مارچ میں وزیراعظم عمران خان کی پریس بریفنگ کے بعد مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کورونا کی احتیاط ایک طرف رکھتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا کر اپنے تئیں میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: سنا ہے آپ آج کل اپنے یوٹیوب چینل پر بڑی بڑی خبریں بریک کررہے ہیں۔ کورونا کی سوشل ڈسٹنسنگ کا ذہن میں ہوتے ہوئے بھی یہ سوچ کر حفیظ شیخ سے ہاتھ نہیں چھڑایا کہ برا لگتا ہے۔کہنے لگے: کسی وقت دفتر تشریف لائیں ‘ میں نے کہا: جی ضرور۔ ان کا اشارہ ہاٹ منی کی طرف تھا اور ان کے دوست کی وارداتوں کی خبریں دی تھیں ۔
اب آپ پوچھیں گے تین ماہ بعد حفیظ شیخ صاحب کیوں یاد آگئے؟
پاکستان میں صحافیوں کے لیے خبروں کی کمی نہیں ہوتی ۔ پاکستانی صحافی تو چھوڑیں گورے صحافی امریکہ‘ لندن اور یورپ سے اسلام آباد رپورٹنگ کرنے آتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد واپس جا کر ایسی کتابیں لکھتے ہیں کہ وہ بیسٹ سیلر ہوتی ہیں ۔گورے صحافیوں کو ہم جیسے کالے صحافیوں پر ہمیشہ پاکستانی حکمران‘سیاستدان اور بیوروکریٹ ترجیح دیتے ہوئے اور راز افشا کردیتے ہیں۔ سب اہم سکینڈلز ہمیشہ لندن یا امریکہ کے پریس میں چھپے ہیں چاہے وہ بینظیر بھٹو اور زرداری کا سرے محل ہو‘ شریفوں کے لندن فلیٹس ہوں یا عمران خان صاحب کے بارے خبریں‘ سب کچھ ہمیں لندن سے ہی پتہ چلا ہے۔
ابھی ہم ایک مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرہی رہے ہوتے ہیں کہ دوسرا بم گرجاتا ہے اور ہمیں یاد نہیں رہتا کہ کل کیا ہوا تھا۔ کراچی طیارہ حادثے میں کم و بیش سو افراد مارے گئے ‘آج وہ خبر کہیں نظر نہیں آتی۔ کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے تو بھی کسی کو فکر نہیں۔ جنہیں فکر ہونی چاہیے وہ اب ٹڈی دَل پکڑ رہے ہیں۔ اس دوران نیب اور شہباز شریف کا بھی میچ چل رہا ہے۔ اللہ بھلا کرے‘ شوگر سکینڈل نے بھی کچھ دن رونق لگائے رکھی ۔ ابھی اس کی رونق ماند پڑی ہی تھی کہ بجلی گھروں کی لوٹ مار سامنے آگئی‘ تاہم بجلی گھروں کی لوٹ مار اتنی زیادہ تھی کہ ایک دوست ملک کا نام لے کر اس انکوائری کو دبا دیا گیا۔ اس دوران بھارت سے ادویات کا سکینڈل سامنے آیا تو دو تین دن رولا پڑا اور وہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا ۔ گندم سکینڈل کی کسی کو تفصیل تک یاد نہیں ہوگی۔ اس سارے شور شرابے میں بھلا یہ بھی کوئی خبر ہوگی کہ کراچی سے ایک وفاقی وزیر ایک سرکاری محکمے کے خرچ پر رمضان میں اپنے گھر کے سٹاف کے نام پر ایک من پکوڑے منگوا کر کھا گئے‘ جبکہ ہزاروں سموسے‘ روزانہ پانچ کلو دودھ‘ شربت‘ بریانی‘ کڑاہی اس کے علاوہ تھی۔ وزیر کے گھریلوباورچی کو کچن کے خرچے کے نام پر 91000 الگ ادا کیے گئے۔ اسی وزیر کے سٹاف ممبر کو سرکاری اکاؤنٹ سے ڈیڑھ لاکھ روپے موبائل فون پر ٹرانسفر کرائے گئے۔ لیپ ٹاپ کی کہانی چلیں رہنے دیتے ہیں‘ ایک لگژری گاڑی کراچی سے اسلام آباد وزیر کے لیے بھیجی گئی اور آتے ہی محکمے نے پونے دو لاکھ روپے سے نئے ٹائر ڈلوا کر دیے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ بھی کوئی خبر ہے؟ اگر ایک من پکوڑے اور ہزاروں سموسے آئے تو کون سی قیامت آگئی۔ قیامت اس لیے آگئی کہ آپ کسی کو ملنے جائیں تو چائے کی ایک پیالی اور دو بسکٹ کے بعد آپ تیسرا بسکٹ نہیں کھاسکتے‘ لیکن ایک وزیر کے گھر کا سٹاف ایک من پکوڑے کھا گیا ‘ باقی اس کے علاوہ ہے۔
