پچھلے ہفتے وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں جاری تھا۔ بحث ہو رہی تھی کہ شوگر سکینڈل کی انکوائری رپورٹ کے ساتھ کیا کیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف کیا کارروائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں پہلی دفعہ اس پیمانے پر یہ رپورٹ تیار کی گئی تھی جس میں سب کا کچا چٹھا کھولا گیا تھا؛ اگرچہ اس رپورٹ میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو اس معاملے سے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا ہے جس سے اس انکوائری کی شفافیت پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔
خیر اس انکوائری سے بڑے بڑے معززین کے چھوٹے کرتوتوں کا پتہ چلا کہ وہ کیسے فراڈ اور دو نمبری سے ارب پتی بنے ہیں۔ جب سرائیکی علاقوں میں گنے کی کاشت کو پاپولر کرنا تھا تو وہاں نئی قائم شدہ شوگر ملوں نے کسانوں کی منتیں کر کے ایڈوانس کھیت خرید لیے تھے۔ اس وقت کسی کو سمجھ نہ آئی کہ آخر ان شوگر ملز مالکان کے دل میں کسانوں کے لیے اتنی ہمدردی کہاں سے امڈ آئی تھی۔ کسانوں نے دیگر فصلوں کو چھوڑ کر گنے کا رخ کیا۔ کسانوں کو پہلے کپاس کے نام پر صنعت کار لوٹ چکے تھے۔ ان صنعت کاروں نے کسانوں کی محنت کیش کرائی‘ ایک بعد دوسری ٹیکسائل مل لگا لی جبکہ پھٹی کا کسان آج بھی پھٹے کپڑے‘ جوتے پہنے کھیت میں کھڑا ہے۔ ٹیکسٹائل والے دھاگا بیچ کر خوش رہے اور بنگلہ دیش‘ جہاں کاٹن پیدا نہیں ہوتی‘ پاکستان سے یہ لومز اور دھاگا منگوا کر دنیا بھر میں کاٹن سے فنشنگ پروڈکٹس بیچ کر ڈالرز کماتا رہا۔ جب پاکستانی حیران ہوتے ہیں کہ بنگلہ دیش کا زرمبادلہ پاکستان سے زیادہ کیسے ہوگیا ہے تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ہم لوگ کاٹن سے صرف دھاگا یا لومز بنانا جانتے ہیں جبکہ بنگالی اسی دھاگے اور لومز سے بڑے بڑے عالمی برانڈز کے لیے کپڑے، شرٹس، ٹائیاں، ٹرائوزرز، کوٹ، تھری پیس سوٹ اور پتہ نہیں کیا کیا تیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ایک پائو دھاگا سو روپے کا بنگلہ دیش کو بیچتے ہیں تو بنگلہ دیش اس دھاگے سے شرٹ بنا کر پچاس ڈالرز میں بیچتا ہے۔ ہمارے صنعتکار کی بلا سے زرمبادلہ بڑھے نہ بڑھے، کسان کو فصل کا ریٹ ملے یا نہ ملے، اسے دھاگا یا لومز بنا کر جب اچھی زندگی کیلئے پیسے مل جاتے ہیں تو وہ کیوں لمبے چکر میں پڑے۔ تو جناب یوں دھیرے دھیرے کاٹن کی جگہ گنا کاشت ہونے لگا اور کاٹن کے رقبے اور پروڈکشن میں نمایاں کمی ہونے لگی تو صنعت کاروں یا حکومت نے کاٹن ریسرچ میں سرمایہ کاری کرنے اور کسانوں کو بہتر بیج پیدا کر دینے کی بجائے بیرون ملک سے کاٹن امپورٹ کرنا شروع کر دی ہے۔ ایک اندازے مطابق ہر سال ایک ارب ڈالرز سے زیادہ کاٹن پاکستانی صنعت کار باہر سے منگوا رہا ہے اور جواز یہ پیش کیا جاتا ہے پاکستانی کاٹن کی پیداوار اور معیار کم ہے۔ سوال یہ ہے آپ لوگوں نے جو اربوں اس کسان کی محنت سے کمائے ہیں کبھی سوچا کاٹن ریسرچ اور بہتر کوالٹی بیچ پیدا کر کے جہاں کوالٹی کاٹن پیدا کی جائے وہیں پروڈکشن بھی زیادہ ہو تاکہ باہر سے نہ منگوانی پڑے۔ کاٹن تباہ کرنے کے بعد اب سب باہر سے کاٹن منگوا کر خوش ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو جواب ملتا ہے: پاکستانی انڈسٹری چل ہی ٹیکسائل پر رہی ہے ہم کیسے امپورٹ پر پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا چند برس پہلے پاکستان میں اتنی کاٹن ہوتی تھی کہ ہم ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ کماتے تھے۔
