ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے مرکزی کردار اور جنرل ضیا کے قریبی جنرل فیض علی چشتی نے بات ہی ایسی کہہ دی تھی کہ انور بیگ کو لگا ان پر بم گر گیا ہو۔ ''میں بینظیر بھٹو سے ملنا چاہتا ہوں اور آپ میری ملاقات کرائیں‘‘ فیض چشتی نے حیران پریشان انور بیگ سے کہا۔
بینظیر اکتوبر 2007ء میں پاکستان لوٹی تھیں اور اب نومبر میں فیض چشتی انور بیگ سے کہہ رہے تھے کہ وہ بینظیر بھٹو سے خفیہ ملاقات کرائیں۔ جنرل چشتی سے انور بیگ کی ملاقات 1977ء میں اسلام آباد ہوئی تھی۔ بیگ نے شہر اقتدار میں نیا نیا گھر لیا تھا۔ جنرل ضیا بھٹو کا تختہ الٹ کر انہیں جیل میں ڈال چکے تھے۔ چشتی صاحب کو مارشل لاء کا آرکیٹیکٹ سمجھا جاتا تھا۔ انور بیگ نے کہا: فیض صاحب‘ بھلا میں کیسے ملاقات کرا سکتا ہوں؟ جو کچھ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا اس کے بعد میں ایک بیٹی سے کیسے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ان سے خفیہ ملاقات کر لیں جن کو وہ اپنے باپ کی پھانسی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں؟ جنرل فیض بولے: بیگ صاحب مجھے پتہ ہے بینظیر بھٹو آپ کی بہت عزت کرتی ہیں‘ آپ کو وہ انکار نہیں کریں گی۔ انور بیگ کے ذہن میں سوال ابھرا کہ فیض چشتی بینظیر بھٹو سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ پلوں کے نیچے کتنا پانی بہہ گیا تھا۔ تیس برس بعد ایسی ملاقات کا کیا فائدہ تھا؟
جنرل چشتی نے انور بیگ سے کہا: وہ بینظیر بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا کے حوالے سے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ انور بیگ نے جنرل فیض کو کہا: یہ مشکل ہوگا‘ بینظیر بھٹو کبھی نہیں مانیں گی‘ وہ الٹا ان کی ذاتی اور سیاسی ساکھ پر سوالات اُٹھا دیں گی‘اور وہ یہ افورڈ نہیں کر سکتے کہ بی بی ان پر شک کریں یا ناراض ہو جائیں؛ تاہم جنرل فیض چشتی نے ہمت نہیں ہاری اور ملاقات کرانے کا مطالبہ کرتے رہے۔انور بیگ کئی دن سوچتے رہے کہ آیا انہیں یہ خطرہ مول لے کر بینظیر بھٹو سے بات کرنی چاہیے؟ بالآخرانور بیگ نے خطرہ مول لے کر بینظیر بھٹو سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن زرداری ہاؤس اسلام آباد میں پارٹی کا اجلاس ختم ہوا تو انور بیگ وہیں بیٹھے رہے‘ باقی چلے گئے۔ بینظیر بھٹو نے انور بیگ کی طرف دیکھا تو بولے: آپ سے اہم بات کرنی ہے۔ بی بی نے کہا: جی انور بولیں۔ انور بیگ بولے: بی بی بات ایسی ہے جس پر آپ خفا بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ بات ذاتی قسم کی ہے۔ بینظیر بھٹو حیران ہوئیں کہ ایسی کیا بات ہے جس پر انور بیگ گھبرا رہے ہیں؟ خیر انور بیگ نے ڈرتے ڈرتے کہا: جنرل فیض علی چشتی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہی ہوا جس کا انور بیگ کو ڈر تھا۔ بینظیر بھٹو غصے سے چھت سے جا لگیں اور بولیں: وَٹ؟ آپ کو پتہ ہے اور اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہے ہیں۔ انور بیگ نے ابتدائی جھٹکے سے سنبھل کر کہا: آپ دیکھ لیں‘ ہو سکتا ہے وہ کچھ نئی باتیں آپ کو بتا سکیں جو آپ کو پتہ نہ ہوں۔ بینظیر بھٹو نے انگریزی میں کہا: No way EB۔
زیادہ بحث کی جرأت انور بیگ کو نہیں ہوئی۔ وہ چپ کرکے ڈرائنگ روم سے نکل گئے۔ انور بیگ نے جنرل چشتی کو بتایا کہ بینظیر بھٹو ان سے ملنے کو تیار نہیں ہیں۔ چشتی صاحب کو اس جواب سے حیرانی نہیں ہوئی‘ انہیں اسی جواب کی توقع تھی۔ پھر بھی جنرل چشتی نے کہا: بیگ صاحب‘ کچھ بھی ہو جائے آپ نے میری ملاقات کرانی ہے‘ آپ کے علاوہ کوئی بندہ نہیں‘ جس کے ذریعے میں ان کو ملنے پر قائل کر سکوں‘ مجھے بینظیر بھٹو سے ملنا ہے۔ چند دن بعد پھر پارٹی کے اجلاس کے بعد انور بیگ رک گئے۔ بینظیر بھٹو نے پھر پوچھا: خیریت؟ انور بیگ نے کہا: جنرل چشتی کو بتایا تھا کہ آپ نہیں ملنا چاہتیں‘ لیکن وہ اصرار کر رہے ہیں۔ بی بی کا پارہ پھر چڑھ گیا۔ انور بیگ نے ہمت نہ ہاری اور بولے: ممکن ہے وہ کچھ ایسی باتیں بتانا چاہتے ہوں جو آپ کے کام آ سکیں یا جن کا آپ کو علم نہ ہو۔ بی بی نے پھر انکار کر دیا۔ انور بیگ نے جنرل فیض چشتی کو بتایا کہ بینظیر بھٹو ملنے کو تیار نہیں۔ جنرل فیض نے کہا: آپ پھر بات کریں‘ انہیں قائل کریں۔ انور بیگ بولے: میں کیا قائل کروں‘ وہ سختی سے منع کر چکی ہیں‘ کہیں مجھے ہی پارٹی سے اٹھا کر باہر نہ پھینک دیں۔
بہرحال کچھ دن بعد انور بیگ کو موقع ملا اور بات دہرائی تو بیگ کو لگا کہ اس دفعہ بی بی کی ناں میں وہ زور نہیں‘ جو پہلے تھا۔ انور بیگ نے کہا: سنیں تو سہی ان کے پاس ایسا کیا ہے جو وہ صرف آپ کو بتانا چاہتے ہیں۔ بی بی نے پھر انکار کیا۔ انور بیگ نے جنرل فیض کو بتایا کہ بات نہیں بن رہی تو جنرل نے کہا: آپ کوشش جاری رکھیں۔ انور بیگ کو بھی تجسس ہوچلا تھا کہ آخر جنرل فیض بینظیر بھٹو کو ایسا کیا بتانا چاہتے ہیں کہ مسلسل اصرار کررہے ہیں حالانکہ بینظیر بھٹو ملنے سے انکاری ہیں۔ کچھ دن وقفے کے بعد انور بیگ نے پھر بینظیر بھٹو کے سامنے وہی دہرایا کہ جنرل چشتی بضد ہیں کہ آپ سے ملنا ہے۔ جیسے جنرل فیض چشتی کی بات سن کر انور بیگ پر پہلے بم گرا تھا ایسے ہی پھر گرا جب بینظیر بھٹو نے کہا ـ:اوکے انور لیکن یہ ملاقات یہاں زرداری ہاؤس میں نہیں ہوگی‘ اُنہیں یہاں نہیں بلوائوں گی۔ یہ ملاقات آپ کے گھر ہوگی ۔
انور بیگ کو ہرگز توقع نہ تھی کہ بینظیر بھٹو جنرل فیض چشتی سے ملنے پر راضی ہو جائیں گی۔ انور بیگ نے جنرل چشتی کو یہ خبر سنائی جو چشتی صاحب کے لیے بھی حیران کن تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بینظیر بھٹو ان سے نہیں ملیں گی۔ اب بینظیر بھٹو‘ انور بیگ اور جنر ل چشتی میں طے ہونے لگا کہ ملاقات کیسے ہوگی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ شام پانچ بجے اس خفیہ ملاقات کا وقت طے ہوا۔ ملاقات انور بیگ کے ایف سیون واقع گھر میں ہونی تھی۔ انور بیگ نے چشتی صاحب کو بتایا کہ وہ بلیو ایریا اسلام آباد میں ایک جگہ اپنی گاڑی پارک کریں گے اور ان کا ڈرائیور انہیں پک کر کے گھر لے آئے گا۔ بینظیر بھٹو سے طے ہوا کہ جب جنرل چشتی انور بیگ کے گھر پہنچ جائیں گے تو وہ دس منٹ پہلے بتا دیں گے۔ جونہی ڈرائیور جنر ل چشتی کو لے کر انور بیگ کے گھر داخل ہوا تو بینظیر بھٹو کو میسیج کر دیا گیا کہ مہمان پہنچ گئے ہیں۔ دس منٹ بعد بینظیر بھٹو کی گاڑی انور بیگ کے گھر داخل ہوئی۔ ناہید خان بھی بینظیر بھٹو کے ہمراہ تھیں ۔ جب ناہید خان گاڑی سے اترنے لگیں تو بینظیر بھٹو نے کہا :ناہید تم واپس جائو‘ کچھ دیر بعد جب فارغ ہو جائوں گی تو تمہیں بلا لیں گے۔ بینظیر بھٹو ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں تو تیس برس بعد اس جنرل کو دیکھا جسے وہ دیگر کے ساتھ ساتھ اپنے باپ کی پھانسی کا ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ جنر ل چشتی فوراً صوفے سے کھڑے ہوئے‘ بینظیر بھٹو کو سلام کیا ‘ بینظیر بھٹو نے سلام کا جواب دیا۔
اب بینظیر بھٹو اور جنرل چشتی آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ بینظیر بھٹو بالکل پتھر کی مانند ساکت اور خاموش تھیں‘ لیکن ان کی گہری نظریں جنرل چشتی پر لگی ہوئی تھیں‘ وہ تجسس کا شکار تھیں کہ اس ریٹائرڈ جنرل کے پاس ان کے پاپا اور جنرل ضیا کے کون سے راز ہیں۔ کمرے میں سکوت طاری رہا ۔ انور بیگ کو لگا ان کے اعصاب جواب دے جائیں گے ‘وہ بولے: بی بی میں باہر چلتا ہوں‘آپ باتیں کریں ۔بی بی نے سخت لہجے میں کہا :نہیں انور تم کہیں نہیں جائو گے‘ ادھر ہی ٹھہرو۔ بینظیر بھٹو کا تجسس پوری طرح جاگ چکا تھا کہ آخر جنرل صاحب کے پاس کون سا راز ہے جو وہ تیس سال سے سینے میں چھپائے پھر رہے ہیں۔ ماحول میں ٹینشن واضح تھی جو دور سے محسوس کی جا سکتی تھی۔ ڈرائنگ روم میں سناٹا گہرا ہوگیا تھا۔ آخر جنرل چشتی نے ڈرائنگ روم پر راج کرتی اعصاب شکن اور پراسرار خاموشی توڑی اور بینظیر بھٹو کو دیکھ کر دھیرے دھیرے تیس سال پرانے رازوں سے پردہ اٹھانا شروع کیا ۔
( نوٹ: یہ میری زیر اشاعت کتاب کا ایک باب ہے)