شہزاد اکبر صاحب کو ہر ہفتے پریس کانفرنس کرکے سابق حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی کہانیاں سناتے ہوئے دیکھ کر یاد آتا ہے کہ ہر دور میں ایک بندہ اس کام پر لگایا جاتا ہے۔ اس نے پوری قوم کو روز یاد دلانا ہوتا ہے کہ پچھلے حکمران کتنے کرپٹ تھے اور وہ خود کتنے اچھے اور ایماندار ہیں۔
مجھے 1993ء میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والی وہ طویل پریس کانفرنس یاد ہے جو نواز شریف حکومت کی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت کے وزیر داخلہ زاہد سرفراز نے کی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں بڑی تفصیل کے ساتھ انہوں نے قوم کو بتایا تھا کہ شریفوں نے کیسے اس ملک کو لوٹا تھا۔ انہوں نے باقاعدہ دستاویزات بھی پریس کانفرنس میں صحافیوں کے ساتھ شیئر کی تھیں۔ شاید وہ ویڈیو ٹیپس آج بھی پی ٹی وی کے آرکائیوز میں کہیں محفوظ ہوں۔ وہ انہیں دیکھ لیں‘ اگر ستائیس برس بعد بھی کوئی تبدیلی نظر آئے تو بتائیے گا۔
اس کے بعد بینظیر بھٹو کی حکومت آئی تو اس میں رحمن ملک صاحب نے وہی رول اپنا لیا جو زاہد سرفراز نے چند ماہ نبھایا تھا۔ رحمن ملک نے سب سے پہلے شریفوں کے لندن فلیٹس پر ایک انکوائری مکمل کی۔ وہ پہلی رپورٹ تھی جو اِن فلیٹس پر تیار کی گئی۔ اس وقت بھی منی لانڈرنگ کے ثبوت اس کے ساتھ لف کیے گئے تھے۔ اور تو اور لندن کے ان فلیٹس کی تصویریں بھی اس رپورٹ میں لگائی گئی تھیں۔ جب پانامہ سکینڈل کی تحقیقات ہو رہی تھیں تو رحمن ملک اپنی رپورٹ لے کر انکوائری ٹیم سامنے پیش ہوئے تھے۔ رحمن ملک بھی ان دنوں شریفوں کے لیے ایک دہشت کا نشان بن چکے تھے۔ ایک مقدمے میں ایف آئی اے نے میاں شریف کو لاہور سے گرفتار کر لیا تھا؛چنانچہ لندن میں جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہونے تھے تو طے ہوا کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف رحمن ملک کے ایجوائے روڈ پر واقع گھر پر تشریف لائیں گے‘ اس پر دونوں پارٹیوں کے درمیان مسئلہ کھڑا ہوگیا کیونکہ شریف برادرز رحمن ملک کو اپنے باپ کی بے عزتی کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ بی بی بھی اس کے بغیر چارٹر پر دستخط کرنے کو تیار نہ تھیں‘ لیکن کیا کریں اقتدار کی ہوس اس ایشو پر حاوی ہو گئی اور شریف اسی رحمن ملک کے گھر چل کر گئے جن پر وہ الزام لگاتے تھے کہ انہوں نے لاہور میں ان کے باپ کو ایف آئی اے کے ہاتھوں تنگ کرایا تھا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ انسانوں پر حکمرانی کا نشہ دنیا کے ہر نشے اور خاندان کی عزت سے زیادہ طاقتور ہے۔ برسوں تک پاکستانی میڈیا کو مظلومیت کی کہانیاں سنائی اور لکھوائی گئیں کہ رحمن ملک اور بینظیر بھٹو نے ہمارے باپ کو بھی نہیں چھوڑا تھا اور پھر جب ضرورت پڑی تو اسی رحمن ملک کے گھر چائے پانی چل رہا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ 2003 ء میں جب صحافی دوستوں محسن رضا اور شعیب بھٹہ کے کہنے پر میں زیر حراست آصف علی زرداری سے پنڈی کی احتساب عدالت کے احاطے میں ملا تو اپنے انگریزی اخبار کیلئے انٹرویو کے دوران انہوں نے کئی اہم باتیں بھی کی تھیں۔ جیل کے حوالے سے میں نے پوچھا تو جواب دیا : جیل آپ کو کچھ سکھائے نہ سکھائے لیکن صبر اور انتظار کرنا سکھادیتی ہے۔ میری سوالیہ نظروں کو دیکھ کر بولے : جیل میں آپ کتنے ہی بڑے پھنے خان کیوں نہ ہوں ایک سپاہی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں‘ اس لیے دھیرے دھیرے آپ کو صبر کرنا آجاتا ہے۔ یہی بات ہر اس سیاستدان پر صادق آتی ہے جس نے طویل عرصہ جیل میں گزارا ہو۔ جو ایک سپاہی کے ہاتھوں ذلت برداشت کر چکے ہوں وہ پھر بڑی ذلتوں کی فکر نہیں کرتے۔ وہ انتظار کرتے ہیں کب ان کو اقتدار ملے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
دوسری طرف جب بینظیر بھٹو حکومت کو فاروق لغاری نے توڑا تو شریفوں نے وہیں سے شروع کیا جہاں سے رحمن ملک چھوڑ گئے تھے۔ انہوں نے رحمن ملک کے مقابلے کا جوڑ ڈھونڈا اور سیف الرحمن‘ جن کا اسلام آباد میں لگژری گاڑیوں کو شو روم تھا‘ کو احتساب سیل کا سربراہ بنا دیا۔ سیف الرحمن اسلام آباد میں دہشت کا نشان بن گئے۔ ہر سیاستدان‘ صحافی اور بیوروکریٹ ان کے نشانے پر تھا۔ شہباز شریف نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نواز شریف کی دوسری حکومت گرنے میں سیف الرحمن کا بھی بڑا ہاتھ تھا‘ اس نے ان کی حکومت کو اتنا اکیلا کر دیا تھا کہ بارہ اکتوبر کے روز ان کے ساتھ کوئی سیاستدان نہیں کھڑا تھا۔ سیف الرحمن نے وہی روٹ لیا جو رحمن ملک نے لیا تھا۔ سیف الرحمن نے سیکرٹ فنڈ کی مدد سے کروڑوں روپے خرچ کیے اور زرداری اور بینظیر بھٹو کی جائیدادیں ڈھونڈ نکالیں اور پھر سوئس منی لانڈرنگ کیس میں حکومت فریق بھی بن گئی۔
پرویز مشرف آئے تو انہوں نے نیب کو لانچ کیا اور جنرل امجد نے رحمن ملک اور سیف الرحمن کا رول سنبھال لیا اور سب کو لگا اب کوئی نہیں بچے گا۔ عوام خوش تھے اب کی دفعہ اصلی احتساب ہو رہا ہے۔ کچھ دن بعد وہ سب نیب کے سیاسی ملزمان جنرل مشرف کی کابینہ میں وزیر بنے بیٹھے سب کا منہ چڑا رہے تھے۔ جو بھی مخالف پارٹیوں کے سیاستدان نیب نے پکڑے انہیں پرویز مشرف کے دربار میں پیش کرکے حکومت کا حصہ بنا دیا گیا۔ وہی مشرف جو بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو کرپٹ کہتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ وہ اب کبھی پاکستان نہیں لوٹ پائیں گے‘ وہی بینظیر سے خفیہ مذاکرات کرکے ان کے ساتھ ڈیل کررہے تھے ۔
آج کل ہمارے نئے ہیرو شہزاد اکبر ہیں جو زاہد سرفراز‘ جنرل امجد‘ رحمن ملک اور سیف الرحمن کی روایات کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہی گفتگو‘ وہی پرانے کردار اور پرانی لوٹ مار اور وہی پرانے عوام۔ آج کل دن رات شہزاد اکبر ہمیں ٹی وی اور پریس کانفرنسوں میں بیٹھ کر سمجھاتے ہیں کہ شریفوں نے کرپشن کیسے کی۔ شہزاد اکبر بھی اتنے سیانے ہیں کہ شوگر اور آئی پی پیز سکینڈل میں ملوث اپنے ساتھی وزیروں کا نام نہیں لیتے‘ جیسے رحمن ملک‘ سیف الرحمن نہیں لیتے تھے۔ شہزاد اکبر کبھی آپ کو ندیم بابر‘ اسد عمر‘ رزاق دائو‘ خسرو بختیار یا ہاشم بخت کی وارداتوں کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔ انکوائری رپورٹس میں لکھا ہے کہ ندیم بابر اور رزاق دائود نے آئی پی پیز میں لمبا مال کمایا لیکن جب وہ انکوائری رپورٹس کابینہ کے سامنے آئیں تو عمران خان صاحب نے پہلے ہی سب وزیروں کو بتا دیا یہ دونوں بڑے زبردست لوگ ہیں‘ وہ انہیں برسوں سے جانتے ہیں۔ مطلب‘ وہ دونوں برسوں سے چندہ دیتے آئے ہیں لہٰذا انہیں برا نہیں کہنا چاہئے۔ اب کس پر یقین کریں۔ عمران خان صاحب پر یا انکوائری رپورٹس پر؟
ندیم بابر اور رزاق دائودکے کارناموں پر تحریک انصاف کے جیالے بھی خاموش ہیں کیونکہ وہ لٹیرے ان کے پسندیدہ حکمران عمران خان کے مشیر ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس انکوائری رپورٹ میں عمران خان کی کابینہ کے وزیروں پر بھی کرپشن اور نااہلی اور کرپشن کرنے میں مدد دینے کے الزامات ہوں وہ تو سب زبردست اور اچھے لیکن اپوزیشن کے ملزمان سب کرپٹ؟ یہ طے ہے کہ ہمیں لٹیرے پسند ہیں۔ ہمیں لٹیروں سے پیار ہے بس لٹیرا ہماری مرضی کی سیاسی پارٹی کا ہونا چاہیے پھر وہ لٹیرا جو چاہے لوٹ لے۔ اگر وہ لٹیرا ہماری پسندیدہ جماعت اور حکمران کا وزیر ہے تو پھر ٹی وی چینلز سے لے کر سوشل میڈیا تک کا زبردست دفاع ہمارا قومی فرض ہو گا۔
ویسے یہ لٹیرے شام کو دوستوں اور خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ہنستے تو ہوں گے کہ لوٹتے ہم ہیں‘ جائیدادیں ہم بناتے ہیں‘ بچے ہمارے عیاشی کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہمارا دفاع بھی وہی لوگ زوروشور سے کر رہے ہوتے ہیں جنہیں ہم لوٹتے ہیں!