ارادہ تو تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرتا دھرتا عادل گیلانی جو آج کل اربوں روپے کے منصوبوں کی کلین چٹیں بانٹتے پھر رہے ہیں کی سنسنی خیز کہانی لکھتا‘ کہ کیسے ایف آئی اے کے نیک نام افسر ظفر قریشی نے انہیں نیشنل انشورنس کارپوریشن کے اربوں روپے کے سکینڈل پر زیرِ تفتیش لانے کا فیصلہ کر کے ان سے 32 ایسے چبھتے ہوئے سوالات کیے کہ موصوف کی بولتی بند ہو گئی تھی۔ پھر سوچا وہ پنجاب حکومت کو نیک نامی کو مزید سرٹیفیکٹ بانٹ لیں تو پھر ان کی اپنی نیک نامی کا وہ طویل سرٹیفکیٹ بھی چھاپ دیں گے کہ خود ان پر اس سکینڈل میں کیسے سنگین الزامات لگے تھے۔ سکینڈل کے مرکزی ملزم امین دادا بھائی سے ان کا کیا تعلق تھا اور ایف آئی اے کو کیا لکھ کر دیا تھا؟ یہ وہی سکینڈل ہے جس میں امین فہیم کی اہلیہ کے بنک اکائونٹ سے چار کروڑ روپے نکلے اور مونس الٰہی بھی چونتیس کروڑ روپے لینے کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے۔ این آئی سی ایل کے چیئرمین اعتزاز نیازی نے عادل گیلانی کے بارے جو انکشافات کیے تھے وہ بھی سرکاری فائل میں محفوظ ہیں۔ لیکن اس وقت اسلام آباد میں اتنا کچھ چل رہا ہے کہ عادل گیلانی کی ایف آئی اے سے کلین چٹ لینے کی کہانی پھر کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ ابھی کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے تین روز تک مسلسل چلنے والے اجلاس کی اندرونی کہانی کی دستاویزات لے کر آیا ہوں۔ پچاس سے زائد خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے آخری دنوں میںلُوٹ سیل لگی اور اس میں وزیرخزانہ سلیم مانڈی والا اور پٹرولیم کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنی اپنی پارٹیوں پر کیسے کھل کر نوازشات کی بارشیں کیں۔ اگر سپریم کورٹ آخری ایام میں ای سی سی کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کی کاپی منگوائے تو پتہ چلے گا کہ پوری کی پوری لنکا ہی ڈھا دی گئی ہے۔ اگر مغل حکمرانوں کو پتہ چلے کہ آج کے ’’مغل بادشاہ‘‘ کس طرح فیصلے کرتے ہیں تو وہ شرما جائیں۔ اگرچہ وہ وسطی ایشیا سے آ کر برصغیر پر قابض ہوئے تھے لیکن پھر بھی وہ اس خطے کے لوگوں کا کچھ نہ کچھ خیال کرتے تھے۔ ان تین اجلاسوں کی خفیہ کارروائی پڑھ کر لگتا ہے کہ اس ملک پر غیر ملکی افواج نے چند گھنٹوں کے لیے قبضہ کر لیا تھا اور وہ جو کچھ لُوٹ سکتے تھے‘ لُوٹ لیا۔ سلیم مانڈی والا کو جب محسوس ہوا کابینہ ڈویژن ان کی حرکتوں سے خوش نہیں کیونکہ اُن سمریوں کی منظوری لی جارہی ہے جو ماضی میں مسترد ہوچکی ہیں یا جن پر اعتراضات ہیں یا جن پر ابھی پورے کمنٹس وصول نہیں ہوئے تو متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں کی چونچ گیلی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دراصل خوف یہ تھا کہیں افسر بغاوت پر نہ اتر آئیں اور تعاون نہ کریں۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ان سب کو دو ماہ کی تنخواہ کے برابر اعزازیہ پیش کیا جائے گا ۔ یوں ان افسروں کو ہزاروں روپے مشاہرہ ادا کر کے اربوں روپے لوٹ لیے گئے۔ رہے نام اللہ کا۔ کسی کو اربوں کی حرص ہے تو چند سرکاری ملازم دو ماہ کی تنخواہ کے برابر مشاہرے پر خوش ہیں۔ قناعت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ گوتم بدھ نے کہا تھا: انسان کی اصل دشمن‘ اس کی خواہشات ہیں ۔ کسی نے نہ پوچھا ای سی سی کا آخری اجلاس ہے‘ چند روز بعد حکومت ختم ہورہی ہے تو ڈاکٹر عاصم حسین اربوں روپوں کی ہیرا پھیری کی منظوری کے لیے بارہ سمریاں کیوںلے آئے ہیں؟ ایجنڈے پر چھبیس سمریاں تھیں۔ جب تک حفیظ شیخ وزیرخزانہ رہے، عاصم حسین کی وزارت کے بارے میں کوئی نہ کوئی سکینڈل سامنے آتا رہا۔ ایل این جی سکینڈل میں وفاقی وزیر چنگیز جمالی کو انکوائری افسر بنایا گیا تو وہ ای سی سی کے اجلاس میں شکایت کرتے پائے گئے کہ ان کی کوئی نہیں سنتا ۔ تین اجلاس بلائے مگر کوئی افسر پیش نہ ہوا۔ میں نے یہی بات ان سے پی ٹی وی کے شو میں پوچھ لی کہ ان کی انکوائری کا کیا بنا؟ وہ الٹا مجھ پر برس پڑے۔ کہنے لگے: پہلے آپ نے مجھ پر ایک سٹوری فائل کی تھی‘ آپ پورے ملک کے مامے نہ بنیں ۔ میں بولا: آپ کے وزیر ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے چار ارب روپے چند کمپنیوں کو لوٹا دیے گئے جو پہلے وہ ٹیکس کے نام پر لوگوں سے اکٹھے کر چکی تھیں۔ خزانے میں جمع کرائے گئے پیسے ان کمپنیوں کو لوٹا دیے جائیں اور آپ چاہتے ہیں کہ ہم چپ رہیں۔ سب وزیر بننا چاہتے ہیں لیکن کوئی بھی جواب دہی کے لیے تیارنہیں۔ جواب دہی سے یاد آیا کہ سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی شاہ خرچیوں اور اپنوں پر کی گئی نوازشات کی کہانیوں کی تفصیل بیان کی تو ان کی بیٹی خفا ہوگئی۔ اس نے ٹویٹر پر لکھا کہ رئوف کلاسرا ان کی والدہ محترمہ سے ملنے گئے تھے اور اپنی بیٹی کی نوکری چاہتے تھے۔ ان کی میرٹ پر یقین رکھنے والی ماں نے یہ غیرقانونی کام کرنے سے انکار کر کے ریاست کو لاکھوں روپے کے نقصان سے بچا لیا اور اب وہ ان کے خلاف سکینڈل فائل کر رہے ہیں۔ زندگی بھر میری فہمیدہ مرزا سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ خواہش ہے ۔ میرے ماشاء اللہ دو بچے ہیں جو ابھی سکول میں پڑھتے ہیں۔ تاہم موصوفہ نے مجھے نوکری کے قابل بیٹی کا باپ بنا دیا ۔ اللہ ان کی زبان مبارک کرے کیونکہ خواہش ضرور ہے کہ گھر میں اللہ کی رحمت ہونی چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ ہر صحافی پر ایک ہی الزام لگائو کہ وہ بلیک میلر ہے ۔ کوئی ٹویٹر پر فہمیدہ مرزا کی بیٹی سے یہ پوچھنے کو تیار نہیں کہ کیا یہ جھوٹ ہے کہ ان کے والدین نے مرزا شوگر ملز کا پچاس کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرایا؟ کیا اُن کی والدہ نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھاری مراعات نہیں لیں؟ 116 افسروں کو سیاسی بنیادوں پر نوکریاں نہیں دیں؟ کروڑوں روپے بیرونی دوروں پر خرچ نہیں کیے؟ سترہ گریڈ کے پی آر او شمعون ہاشمی کو کے آر ایل ہسپتال سے اٹھا کر تین برسوں میں گریڈ بیس دے کر قومی اسمبلی کا جوائنٹ سیکرٹری نہیں لگایا؟ اور اب وہ فیس بک پر لکھتے ہیں کہ وہ دُنیا کے کم عمر ترین جوائنٹ سیکرٹری کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ کون سی گیدڑ سنگھی شمعون ہاشمی کے پاس ہے جو دوسروں کے پاس نہیں تھی ؟ ان طاقتور طبقات کے پاس گیدڑ سنگھی ہے جو وہ صرف ایک دوسرے کو فائدے دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ پنجاب میں اربوں روپوں کے کھیل کا آڈٹ ، آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کرانے کی بجائے این آئی سی ایل سکینڈل کے ایک کردار عادل گیلانی سے کلین چٹ لے لی جاتی ہے۔ سلیم مانڈی والا اور عاصم حسین ای سی سی میں اربوںروپے کے فوائد اپنی اپنی پارٹیوں کو پہنچا دیتے ہیں یا بیالیس برس کی عمر میں شمعون ہاشمی عالمی ریکارڈ توڑ کر جوائنٹ سیکرٹری لگ جاتا ہے !! یہ سب گیدڑ سنگھیوں کا کمال ہے !!