ضیاء سے میری ملاقات دس برس قبل ہوئی تھی۔ اسلام آباد کا سرکاری دودھ پلانٹ جو کافی عرصے سے بند پڑا تھا، اسے وزارت زراعت نے نئے سرے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت دوبارہ چلانے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر ظفر الطاف ضیاء کو فیصل آباد سے لائے اور اسے پلانٹ کا منیجر بنا دیا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کا اس پلانٹ کو چلانے کا مقصد اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو ڈبے والے دودھ سے نجات دلوا کر انہیں فریش پاسچرائزڈ دودھ فراہم کرنا تھا ۔ یہ دودھ دوسرے برانڈز کی نسبت بیس روپے سستا بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پہلے دن سے ہی انہیں اپنا دشمن بنا لیا۔ کئی برانڈ تو پائوڈر سے بنے دودھ میں جھاگ کے لیے واشنگ پائوڈر (سرف وغیرہ) تک استعمال کر رہے تھے۔ اس پلانٹ نے اسلام آباد اور گرد و نواح سے تازہ دودھ اکٹھا کرنا شروع کردیا اورغریب لوگوں کی آمدن شروع ہوگئی۔ دودھ کے بعد دہی، دیسی گیہوں اور دوسری غذائی مصنوعات پر بھی کام شروع کر دیا گیا۔ مارکیٹ میں جب دوسرے برانڈز کا دودھ ستر روپے فی کلو مل رہا تھا‘ ہلہ دودھ پچاس روپے فی کلو میں دستیاب تھا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کو احساس تھا کہ وہ طاقتور لوگوں کو اپنا دشمن بنا چکے ہیں اور انہیں بہت جلد مارکیٹ سے غائب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ چنانچہ وہی ہُوا۔ پہلے اسلام آباد پلانٹ بند ہوا اور اب لاہور میں ہلہ دودھ پر پولیس کے ذریعے ’’شریف سیاستدانوں‘‘ نے قبضہ کر لیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک’’شریف برخوردار‘‘ نے اپنا دودھ مارکیٹ کرنا ہے۔ ظفر الطاف پر انٹی کرپشن کے ذریعے مقدمات بھی درج کرادیئے گئے ہیں… یہ کہانی پھر سہی۔ فیصل آباد کا نوجوان ضیاء مجھے پہلی ہی نظر میں اچھا لگا تھا۔ جب ضیاء سترہ برس کا تھا تو اُسے کسی نے ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مزاج میں ناں توہے نہیں‘ اس لیے عمر بھر جہاں ڈاکٹر صاحب نے بے پناہ دوست بنائے وہاں انہوں نے بہت سے دشمن بھی بنائے اور مجال ہے کہ کبھی پچھتائے ہوں۔ ضیاء مجھے دھیمے مزاج کا خاموش انسان لگا‘ اتنا بولتا جتنی ضرورت ہوتی‘ آرام سے بات کرتا اور خاموشی سے سنتا رہتا۔ جو ڈاکٹر صاحب اسے بتاتے وہ جا کر کر آتا۔ کہیں اختلاف ہوتا تو بتا دیتا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ہمیشہ دوسرے کی بات سنتے ہیں‘ کوئی قائل کر لے تو فوراً مان لیتے ہیں۔ کئی دفعہ قائل نہ ہونے کے باوجود بھی مان لیتے ہیں کہ جسے کام کرنا ہے اسے احساس ہو کہ اس کی بات سنی گئی‘ اس طرح وہ اپنا کام دل و جان سے کرے گا۔ انسانوں پر اعتماد کرنے سے متعلق ان کی اس بے پناہ خوبی نے انہیں نقصان بھی پہنچایا۔ بہت سے خود غرض دوستوں نے ان کے اعتماد کو دھوکا دیا۔ لیکن وہیں ہزاروں لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت میں اضافہ ہُوا۔ ضیاء سے اکثر ملاقات ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ہوتی۔ وہ چند منٹ ان سے بات کرتا اور کوشش کرتا کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھائے کہ کہیں ڈاکٹر صاحب یہ نہ سمجھیں کہ وہ کھانا کھانے آیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب جو دوستوں کے ڈرائیوروں تک کو کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتے، وہ ضیاء کو کیسے جانے دیتے۔ اچانک ضیاء غائب ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو افسردگی سے بولے وہ چلا گیا تھا‘ اسے ایک این جی او سے پیشکش ہوئی تھی‘ روکنے کی کوشش کی لیکن نہیں رکا ۔ پتہ نہیں کیوں‘ وہ دھیمے مزاج کا نوجوان میری یادوں سے نہ مٹ سکا۔ کئی برس گزر گئے۔ پچھلے ماہ ضیاء کو ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں پھر دیکھا۔ اس کی حالت دیکھ کر میں چونک گیا ۔ وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ مجھے پہچاننے میں دقت ہوئی۔ دل گرفتہ ہو کر پوچھا کیا ہوا؟ کمزور سی آواز میں بولا‘ اس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں۔ ڈائلیسز پر گزارہ ہورہا ہے۔ مجھے شدید دھچکا لگا ۔ ڈاکٹر صاحب بولے اس کو منع کیا تھا کہ مت جائو۔ اس این جی او نے اس کا خون نچوڑ لیا ہے۔ اسے سندھ میں اتنا سفر کرایا کہ یہ ختم ہوکر رہ گیا اور جب ختم ہوگیا تو اسے نکال دیا ہے۔ چند ہزار روپے زیادہ کمانے کے چکر میں یہ سب کچھ گنوا بیٹھا ہے۔ میں صدمے کی حالت میں بیٹھا ضیاء کو دیکھتا رہا۔ میں نے اسے حوصلہ دیا کہ مت گھبرائو‘ کچھ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے دوست ڈاکٹر کو فون کرنے لگے کہ اس کا علاج شروع کرو۔ میں پوچھنے لگا اگر گردوں کا ٹرانسپلانٹ کرایا جائے تو کیا ممکن ہے؟ ضیاء بولا وہ پہلے پتہ کر چکا ہے۔ پندرہ لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ ضیاء کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔میں شام تک پریشان رہا کہ ضیاء کی کیسے مدد کی جائے۔ مجھے فکر تھی اس کے دو چھوٹے بچے باپ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ پھر سوچا خود میں کتنا کر سکتا ہوں ؟ چند ہزار روپے یا پھر ایک لاکھ ؟ اس سے کیا ہوگا ؟ میں نے اگلے دن اسے دنیا اخبار کے دفتر بلالیا ۔ وہ بولا ڈائلیسز پر بہت خرچہ آتا ہے۔ بیوی کے علاوہ چھوٹا بیٹا اور بیٹی ہیں ۔ گھر چلانے کے لیے اس نے اس حالت میں بھی دودھ دہی کا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ کسی طرح فری ڈائلیسز کا بندوبست ہوجاتا تو وہ جیسے تیسے زندگی گزار لیتا ۔ میں نے پیسے دینے چاہے تو انکار کردیا۔ کہنے لگا‘ بس آپ ڈائلیسز فری کرا دیں۔ دل میں دکھ کی ایک لہر سی اٹھی ۔ میں نے کہا ہر ہفتے ڈائلیسز کے پیسے میں خود دوں گا۔ فوراً بولا‘ نہیں آپ کسی ہسپتال میں کہلوا دیں کہ فری ہوجائے۔ میں نے پوچھا تم خود کتنے پیسے اکٹھے کر سکتے ہو؟ کہنے لگا امریکہ میں بھائیوں نے کچھ مدد کا وعدہ کیا ہے۔ میں نے کہا ان سے پتہ کرو وہ کتنے دے سکتے ہیں‘ باقی میں بندوبست کروں گا اور گردے تبدیل کرائیں گے۔ جاتے جاتے اس نے ایک کلو دیسی گھی کا پیکٹ نکالا اور کہا کہ رئوف صاحب شکریہ ادا کرنے کو اور کچھ نہیں۔ میں نم آنکھوں سے اسے جاتے دیکھتا رہا۔ میں نے اپنے دوست میجر عامر کو فون کیا ۔ میجر عامر انسان دوست ہیں اور ایسے موقعوں پر بہت کام آتے ہیں ۔ انہیں کہا‘ وہ ملک ریاض سے کہہ کر بحریہ ٹاون میں ضیاء کا مفت میں ڈائلیسز کرا دیں۔ میجر عامر ان چند لوگوں میں سے ہیں جو دوست کا کوئی کام اپنے ذمے لے لیں، آپ بھول جائیں گے، وہ نہیں بھولیں گے۔ اگلے دن میجر عامر نے فون کیا ۔ وہ ملک ریاض کے ساتھ بیٹھے تھے۔ میجر عامر ملک ریاض کے واحد دوست ہیں جو کھل کر کہتے ہیں کہ وہ ان کا دوست ہے۔ میجر عامر کا کہنا تھا ضیاء کا پورا علاج بحریہ ٹائون کرائے گا اور پندرہ لاکھ روپے خرچہ بھی ملک ریاض برداشت کریں گے۔ ضیاء کو بحریہ ٹائون سے ڈاکٹر نے فون کیا اور علاج شروع ہوگیا۔ میں مطمئن ہو گیا کہ ضیاء اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ایک دن خیال آیا میں بھی ضیاء سے گھر کے لیے دودھ دہی خریدنا شروع کروں اور دوستوں سے بھی کہوں تاکہ اس کی بیوی اور دو چھوٹے بچوں کا گزارہ چلتا رہے۔ فون کیا تو ہر دفعہ بند ملا۔ کچھ پریشان ہوا۔ پچھلے ہفتے ڈاکٹر ظفر الطاف کے پاس گیا تو غمگین بیٹھے تھے۔ میں نے بے ساختہ پوچھا ضیاء کا پتہ ہے ؟ اس کا فون کئی روز سے بند ہے۔ ڈاکٹر صاحب چپ رہے اور پھر افسردگی سے بولے، ضیاء مر گیا ہے!