ایک دوست کہنے لگے: ان ملوں کو سبسڈی نہیں دیں گے تو وہ کسانوں کو گنے کی ادائیگی روک دیتے ہیں‘ کسان سڑکوں پر نکل آتے ہیں‘ لہٰذا سبسڈی دینی پڑتی ہے۔ میں نے کہا: پہلی بات تو یہ ہے شوگر ملز مالکان ان کسانوں کا بدترین استحصال کرتے ہیں جن کے نام پر اربوں لیتے ہیں۔ پہلے کاشتکاروں کے منت ترلے کرکے ایڈوانس ادائیگیاں کرتے تھے۔ ہر جگہ ان ملوں کے کنڈے لگے ہوئے تھے جہاں کسان گنا لے آتے اور ان کا وزن کرکے انہیں رسیدیں دے دی جاتی تھی۔ چند دنوں میں ادائیگی ہوجاتی تھی۔ شوگر ملوں کی تعدا بڑھی تو ملوں نے اپنے ٹرک تک ان کسانوں کے کھیتوں میں بھیج کر گنا اٹھوانا شروع کر دیا اور سارا خرچہ خود برداشت کرتے تھے۔ ضلعی انتظامیہ پر دبائو ڈال کر گڑ بنانے پر بھی دفعہ ایک سو چوالیس لگوا لیتے یوں کسان کے پاس آپشن نہیں ہوتا تھا وہ مل مالکان کی مرضی ریٹ پر گنا فروخت کرے۔ گندم ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ اسے پٹرول ڈیزل اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیا شہری بابو اپنے ریٹ پر فروخت کرتے ہیں لیکن جب وہ گندم بیچنے جائے تو اپنے ضلع کے علاوہ کہیں نہیں بیچ سکتا۔ اور تو اور وہ اپنے لیے بھی ذخیرہ نہیں کرسکتا ورنہ گرفتار ہوگا۔
جونہی حالات بدلے شوگر ملز مالکان نے نخرے دکھانے شروع کر دیے۔ اب کسان کو کہا گیا کہ گنا کاشت کرے، پورا سال حفاظت کرے، کٹائی کرے، ٹریکٹر ٹرالی کا کرایہ ادا کرے اور ملز کے گیٹ پر لے آئے، جہاں پہلے ہی سینکڑوں کی تعداد میں ٹرالیاں انتظار میں کھڑی ہوتی ہیں۔ وہاں وہ ڈیرے ڈال کر دو ہفتے اپنی باری کا انتظار کرے۔ پھر گنے کی کٹوتی کا رواج پڑا۔ پھر سیس فنڈ نام پر کٹوتی ہونا شروع ہوئی کہ اس پیسے سے آپ کے علاقے میں فارم ٹو مارکیٹ سڑکیں بنوائیں گے۔ یہ سیس فنڈ پتہ نہیں کون کھا گیا؟ اب اگلا مرحلہ شروع ہوتا کہ گنے کے پیسے کب ملیں گے۔ اربوں روپے ان ملز مالکان نے روک لیے اور کسان رل گئے۔ اس کے بعد گنے کے ریٹ پر مسئلہ کھڑا ہوا۔ حکومت نے سپورٹ پرائس اگر ایک سو اسی روپے رکھی تو مل مالکان نے ایک سو چالیس روپے دی۔ پھر انہوں نے کرشنگ سیزن تین ماہ لیٹ کر دیا تاکہ گنے کا وزن کم ہو جائے۔
میں نے دوست کو کہا: ذرا یہ ذہن میں رکھیں یہ سبسڈی کون لیتا ہے اور کس کو ملتی ہے؟ آپ ذرا نام لینا شروع کریں ان ملوں کے مالکان کون ہیں۔ آصف زراری، نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ، سلمان، گجرات کا چوہدری خاندان، ہمایوں اختر، دریشک، مخدوم خسرو بختیار کا خاندان، جہانگیر ترین، فہمیدہ مرزا وغیرہ۔ اب یہ کون لوگ ہیں؟ کوئی صدر ہے تو کوئی تین دفعہ کا وزیر اعظم‘ کوئی چار دفعہ کا وزیر اعلیٰ ہے تو کوئی وزیر۔ وزیراعظم خود وزیرزراعت، وزیر تجارت اور وزیر خزانہ لگاتا ہے۔ ان محکموں کے سیکرٹری بھی یہ خود لگاتے ہیں۔ پھر یہی سیکرٹریز سمریاں لے کر ای سی سی جاتے ہیں جہاں وزیر خزانہ سبسڈی کی منظوری دیتا ہے اور یہ منظوری کابینہ میں جاتی ہے جہاں وزیراعظم جس کی اپنی ملیں ہیں اس کی فائنل منظوری دیتا ہے اور پھر یہ اربوں روپے ریلیز ہوتے ہیں۔ جب حکومت کے سربراہان کی اپنی ملیں ہیں، انہوں نے خود ہی سارے افسران اور وزیر لگانے ہیں اور اپنی ہی ملوں کو ہی انہوں نے اربوں روپے کیش فراہم کرنے ہیں تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ واحد ملک ہے جہاں وزیراعظم سے لے کر وزیروں تک سب کا کاروبار ہے اور وہ خود ہی اپنے کاروبار کو نقصان میں دکھا کر عوام سے اربوں روپے لے لیتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیے جب ایک ہی رات میں بائیس ارب روپے کی سبسڈی دی اور شریف خاندان کی ملوں کو فائدہ ہوا۔ وزیراعظم بننے کی قیمت بائیس ارب کی سبسڈی عوام کی جیب سے ادا کر دی۔ دوسری طرف جہانگیر ترین ہیں جنہوں نے خان صاحب اور ان کی پارٹی پر جو سرمایہ کاری کی تھی وہ ایک سال میں سود سمیت پوری کر لی۔ اب سمجھ آئی یہ سب دوست جہاز کیوں اڑاتے ہیں، گھریلو کے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں یا پھر لینڈ کروزر دوبئی سے منگوا کر کیوں دیتے ہیں یا خاقان جیسے لوگ وزیراعظم کیوں بنتے ہیں؟ وہی امریکن محاورہ مفت کا لنچ کوئی نہیں کراتا۔ سارا بل عوام کی جیب سے ہی ادا ہوتا ہے۔ وہی عوام جو ان لیڈروں کے لیے نچ نچ کے اور نعرے مار مار کر نہیں تھکتے!