ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جب وفاقی وزراء قمر زمان کائرہ اور خورشید شاہ سے لاہور میں میٹرو بس میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے ثبوت مانگے تو مجھے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی یاد آگئے۔گیلانی صاحب ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ہولے سے پائوں کو حرکت دیتے ، آنکھوں سے اشارے کرتے اور لبوں پر مسکراہٹ سجائے مجھ جیسے صحافیوں کے کرپشن کے بارے میں کڑوے سوالوں کے جواب میں کہتے‘ ثبوت پیش کرو۔ انہیں ثبوت پیش کیے جاتے تو کہتے اب عدالتیں آزاد ہیں‘ وہاں چلے جائو! کیا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ثبوت مانگنے کا دور بھی آنا تھا؟ ازخود یہ ادارہ تفتیش کرنے کے قابل نہیں۔ پورے پانچ برسوں میں اس ادارے نے اخبارات کی رپورٹوں اور سکینڈلز پر خط لکھ لکھ کر شہرت کمائی اور یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ پاکستان کا بہت بڑا تحقیقاتی ادارہ ہے جسے سب کچھ معلوم ہے۔ اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا ایک مذاق یا نااہلی ملاحظ فرمائیں: سابق وفاقی وزیرخزانہ حفیظ شیخ نے اپنے قریبی دوست علی جمیل کو ناجائز طریقے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے اربوں روپے کا ٹریکر لائسنس دلوایا اور جس افسر نے یہ لائسنس دیا اسے ایف بی آر کا چیئرمین مقرر کروا دیا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس پر ایک خط لکھ دیا۔ چند دنوں بعد ارب پتی علی جمیل نے مبینہ طور پر منت سماجت کی یا چونچ گیلی کرائی تو ٹرانسپیرنسی نے دوسرا خط لکھا جس میں کہا کہ غلط فہمی ہوگئی تھی اس لیے پہلے خط کو نظر انداز کیا جائے۔ اس معاملے کی فائل میرے ہاتھ لگ گئی اور سکینڈل سامنے آگیا وگرنہ ٹرانسپیرنسی نے علی جمیل کو اس طرح کلین چٹ دے دی تھی جیسے اب پنجاب حکومت کو دی ہے۔ میرے پاس تمام دستاویزات موجود ہیں، اگر ٹرانسپیرنسی چاہے تو اسے بھیج سکتا ہوں۔ میاں شہباز شریف تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک ایسے نجی ادارے سے کلین چٹ لے لو جس کے پاس تجربہ کار اسٹاف ہے نہ سکینڈلز اور نہ ہی سرکاری رولز کو درست طریقے سے پڑھنے اور سمجھنے کا طریقہ کار۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ پانچ برسوں میں صحافیوں کے فائل کیے ہوئے سکینڈلز کی خبروں پر مبنی خطوط چیف جسٹس کو لکھے اور ان کی کاپیاں میڈیا کو جاری کر کے ظاہر کیا کہ یہ کارنامے اسی نے انجام دیے ہیں۔ جو سرکاری محکمہ اس سے ڈر گیا اور معاہدے پر دستخط کردیے‘ وہ پاک اور نیک ہوگیا‘ بصورت دیگر میڈیا کو رپورٹ جاری اور چیف جسٹس کو خط لکھ کر انصاف کی اپیل کردی۔ کیا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو علم ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پنجاب میں صوبائی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا اور پانچ برسوں میں جس کرپشن کی نشاندہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹوں میں کی‘ اس کا کوئی جائزہ نہیں لیا گیا؟ کیا اُسے معلوم ہے کہ جب چودھری نثار علی خان اور ندیم افضل چن اسی طرح کی آڈٹ رپورٹوں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے اور پیپلز پارٹی سب سے کرپٹ جماعت کا لقب پارہی تھی‘ پنجاب میں ایک بھی اجلاس نہیں ہوا ؟کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پنجاب میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ کون ہے؟ اس وقت ہزاروں آڈٹ پیرے پنجاب حکومت کی مالی اور انتظامی بدعنوانیوں کی کہانیوں سے پُر ہیں لیکن بھلا ہو پنجاب پبلک اکائونٹس کمیٹی کا جس نے کبھی اجلاس ہی نہیں بلایا ورنہ شہباز شریف کا حساب کتاب بھی ویسے ہوجاتا جیسے چودھری نثار اور ندیم افضل چن‘ گیلانی اور راجہ حکومت کا کر رہے تھے۔ کیا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کوئی خط پنجاب حکومت کو لکھا کہ وہ صوبائی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس باقاعدگی سے بلوائے اور آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لے کہ پنجاب کو کس طرح لُوٹا جارہا ہے؟ بہتر تو یہ ہوتا کہ ان پانچ برسوں میں وفاقی حکومت کی طرح پنجاب میں شروع کیے گئے اربوں روپے کے منصوبوں کا آڈٹ بھی آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کرایا جاتا جس کے پاس ماہرین کی ٹیمیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے کہیں بہتر کام کر سکتی ہیں۔ یہ کام ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا نہیں کہ وہ حکومتوں کو کلین چٹ ایوارڈ کرے۔ آئینی طور پریہ کام پبلک اکائونٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ہے۔ ان دنوں اسلام آباد میں ایسی لُوٹ مار مچی ہے کہ بہت سی خبریں اور سکینڈلز فائل کرنے کا وقت ہی نہیں ملا اور پانچ سال پورے ہوگئے۔ میری فائل میں درجنوں سکینڈلز موجود ہیں ۔ کئی پڑے پڑے پرانے ہوگئے جنہیں اب فائل کرنے کا شاید کوئی فائدہ نہ ہو۔ شہباز شریف کی گڈ گورننس کاپورا پلندہ موجودہ ہے۔ ان کی سستی روٹی سکیم کے بارے میں پانچ ارب روپے کے سکینڈل کی تفصیلات دستیاب ہو گئی ہیں جسے پڑھ کر ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ تین کروڑ روپے کے تحائف کیسے اور کس کے لیے خریدے گئے؟ اس کی دستاویزات اگر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل طلب فرمائے تو بھیج سکتا ہوں۔ حکومت نے اتنی کرپشن کر لی ہے کہ شاید وہ پنجاب حکومت سے پنگا نہیں لے گی۔ یہ کبھی ایک دوسرے کے راز نہیں کھولیں گی۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ ان کا امتحان نہ لیا جائے۔ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کے خلاف چودھری نثار اور ان کی پارٹی کے لیڈروں کے سخت پروپیگنڈہ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ دبائو میں آکر پنجاب حکومت کا آڈٹ نہ کرائیں۔ بلند اختر رانا سے یقین دہانیاں لینے کے لیے شہباز شریف کی ان سے مبینہ طور پر ایک ملاقات بھی ہوئی تھی ۔ شہباز شریف اور چودھری نثار کو علم تھا کہ آڈٹ ہوگیا تو کھایا پیا سامنے آجائے گا اور دستاویزی ثبوت جو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل مانگتی ہے وہ بھی سرکاری طور پر دستیاب ہوجائیں گے۔ چار موٹی جلدوں پر مشتمل پنجاب حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی میرے پاس موجود ہے جس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے دبائو کے باوجود کچھ نہ کچھ کھول دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا کیا کیا جائے کہ میڈیا انہیں شائع کرنے کو تیار نہیں، پنجاب کی صوبائی پبلک اکائونٹس کمیٹی اجلاس نہیں بلاتی اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاس ان رپورٹوں کو پڑھنے کے لیے وقت نہیں۔ وہ تو بنی بنائی شہرت چاہتی ہے جو اُسے مل رہی ہے۔ کوئی ادارہ اب آڈٹ کرانے کو تیار نہیں۔ قومی اسمبلی کا گزشتہ پانچ برسوں سے آڈٹ نہیں ہوا۔ لہٰذا کیسے معلوم ہو کہ سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کیسے لُوٹ مچائی؟ کس کس کو سفارشوں پر بھرتی کیا اور چہیتوں کو نوازا؟ فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس کی حیران کن اندرونی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ فہمیدہ مرزا کو سب سے زیادہ فکر یہ تھی کہ جب وہ سپیکر نہیں رہیں گی تو ان کا مہنگا علاج کیسے ہوگا؟ حل یہ نکالا گیا کہ اپنے لیے تاحیات سات ملازم‘ طبی سہولت اور ارکان اسمبلی کا منہ بند کرانے کے لیے ان سب کا الائونس سو فیصد بڑھا دیا جس سے خزانے پر مزید چالیس کروڑ روپے کا سالانہ بوجھ پڑے گا۔ ایسی عیاشی تو انہوں نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی کہ پانچ سال عوام کے پیسوں پر عیش اور ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری خزانے سے نوکر چاکر، گاڑیاں، مفت سرکاری علاج، پٹرول۔ اور کیا چاہیے! آخری دنوں میں کی گئی کرپشن کی ایسی ہوش ربا تفصیلات سامنے آرہی ہیں کہ حیرت سے سر چکرانے لگتا ہے۔ کیا قیامت کا دن آن پہنچا ہے کہ اس کے بعد لوٹنے کو کچھ نہیں بچے گا ؟