اب آپ بتائیں جب کورونا کنٹرول سے باہر ہوگیا ہے‘ ٹڈی دَل تباہی پھیلا رہا ہے‘ اس وقت بھلا ہاٹ منی کا سکینڈل کس کو یاد ہوگا؟ کچھ ماہ پہلے میں نے ہاٹ منی کے کرشمے پر کالم لکھا تھا تو اس پر پوری قوم ناراض ہوگئی تھی ۔اس ہاٹ منی کا ذکر ارشد شریف کے پروگرام میں بھی ہوا تھا جہاں فرخ سلیم کے علاوہ زبیر خان بھی موجود تھے جو فاروق لغاری کے دور میں نگران وزیرخزانہ رہے تھے اور اکانومی کو سمجھتے ہیں۔ ہاٹ منی دراصل دنیا کے چند ارب پتی لوگوں کا ایک گروہ ہے جو اس ملک کو تین ماہ یا چھ ماہ کے لیے بھاری سود پر قرضہ دیتا ہے جس کی اکانومی پہلے ہی ڈوب رہی ہو۔ یہ ارب پتی ان ملکوں کو ہاٹ منی فراہم کرتے ہیں جہاں آئی ایم ایف پروگرام پہلے سے چل رہا ہو۔ ان کے آنے سے پہلے آئی ایم ایف دو تین کام کرا چکا ہوتا ہے جس سے ان ارب پتیوں کا اس ملک کو لوٹنا آسان ہو جاتا ہے۔ پہلے آئی ایم ایف اس ملک میں ڈالر کی قیمت بہت اوپر لے جاتا ہے۔ پھر آئی ایم ایف بینکوں کا انٹرسٹ ریٹ اوپر لے جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہوا‘ ساتھ ہی کہا گیا کہ پاکستان کے پاس ڈالرز نہیں ہیں‘ لہٰذا ہاٹ منی کو سامنے لایا گیا ۔ اب اس گروہ نے تین سے چھ ماہ کے لیے پاکستان کو بھاری سود پر قرض دیا ۔ ان کا پیسہ پہلے ڈالروں سے روپے میں تبدیل کیا گیا ‘ ڈالر کا ریٹ اوپر ہونے کی وجہ سے پاکستانی کرنسی میں انہیں زیادہ پیسے ملے۔ پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرنے بعد اس پر تیرہ فیصد سود دیا گیا ۔ جس دن ان ارب پتیوں نے کہا کہ ہمارے پیسے واپس کرو تو ان کے پیسوں کو اس دن کے ڈالر کے ریٹ کے ساتھ تبدیل کر کے تیرہ فیصد انٹرسٹ لگا کر ڈالروں میں ہی واپس کیا گیا ۔ یوں ان ارب پتیوں نے بیٹھے بٹھائے لمبا مال کما لیا۔ ڈالر دیے اور ڈالر واپس لیے‘ لیکن بہت زیادہ پرافٹ کے ساتھ۔ اس پر سب ماہرین معیشت نے شور ڈالا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں ‘ یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ۔ تیرہ فیصد سود پر کون پاکستانی بینک سے قرضہ لے کر کاروبار کرے گا ؟ کہا گیا کہ ہاٹ منی سے اکانومی مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوگی ‘ کیونکہ ان لوگوں کا جب دل چاہے گا وہ اپنا پیسہ سود سمیت نکال لیں گے اور ملکی اکانومی یہ دھچکا برداشت نہیں کر پائے گی۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ ہاٹ منی نکل گئی ہے۔ ان ارب پتیوں نے وہ پیسہ نکال لیا ہے اور ساتھ ڈالروں میں بھاری پرافٹ بھی لے گئے ہیں ۔ اسحاق ڈار نے بھی یہی کیا تھا جب 2014 ء میں پانچ سو ملین کے یورو بانڈز کے لیے مہنگا ترین قرض لیا اور سوا آٹھ فیصد مارک اپ دیا۔ بھارتی کمپنی کو سات سو ملین ڈالرز سوا دو فیصد سود پر ملے تھے‘ لیکن حکومت پاکستان سو اآٹھ فیصد پر قرض لے آئی۔ بعد میں سلیم مانڈوی والا جو سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے چیئرمین تھے ‘نے تفتیش شروع کی تو پتہ چلا کہ پاکستان کی اشرافیہ کے لیے یہ میلہ رچایا گیا تھا۔ پاکستان سے ہی ملین آف ڈالرز بھیج کر یہ مہنگے یورو بانڈز خریدے گئے کیونکہ اس کا پرافٹ اتنا زیادہ تھا کہ ان کی نسلیں سدھر گئیں۔ پانچ سو ملین ڈالرز کا سود چار سو دس ملین ڈالرز تھا ۔ یوں بیٹھے بٹھائے لوگوں نے مال بنا لیا ۔
اب یہی کچھ ہاٹ منی کے ساتھ ہوا ہے۔ لندن‘ نیویارک‘ دبئی کے سیٹھوں نے بیٹھے بٹھائے تین سے چھ ماہ میں پاکستان سے لمبا پرافٹ کما لیا اور اب پیسہ بھی نکال لیا ہے ۔ وہ لوگ جو ملک کی محبت میں ہاٹ منی کا رونا رو رہے تھے وہ الٹا انہی لوگوں سے گالیاں کھا رہے تھے جن کی جیبوں پر ان عالمی لٹیرو ں نے ڈاکا مارا تھا ۔ کسی نے درست کہا تھا کہ لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے لیکن انہیں یہ سمجھانا مشکل ہے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ جب اسحاق ڈارنے چونا لگایا تو اس کے حامی اس طرح زور شور سے دفاع کرتے تھے جیسے ہاٹ منی کے حامی کررہے تھے‘ کیونکہ عوام کو اپنے لٹیروں سے محبت ہے۔
اب پتہ نہیں حفیظ شیخ مجھے ہاٹ منی کے فوائد پر کیا لیکچر دیں گے‘ کیونکہ ہاٹ منی تو کب کی جا چکی۔ عالمی لٹیرے لوٹ کر نکل گئے ہیں اور میں بیوقوف ابھی اس انتظار میں ہوں کہ کسی دن حفیظ شیخ مجھے بلا کر ہاٹ منی کے فوائد سمجھائیں گے!