سی ڈی اے میں تعینات ایک دوست ابھی ابھی مل کر گیا ہے۔ مستقبل کے اسلام آباد کا جو نقشہ اس نے کھینچا ہے، اس سے کچھ روز مجھے تو نیند نہیں آئے گی۔ میرا یہ سول افسر دوست ساری عمر حق سچ کی بات کرنے اور اپنی ایمانداری کی وجہ سے اپنے اعلیٰ افسروں کے زیرِعتاب رہا ۔ سب کو گریڈ اکیس میںترقی ملی ،اُسے نہیں ملی ،کیونکہ وزراتِ دفاع میں تعیناتی کے دنوں وہ ایک بریفنگ کے دوران یہ پوچھنے کی گستاخی کر بیٹھا تھا کہ ملک کا دفاعی بجٹ تو چارسوپچاس ارب روپے ہے اور اس میں سے صرف پچیس ارب اسلحہ، گولہ بارود اور مشقوں پر خرچ ہوتا ہے تو اس غریب قوم کے باقی چار سو پچیس ارب روپے کا کیا مصرف ہے ؟ بریفنگ میں موجود ایک میجر جنرل نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھ کربھیج دیا کہ اس سول افسر کو کبھی پروموٹ نہ کیا جائے۔ ان کا حکم سر آنکھوں پر اور اسے اب تک پروموشن نہیں دی گئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ تلخی کا شکار ہوگا ۔ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔ میں اس کی بہت عزت کرتا ہوں کہ اس کی ماں نے کہا تھا کہ بیٹا حج کرا دو ۔ ایک ایماندار سول افسر بیٹے کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اسے یاد آیا کہ سکینڈ ہینڈ کار کھڑی ہے جو وہ بچوں کو سکول لے جانے وغیرہ کے لیے استعمال کرتا تھا ۔ اُسے بیچا اور ماں کو لے کر حج کے لیے نکل گیا ۔ ایسے فرماں بردار بیٹے اب کہاں ملتے ہیں!۔ میرے اس دوست کا کہنا تھا کہ پانچ سال بعد اسلام آباد کا بھی وہی حشر ہوگا جو آج کراچی کا ہے کیونکہ اس شہر کے اردگرد افغانیوں نے ڈیرے جما لیے ہیں اور وہ مقامی ریڑھیوں سے بھتہ تک وصول کر رہے ہیں۔ اسے پتہ چلا کہ کھنہ پل کے قریب تجاوزات کی بھرمار ہے اور گزرنے تک کا راستہ نہیں ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ ان ریڑھی والوں کو چھوٹی سی علیحدہ جگہ پر شفٹ کردے تاکہ غریب لوگ روزی بھی کماتے رہیں اور رکاوٹ بھی دور ہو۔ سوچا اگر سی ڈی اے کا عملہ بھیجا تو ہو سکتا ہے کہ وہ روایتی بے ایمانی سے کام لیں۔ لہٰذا ایک بڑا افسر ہوتے ہوئے بھی وہ خود گیا تاکہ ان سب کو اپنے سامنے رجسٹرڈ کرائے اور جگہ مہیّا کرے۔ ابھی رجسٹریشن شروع ہوئی تھی کہ افغانی اور طالبان پہنچ گئے کہ ان کی ریڑھیاں بھی رجسٹرڈ کرو۔ پتہ چلا کہ وہ افغانی ان مقامی ریڑھیوں سے بھتہ لیتے ہیں۔ پریشان حال لوٹ آیا کہ اگر ان کو رجسٹر ڈ کر دیا تو ان افغانیوں کو اس ملک پر اپنے قبضے کا ایک اور قانونی جواز مل جائے گا۔ میں حیرانی سے سنتا رہا کہ یہ سب کچھ اسلام آباد کے اندر ہورہا ہے۔ وزارتِ داخلہ میں اب تک درجنوں اجلاس ہو چکے ہیں کہ افغان بستیوں کو اسلام آباد سے ختم کیا جائے۔ ویسے روزانہ فلمی ڈائیلاگ بول بول کر نہیں تھکتے لیکن رحمن ملک کو بھی یہ جرأت نہیں ہورہی۔ بہت طرم خان پولیس افسر آئے اور سب دُم دبا کر بھاگ گئے کہ ان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ وہاں خوفناک اسلحہ موجود ہے۔ دوسری طرف جنہوںنے ان سنگین معاملات پر کوئی کارروائی کرنی ہے وہ لُوٹ مار میں مصروف ہیں۔ لُوٹ سیل کے آخری دن ہیں ۔ حکمرانوں کو پتہ چل گیا ہے کہ اقتدار شاید دوبارہ نہیں ملے گا ۔ اگر ملا بھی تو پہلے کی طرح بارہ سال انتظار کرنا پڑے گا اور پھر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ لہٰذا ان آخری دنوں میں سب کچھ لوٹ لینے کے انتظامات چل رہے ہیں۔ کسانوں کے نمائندے علی اعزاز گجر کا فون تھا کہ کسانوں کے اربوں روپے شوگر ملزمالکان دبا کر بیٹھ گئے ہیں۔ ششدر رہ گیا کہ وہ تو دس ارب روپے کی سبسڈی پچھلے دنوں حکومت سے یہ کہہ کر لے چکے ہیں کہ اگر نہ ملی تو وہ کسانوں کو پیسے ادا نہیں کریں گے۔ کسانوں کے پیسے بھی رکھ لیے اور عوام کے پیسوں سے دس ارب روپے کی سبسڈی بھی لے لی۔ کوئی پوچھ کر تو دکھائے ۔کیونکہ سب مل مالکان پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی جماعت میں بیٹھے ہیں۔ وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا نے تو اَت مچا دی ہے اور ایسے ایسے فیصلے کر رہے ہیں کہ لوگوں کو نظام سقہ کا دور یاد آگیا ہے۔ ایک لوٹ سیل لگ گئی ہے۔ جسے جو چاہیے ،آئے اور اپنے من کی مراد پائے۔ ڈاکٹر عاصم حسین وہ سمریاں بھی دن رات منظور کرانے میں مصروف ہیں جو پچھلے چار سالوں میں مسترد ہوگئی تھیں کہ دوبارہ موقع نہیں ملے گا ۔ ویسے بھی گیس کی اربوں روپوں کی ڈیلوں کا اپنا مزہ اور مال ہے جسے کون چھوڑے گا ۔ عاصم حسین کی وزارت کے خلاف انکوائری کے احکامات ڈاکٹر حفیظ شیخ نے دیے کہ اربوں روپے کے نئی ایل این جی سکینڈل کی بنیاد رکھی جارہی تھی ۔ وزیرٹیکنالوجی چنگیز جمالی کو سربراہ بنایا اور اب وہ چیخ رہے ہیں کہ کوئی بھی ان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار نہیں ہے۔ سلیم مانڈوی والا کو پتہ چلا کہ بدھ کو کابینہ کا اجلاس نہیں ہورہا تو ان کے منہ میں پانی بھر آیا ۔ ای سی سی اجلاس کا ہنگامی طور پر ایجنڈا تیار کیا گیا اور راتوں رات سمریاں سوئے ہوئے وزیروں اور سیکرٹریز کے گھروں پر پہنچوائی گئیں تاکہ کوئی بھی نہ پڑھ سکے کہ ان میں کیا تھا۔ جونہی صبح اجلاس شروع ہوا مزید گیارہ سمریاں پیش کر دی گئیں اور یوں کل بیس سمریاں وزیرخزانہ نے سامنے رکھ دیں اور انہوں نے مغل بادشاہ کی طرح سب کو فائدے پہنچائے۔ سب سے زیادہ نقد فائدہ شوگر ملز مالکان کو ہوا جنہوں نے دس ارب روپے حکومت کے خزانے سے لے لیے۔ چینی مہنگی ہو تو بھی یہ مل مالکان اربوں کماتے ہیں اور سستی ہو تو بھی ایکسپورٹ کے نام پر اربوں قومی خزانے سے کماتے ہیں۔ مال ہر صورت عوام کی جیب سے ہی نکلتا ہے۔ سیاسی دلوالیہ پن کا مظاہرہ دیکھیں کہ اداکارہ سپنا قتل کیس کے نامزد ملزم دوست محمد کھوسہ کی شہباز شریف کے ساتھ فوٹو چھپی ہے۔ اب دونوں میں صلح ہوگئی ہے اور اب مل کر الیکشن لڑیں گے۔ سپنا نے مرنا تھا مرگئی۔ اب صلح صفائی کا وقت ہے اور کھوسہ صاحب اب مطمئن ہیں کہ بیٹے کا سیاسی مستقبل بچ گیا ہے۔ میرے فیس بک پیج facebook.com/raufklasra1 پر بہت سارے دوست مجھ سے سیاسی مستقبل کا نقشہ پوچھتے ہیں۔ انہیں کیا بتائوں کیا تبدیلی آنے والی ہے ؟ہڑبونگ مچ گئی ہے اور چاروں طرف غدر کا سا سماں بندھ گیا ہے۔ نواز شریف فرماتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے سیاست نہیں کر رہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اپنے مکہ مدینے میں کیے گئے وعدوں اور دعوئوں سے مکرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ کیوں ہر اس لیڈر کو پارٹی میں قبول کیا جارہا ہے جس کا سیاسی کردار داغ دار ہے؟ نئی قیادت کہاں سے آئے گی ؟کیونکہ سب خاندانوں نے اپنے اپنے جانشین میدان میں اُتار دیے ہیں۔ ان جانشینوں کے درمیان بہت جلد تقریری مقابلوں کا دور شروع ہونے والاہے اور شامِ غریباں کا سا سماں آپ کو ٹی وی چینلز اور جلسوں میں نظر آئے گا۔ ارب پتی سیاستدان غریبوں کا رونا روئیں گے اور ہم آنسو بہائیںگے کہ ہمارے ساتھ ظلم ہوگیا اور ہمیں پتہ نہیں چلا ؟ بہت سارے دوستوں کو میرا کالم ’’سلطانہ ڈٖاکو کا بیٹے کے نام آخری خط\" پسند آیا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اب مجھے ایک \"پاکستانی سیاستدان کا بیٹے کے نام پہلا خط ‘‘لکھنا چاہیے کہ ذرا یہ تو دیکھیں کہ وہ اپنے جانشین کو آج کے پاکستان میں لوگوں کو بیوقوف بنانے اور سب سے بڑھ کر لوٹ مار کے کیا کیا انوکھے طریقے بتاتا ہے۔ اس خط سے سب کو تسلی ہوجائے گی کہ مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا !!