قومی اسمبلی میں اس دفعہ میچ خواجہ آصف اور اسد عمر کے درمیان پڑا۔ تحریکِ انصاف کے پاس زیادہ تر جو لوگ آئے ہیں ان میں سے کچھ جذباتی لوگ ہیں یا وہ جو دوسری جماعتوں سے آئے ہیں ۔ ایسے لوگ ہر سیاسی پارٹی میں اپنی جگہ بنا کر رکھتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر وہاں ٹھکانہ تلاش کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان صاحب کی کابینہ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو حکومت ختم ہوتے ہی بریف کیس اٹھا کر پیپلز پارٹی یا (ن) لیگ میں اس طرح شامل ہو جائیں گے جیسے وہ ان دونوں پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تھے۔اگر پی ٹی آئی کے پاس ایک آدھ مقرر ہے تو وہ بھی ایسی تقریر نہیں کرسکتا کہ لوگ پن ڈراپ خاموشی میں اسے سنیں ۔ اب بابر اعوان کے وزیراعظم کا مشیر بننے کے بعد شاید کچھ اچھی تقریریں سننے کو ملیں ۔ بابر اعوان نے وزیرپارلیمانی امور اور وزیرقانون کی حیثیت سے پیپلز پارٹی دور میں بڑی اعلیٰ تقریریں کی ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ سیاست میں بڑے عرصے سے موجود ہیں‘ لہٰذا ان کے ہاں بہت سے مقرر اکٹھے ہوگئے ہیں جو ہاؤس میں کھڑے ہو کر کسی وقت بھی تقریریں کر کے لوگوں کو حکومت کے خلاف چارج شیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ تقریریں تو بڑی اچھی کرتے ہیں اور ہاؤس کو گرما بھی دیتے ہیں لیکن ان کی باتوں پر کسی کو یقین نہیں آتا کیونکہ اتنے جھوٹ بولے گئے ہیں کہ اب وہ سچ بھی بول رہے ہوں تو لگتا ہے جھوٹ ہی بول رہے ہوں گے۔ دوسری طرح تحریک انصاف کیونکہ پہلی دفعہ حکومت میں آئی ہے‘ اسے سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے حکومت کرنی ہے۔ پارلیمانی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت اور ہاؤس نہ چل سکا ۔ عمران خان نے بھی نواز شریف کی طرح پارلیمنٹ کو اہمیت اور وقت نہیں دیا اور یہی اپوزیشن چاہتی تھی ۔ ہاؤس کی اہمیت نواز شریف اور عمران خان کے لیے اس وقت تک تھی جب تک انہوں نے وزیراعظم کا ووٹ لینا تھا ۔
خواجہ آصف ان چند لیڈروں میں سے ہیں جو دبنگ قسم کی تقریریں کرنے کے لیے مشہور ہیں ۔ پرویز مشرف کے دور میںانہوں نے دھواں دھار تقریروں کے لیے شہرت پائی۔ وہ سیاستدانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی بات کیا کرتے تھے۔ خواجہ آصف اور ان کی پارٹی کے دیگر ایم این ایز کی تقریریں سن کر لگتا تھا کہ (ن) لیگ اقتدار ملتے ہی بدل جائے گی‘ مگر ان پانچ سالوں میں‘ جب (ن) لیگ کا دور چل رہا تھا ‘ان کی ایسی تقریریں پھر نہ سنیں جو اپوزیشن میں سنتے تھے ‘ اپنی حکومت میں پانچ سال خواجہ آصف چپ رہے اور کبھی اعتراض نہ کیا کہ اسحاق ڈار کیسے ملک چلا رہے ہیں ۔ خواجہ آصف کی اپنی وزارت پانی و بجلی شہباز شریف اور ان کا صاحبزادہ چلا رہے تھے۔ ایک دن بجلی کے معاملے پر کابینہ میں خواجہ آصف پھٹ پڑے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں‘ جو وزارت چلا رہے ہیں اُن سے پوچھیں ۔ پھر انہیں وزارتِ دفاع دی گئی اور پھر وزارتِ خارجہ سونپی گئی۔ وزارت پانی و بجلی میں لمبا کام تھااور اس کام کو صرف شہباز شریف اور ان کا ٹیلنٹڈ برخوردار ہی سمجھتے تھے‘ خواجہ صاحب کو بجلی و پانی کا محاذ چھوڑ کر دوسروں وزارتوں میں پناہ لینا پڑی ۔اب خواجہ آصف اپنی حکومت کے دور کی جس معاشی ترقی کی کہانی سنا رہے تھے وہ زیادہ تر غلط اعدادوشمار پر مبنی تھی۔ اسحاق ڈار ہر دور میں غلط اعدادوشمار کے لیے مشہور ہیں‘ بلکہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں انہوں نے آئی ایم ایف کو ہی معاشی ترقی کے غلط فگرز دیے تھے جو پکڑے گئے تھے اور اس جھوٹ پر پاکستان کو ساٹھ ملین ڈالرز کا جرمانہ بھی ہوا تھا۔
خواجہ آصف فرمارہے تھے: ان کے دور میں ایکسپورٹ چوبیس ارب ڈالرز تھی ۔ شاید وہ بھول رہے ہیں کہ چوبیس ارب ڈالرز سالانہ ایکسپورٹ پیپلز پارٹی 2013ء میں چھوڑ کر گئی تھی اور جب (ن) لیگ نے 2018 ء میں حکومت چھوڑی تو ایکسپورٹ بیس ارب ڈالر تک تک گر چکی تھی۔ یہ پہلی دفعہ ہورہا تھا کہ ایکسپورٹ اوپر جانے کی بجائے چار ارب ڈالرز کم ہوگئی تھی ۔ اس طرح وہ جس ترقیاتی فنڈ کی بات کررہے تھے اور سات سو ارب روپے سے زائد کا بجٹ بتایا وہ کسی دن دستاویزات اٹھا کر دیکھ لیں ‘یہ رقومات صرف کاغذات کی حد تک ہوتی ہیں ۔ صرف بجٹ والے دن خبریں بنوانے کے لیے ورنہ پی ایس ڈی پی کبھی بھی پچاس ساٹھ فیصد سے زیادہ استعمال نہیں ہوا ۔ ایک سرکاری افسر نے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ یہ سو فیصد ترقیاتی فنڈ استعمال کر سکے۔ ہر سال وزارتیں پیسے واپس کر دیتی ہیں یا پھر بہت سی وزارتوں کا پیسہ بجٹ میں مختص تو کیا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ شفٹ کر کے کسی اور جگہ دے دیا جاتا ہے۔اسحاق ڈاراس وقت چوراسی کمیٹیوں کے سربراہ تھے اور وہی اصل وزیراعظم تھے‘ وہ سیاہ کرتے سفید کرتے ان سے کوئی نہیں پوچھ سکتا تھا ۔ جس نواز شریف کی ترقی کے افسانے خواجہ آصف سنا رہے تھے وہ تو آٹھ آٹھ ماہ پارلیمنٹ نہیں آتے تھے۔ ایک سال وہ سینیٹ نہ گئے۔ کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ تک نہیں ہوتا تھا ۔ انہوں نے ایک سو سے زائد غیرملکی دورے کیے اور چار سو دن کے قریب وہ ملک سے باہر رہے۔ صرف لندن کے چوبیس دورے الگ ۔ جو وزیراعظم پارلیمنٹ نہیں آتا تھا‘ سینیٹ نہیں جاتا تھا‘ کابینہ کے اجلاس چھ ماہ نہیں بلاتا تھا ‘ ہر دوسرے ہفتے ملک سے باہر ہوتا تھا‘اس کے بارے خواجہ آصف جیسا بندہ ہی خوش فہمی کا شکار ہوسکتا ہے کہ نواز شریف دور میں یہ ہورہا تھا اور وہ ہورہا تھا ۔ کون سی کابینہ کون سی پارلیمنٹ‘ چند خاندان کے لوگ ہی حکومت چلا رہے تھے۔ اسحاق ڈار نے پاکستانی تاریخ کے چالیس ارب ڈالرز کے مہنگے قرضے لیے۔ یورو بانڈز میں تو حد ہی کر دی ۔ خواجہ آصف کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کے بعد آنے والے پی ٹی آئی حکومت کے وزیروں کو کچھ پتہ نہیں کہ حکومت کیسے چلانی ہے ‘لہٰذا آج نواز لیگ ان پر چڑھائی کیے ہوئے ہے ۔ تحریک انصاف پہلے دن سے لڑنے آئی تھی اور لڑ رہی ہے ‘ یہ طے ہے کہ حکومت چلانا ان کے بس کی بات نہیں۔ عمران خان بائیس برس کرپشن کے خلاف باتیں کرتے رہے اور اب پتہ چلا ہے کہ کرپٹ تو ان کے دائیں بائیں بیٹھے تھے‘ جن کی وہ خود تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ۔ فرق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ نواز شریف دور میں جو کرپشن ہورہی تھی اس کا براہ راست فائدہ شریف خاندان کے کاروبار کو ہورہا تھا جبکہ عمران خان کے دور میں کرپشن کا فائدہ ان کے قریبی دوستوں‘ وزیروں اور مشیروں کو ہورہا تھا ۔
اسد عمر کی تقریر سن کر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہنسا جائے یا رویا جائے ۔ ہر دوسرے فقرے میں وہ عمران خان کی عظمت‘ ذہانت اور سمجھداری کی تعریفیں کر کے پاکستانیوں سے کہہ رہے تھے کہ شکر کرو عمران خان آپ کے وزیراعظم ہیں۔ وہ موجودہ معاشی پالیسیوں کا شاندار دفاع کررہے تھے۔ اس عمران خان کا جس نے اسی اسد عمر کو صرف ایک واٹس ایپ میسج پر وزیرخزانہ کے عہدے سے یہ کہہ کر برطرف کر دیا تھا کہ آپ کی معاشی پالیسیاں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور اس عہدے پر رہنے کے قابل نہیں ہیں ۔ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں کہ عمران خان مردم شناس نہیں‘ مردم شناس نہ ہوتے تو اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ کو لاتے جس نے بقول خود اسد عمر کے ہٹتے ہی اپنے پہلے بارہ ماہ میں ہی معیشت بہتر کر دی۔ ویسے اسد عمر کی اپنے بارے میں سچ بولنے پر تعریف ہونی چاہیے کہ وہ وزیرخزانہ کے طور پر مکمل ناکام نکلے اورحفیظ شیخ کو نہ لایا جاتا تو بیڑا غرق ہوجاتا ۔