"RKC" (space) message & send to 7575

No surrender

آج تین عجیب باتیں ہوئیں۔
فیس بک پر ایک پرانا ویڈیو کلپ دیکھا جو اینکر افتخار احمد کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ سے لیے گئے ایک انٹرویو سے تھا۔ پھر فیس بک کے امریکی ملازم نوجوان کی خبر پڑھی جس نے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پر‘ جس میں دھمکی دی گئی تھی لوٹ مار ہو گی تو پھر شوٹنگ ہو گی‘ فیس بک کے مالک کی خاموشی کے بعد اپنی نوکری سے استعفا دے دیا‘ اور پھر میرا بیٹا صبح سویرے میرے جاگنے سے پہلے میرے سرہانے ایک کتاب No surrender رکھ گیا۔ آپ کہیں گے ان تینوں کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔ کچھ دیر تو میں خود بھی سوچتا رہا واقعی ان تینوں کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے؟
شروعات سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اس پرانے انٹرویو سے کرتے ہیں جس میں وہ بھٹو کو پھانسی کے اپنے فیصلے کا یہ کہہ کر جواز فراہم کر رہے تھے انہیں نوکری بچانی تھی‘ بھٹو کو پھانسی نہ دیتے تو جج کی نوکری سے فارغ ہو جاتے اور بیروزگار ہوتے۔ مطلب وہ کہاں سے خود کھاتے اور خاندان کو کھلاتے۔ انہیں اللہ سے زیادہ توکل جنرل ضیا پر تھا کہ وہ روزی روٹی فراہم کرنے والے ہیں۔ قرآن پاک میں لکھا گیا‘ کبھی ہم تمہیں دے کر آزمائیں گے اور کبھی تم سے چھین کر۔ تھوڑی سی آزمائش پڑی تو ساتھ ہی سب کچھ بھول گیا۔ مجھے جسٹس نسیم پر اعتراض نہ ہوتا اگر کہتے کہ وہ قانونی طور پر قائل تھے‘ بھٹو کو پھانسی دینا بنتی تھی۔ ایک بندے کو پھانسی پر چڑھا دیا تاکہ نوکری چلتی رہے؟ کیا جج کو حکمران سے خوفزدہ ہونا چاہیے کہ وہ اس کی خوشنودی کی خاطر لوگوں کو پھانسی لگانے پر تل جائے؟ ویسے لوگ یہ کیسے کر لیتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہے اس کیس میں سزا نہیں بنتی لیکن پھر بھی پھانسی دے دیں کیونکہ اگر آپ ہٹا دیے گئے تو پھر آپ کو اور کوئی کام نہیں ملے گا؟ ایک لمحہ ہوتا ہے جو کسی کو ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بنا دیتا ہے۔ یہ لمحہ انہی جسٹس نسیم کے دیگر تین ساتھی ججوں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس حلیم اور جسٹس صفدر شاہ پر بھی آیا تھا کہ انہوں نے بھٹو کو پھانسی دینی ہے یا اختلاف کرنا ہے۔ ان کے خاندان نہیں تھے یا انہیں بیروزگاری کا ڈر نہیں تھا؟ جسٹس صفدر شاہ کو تو جنرل ضیا کے دبائو کو مسترد کرکے بھٹو کے حق میں دیے گئے فیصلے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ سپریم کورٹ کا جج ہونا بڑی بات ہے۔ ان تین ججوں نے بھی تو کچھ سوچ کر ہی جنرل ضیا کی دھمکیوں کو مسترد کرکے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ بے شک وہ تین تھے اور جنرل ضیا کے دبائو میں آ جانے والے چار تھے۔ تو تاریخ آج کن لوگوں کو یاد رکھتی ہے۔ جسٹس دراب پٹیل، جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ یا جسٹس نسیم حسن شاہ جیسے لوگوں کو؟
جسٹس نسیم حسن شاہ نے درست اندازہ لگایا‘ پاکستان میں وہی اعلیٰ مقام پاتا ہے جو ہر طاقتور کے آگے جھک جائے‘ جس کے نزدیک کوڈ آف آنر، اصول، انصاف یا عزت کا تصور نہ ہو۔ وہی سکندر جو ہر طاقتور کے پائوں پکڑے اور کمزور کا گلا۔ جسٹس نسیم کا معاشرے بارے اندازہ درست نکلا۔ 
اب اس نوجوان امریکی لڑکے کو دیکھ لیں۔ اس نے پچھلے سال جارجیا ٹیک یونیورسٹی اٹلانٹا سے گریجویشن مکمل کی‘ GPA سکور 4 تھا۔ امریکہ میں انٹرنشپ لینا مشکل ہے۔ بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ انٹرنشپ کے بعد نوکری کیلئے الگ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس لڑکے نے محنت کی اور فیس بک میں اچھی نوکری مل گئی۔ جو بھی ٹیکنالوجی میں ڈگری لیتا ہے اس کیلئے فیس بک یا گوگل میں نوکری ایسا خواب سمجھا جاتا ہے جو ہر کسی کا پورا نہیں ہوتا۔ پچھلے سال وہ یونیورسٹی سے فارغ ہوا اور فیس بک میں نوکری مل گئی۔ 
