانا شمپین میں چلا گیا۔ یقینا ہر سطح پر ان تعلیمی اداروں نے ان کی قابلیت کو تسلیم کیا اور حسبِ دستور ان کی مالی معاونت کرتے رہے۔ انہوں نے کیمسٹری کے شعبے میں ڈاکٹریٹ کی اور ایروناٹکس یونیورسٹی سے تدریس وتحقیق کا آغاز کرنے کے بعد کئی جامعات کا سفر طے کر کے آخر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں ایک اعلیٰ عملی اور تحقیقی چیئر پر تعینات ہو گئے۔ یہاں ہم نے بھی کسی زمانے میں ایک سال گزارا تھا۔
چند دن پہلے جب کیمسٹری کے شعبے میں نوبیل انعام کا اعلان ہوا تو فلسطین نژاد عمر یاغی کا نام سُن کر ہماری یادداشتوں کا گھوڑا ماضی کے خوابیدہ گوشوں کو جگانے کے لیے سرپٹ دوڑتا محسوس ہوا۔ ان سے کوئی شناسائی نہیں مگر جب ان کی دو سال کی ہارورڈ میں فیلوشپ کے بارے میں پڑھا تو یاد آیا کہ اُس زمانے میں یہ درویش بھی ایک فیلوشپ پر وہاں مسافر تھا۔ اتنی بڑی جامعات میں لوگ خود اپنے اپنے کام میں بیگانہ ہوتے ہیں‘ کسی کو کسی کی کیا خبر مگر صرف یہ تعلق جڑنے سے سرشاری کا احساس دل میں جاگزیں ہو گیا۔ اس میں اپنی ذات سے بخل کا ذکر نہیں‘ ہمیشہ زندگی بھر اگر کسی نے ہمیں متاثر کیا ہے تو وہ اہلِ علم ودانش ہیں‘ کسی کی دولت رعب ودبدبہ اور سیاسی طاقت نے نہیں۔ خصوصی طور پر وہ فلسطینی‘ افغان اور دیگر ہمارے جیسے ملکوں سے کسمپرسی کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی میں جہدِ مسلسل اور استقامت سے دنیا میں اپنا مقام چھوڑ گئے۔ عمر یاغی کے خاندان کو 1948ء میں صہیونی آباد کاروں کے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑا‘ بے گھر ہوئے اور اردن میں مہاجرین کے ایک کیمپ میں جگہ ملی۔ نوبیل پرائز کی خبر پر‘ جو انہیں ایک سفر کے دوران موصول ہوئی‘ کہا کہ میں نے ایک غریب گھرانے سے اپنی ابتدا کی۔ گھر فقط ایک ہی کمرہ تھا جس میں 12 لوگ اور گھریلو جانور اکٹھے رہتے تھے۔ ایک بات جو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ فلسطینیوں کو بے گھر ہونا پڑا‘ ان کا رشتہ اپنے وطن سے منقطع ہوا مگر علم اور حصولِ علم سے جہاں بھی رہے اور جس حال میں بھی‘ یہ تعلق قائم رکھا۔ وہ 15 سال کا بچہ جو دھکے کھا کر امریکہ پہنچا تھا اُسے ملنے والے ایوارڈز 50 کے قریب ہیں اور جسے نوبیل انعام مل جائے تو وہ علمی مقام کی قطعی سند ہے۔ ہم رہیں نہ رہیں‘ فلسطینی جہاں بھی ہیں‘ ایک دن اپنے ملک میں آباد ہوں گے۔