اب پچھلے ہفتے امریکہ میں ایک بے چارے افریقن امریکن شہری کو پولیس نے مار ڈالا جس پر پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اس پر کچھ لوگوں نے ہنگاموں کی آڑ میں بڑے بڑے سٹورز پر لوٹ مار شروع کر دی اور جو برانڈ ہاتھ لگا لوٹ کر لے گئے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا: اگر مظاہرین لوٹ مار کریں گے تو گولیاں کھائیں گے۔ اس پر امریکہ میں ردعمل آیا کہ ملک کا صدر تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ ٹرمپ پر شدید تنقید شروع ہوگئی؛ تاہم اس مسئلے میں سب سے زیادہ جو پھنس گئے وہ ٹویٹر اور فیس بک تھے۔ دونوں نے وہ ٹویٹس شیئر کیے۔ ٹویٹر اور فیس بک کی پالیسی ہے کہ دونوں تشدد پر اکسانے والے ٹویٹس یا فیس بک سٹیٹس کی اجازت نہیں دیتے۔ اگر عام بندہ یہ ٹویٹ کرے یا فیس بک پر ایسا سٹیٹس دے جو ان کی پالیسی کے خلاف ہو تو اس ٹویٹ کو یا تو ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے یا اکائونٹ تک معطل کر دیا جاتا ہے؛ تاہم ٹویٹر نے امریکی صدر کا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے بجائے ایک نوٹ لکھ دیا کہ اگرچہ صدر ٹرمپ کا یہ ٹویٹ ان کی تشدد پالیسی کے خلاف ہے‘ لیکن وہ اسے ڈیلیٹ نہیں کررہے اور عوامی مفاد میں اسے ظاہر کررہے ہیں؛ تاہم اس معاملے میں فیس بک نے نہ تو ان کا بیان ہٹایا اور نہ ہی کوئی نوٹ لکھا جیسا ٹویٹر نے لکھا۔ اس پر فیس بک کے اندر سے ملازمین میں شدید ردعمل آیا کہ ان کا ارب پتی مالک بھی چپ ہے اور اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ ٹویٹر کی طرح نوٹ ہی لکھ دیتا۔ ان ملازمین کا موقف تھا: اگر عام فیس بک صارفین پر یہ اصول لاگو ہوتے ہیں تو ٹرمپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ فیس بک کے مالک کی خاموشی دیکھ کر اس نوجوان نے فوری طور پر استعفا دے دیا کہ وہ ایسی جگہ نوکری نہیں کر سکتا جس کے مالک کی زبان بند ہو۔ اس نے لکھا: مجھے افسوس ہے‘ فیس بک نے صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پر خاموشی اختیار کرکے امریکہ کو خطرے میں ڈال دیا اور میری کمپنی اس خطرناک 'سٹیٹس کو‘ چیلنج کرنے کی بجائے خاموش ہے۔ اس نے اپنا سی وی شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کسی کمپنی کو اس کی خدمات کی ضرورت ہے تو وہ نوکری ڈھونڈ رہا ہے۔ اس میسیج کے بعد وہ لڑکا ہیرو بن گیا اور اسے ہر طرف سے نوکری کی آفرز آرہی ہیں۔ داد دیں اس لڑکے کو جس نے ہزاروں ڈالرز کی نوکری کسی اصول، ضابطے اور اپنے ضمیر کیلئے چھوڑی اور بیروزگار ہوگیا۔ اس نے نہیں سوچا وہ کیا کرے گا؟ کہاں سے کھائے گا؟
اب آتے ہیں اس کتاب No surrendre کی طرف جو جنگ عظیم دوم کی جاپانی آرمی کے سکینڈ لیفٹیننٹ کے بارے میں ہے۔ وہ تیس سال فلپائن کے جنگلوں میں چھپا رہا۔ اس نے امریکی فوجوں کے آگے سرنڈر کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکن آرمی پیچھے لگی رہی، علاقے کے مخالف عوام، فلپائنی پولیس سب اسے ڈھونڈتے رہے۔ جاسوس تک پیچھے لگے لیکن وہ ہاتھ نہ آیا۔ وہ فوجی تیس برس تک سمجھتا رہا‘ ابھی جنگ عظیم دوم لڑی جا رہی ہے‘ ایک دن ساتھی فوجی آئیں گے اور وہ سب دوبارہ جنگ لڑیں گے۔ اس وقت تک اس نے سرنڈر نہیں کرنا۔ یہ کہانی ان تیس سالوں کی بہادری پر ہے کیسے اکیلا انسان اپنی قوت ارادی کے سہارے زندہ رہا اور سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔ وہ اپنے لوگوں کا ہیرو بن گیا۔
یہ جسٹس دراب پٹیل، جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ ہوں، نوجوان امریکی یا پھر جاپانی فوجی جیسے چند ہی کردار ہوتے ہیں جو خوف اور دہشت آگے سرنڈر کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔ جو نوکریوں کی پروا نہیں کرتے۔ جن کے نزدیک ضمیر یا کال آف ڈیوٹی نوکری سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ انہی چند بہادر اور باضمیر لوگوں کی وجہ سے انسانی تاریخ ترقی کرکے یہاں تک پہنچی ہے ورنہ اگر جسٹس نسیم حسن شاہ کی فلاسفی پر دنیا چلتی کہ ہر طاقتور آگے جھک جائو، نوکری بچا لو اور ضمیر کا سودا کر لو تو کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔
No surrender ہی انسان کو یہاں تک لے آیا ہے اور اب اس باضمیر نوجوان امریکی نے انسانی تاریخ کے ان گنے چنے باغیوں کے اس مختصر قافلے کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ دہشت، بے یقینی اور خوف کو شکست دی ہے۔ ایک نئی امید جگائی ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں