میں اس سال جنوری میں نئی دہلی فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں جب پاک انڈیا کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ بہت کچھ بدلا ہوا ہے۔بہت سارے ہندوستانی تماشائی پاکستانیوں کے ساتھ مل کر یہ نعرے بھی لگا رہے تھے کہ جیتے گا بھائی جیتے گا ، پاکستان جیتے گا ۔ ان کا مقصد تھا کہ پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کا دل نہ ٹوٹے اور وہ بھی ان کے نعروں میں شریک ہوں ۔ کسی پاکستانی نے یہ نعرہ نہ لگایا کہ جیتے گا بھائی جیتے گا، ہندوستان جیتے گا؛ تاہم ہندوستانی یہ نعرے مسلسل لگا رہے تھے۔ پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والے زیادہ تر ہندوستانی نوجوان لڑکے تھے۔اس کے باوجود مجھے لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ مصنوعی ہے۔ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ اس سے پہلے2004ء میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ ہندوستان گیا تھا تو اس وقت مہمان نوازی بہتر انداز میں کی گئی تھی۔ اس بار تو پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کو دو گھنٹے تک گرائونڈ میں نہیں جانے دیا گیا اور وہ باہر ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔ میں نے یہی بات پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر سے پوچھی تو انہوں نے میری ہاں میں ہاں ملائی اور بولے کبھی پاکستان کو نئی دہلی میں اہم مقام دیا جاتا تھا ۔ ہندوستان پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہشمند تھا‘ اب کوئی فکر نہیں کرتا۔ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے سے کچھ حالات میں بہتری آئی تھی؛ تاہم پاکستان نے انکار کر کے یہ باب بھی بند کردیا ۔ بھارت کی پاکستان سے کاروبار کرنے کی خواہش تھی جو ہم نے پوری نہیں ہونے دی۔اس تجارت کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہی ہوتا لیکن ہم اپنے فائدے کی پروا بھلا کب کرتے ہیں۔ اب ہندوستان نے ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ میرے دوست کالم نگار ارشاد محمود نے بھی پچھلے دنوں اپنے کالم میں اس سے ملتی جلتی بات لکھی تو مجھے تسلی ہوئی کہ میرا تجزیہ غلط نہیں تھا کہ ہندوستان میں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے اب وہ گرم جوشی نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ ہندوستان میں مجھے محسوس ہوا کہ ممبئی حملوں نے ہندوستان کو بہت مایوس کیا ہے۔ وہ جان گئے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے دونوں ملکوں کے تعلقات درست نہیں ہوسکتے اس لیے بہتر ہے پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اگرچہ نئی دہلی میں راکیش وید جیسے بہت سارے پاکستان دوست لوگ بھی ملے جن کے آبائو اجداد پاکستان کے ایک گائوں سے ہجرت کر کے گئے تھے۔ لیکن مجھے لگا راکیش وید جیسے لوگ بھی اب شدید دبائو میں ہیں۔ وہ پاکستان کے حق میں کوئی بات کریں بھی تو کوئی ان کی سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ انہیں ہندوستان میں پاکستانی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے جیسے ہمارے ہاں ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی خواہش رکھنے والوں پر یہ الزام لگتا ہے۔ جب میں نئی دہلی کے شاندار نئے ائرپورٹ سے لاہور کے لیے جہاز پر سوار ہو رہا تھا تو مجھے لگا شاید میں لمبے عرصے کے لیے دوبارہ ہندوستان نہیں آئوں گا ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہندوستان پاکستان دشمنی کس کو راس آتی ہے۔ متحدہ پنجاب کی وہ نسلیں جو ایک عذاب سے گزر کر ہندوستان سے آئیں یا پاکستان سے ہندوستان گئیں، دونوں نے ایک دوسرے کے گلے کاٹے۔ وہ اپنے اندر سے نفرت نہ نکال سکیں اور آج بھی ان کی نسلیں چھوٹے سے واقعے پر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر تل جاتی ہیں۔ پاکستانی پنجاب اور ہندوستانی پنجاب کے باسیوں کی نفرت اور محبت کی عجیب داستانیں ہیں۔ جب چاہیں یہ نسلیں ایک دوسرے کی جانی دشمن بن جائیں اور جب چاہیں گلے لگا لیں۔ واجپائی لاہور آئے تو لاہوری سکھوں کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے تھے اور آج وہی سکھ بھارتی پنجاب میں حیرت سے کہتے ہیں کہ سربجیت سنگھ کو پھانسی ہی دے دی جاتی، اسے دو قیدیوں کے ذریعے کیوں مروایا گیا؟ ہندوستان نے بھی سوچا ایک فوجی بینڈ بجانے والے ثناء اللہ جیسے بے بس قیدی پر تشدد کر کے ہندوستانیوں کی نفرت کو کچھ سکون دیا جائے اور کہا جائے سربجیت کا بدلہ لے لیا۔ جتنی نفرت اب پھیلائی گئی ہے وہ شاید تقسیم کے وقت ہی نظر آئی ہوگی۔ یہ دھرتی لہو کی پیاسی لگتی ہے۔ آپ پاکستان میں ہندوستان کے ساتھ دوستی کی بات کر کے دیکھیں تو آپ کوغدار سمجھا جاتا ہے۔ یہی حال اب ہندوستان میں ہورہا ہے۔ ایک بھارتی چینل پر ایک گھنٹہ ان ہندوستانیوں کی ایسی تیسی کی گئی جو پاکستان سے دوستی کی بات کرتے ہیں۔ جو حشر ان کا کیا گیا، مجھے لگتا ہے اگلے کئی سالوں تک کوئی ہندوستان میں پاکستان سے دوستی کا نام نہیں لے گا۔ ہمیں ویسے ہی کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم چاہتے تو ہندوستان کی طرح سیاحت کے میدان میں اربوں ڈالرز کما سکتے تھے۔ ہم بھی اپنی معاشی بدحالی کو خوش حالی میں بدل سکتے تھے۔ ہندو مغلوں سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن وہ سمجھدار نکلے کہ انہوں نے مسلمانوں کی ایک نشانی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیا اور آج جتنا پیسہ وہ مغلوں کی نشانیوں سے کما رہے ہیں، شاید کسی اور میں نہ کماتے ہوں۔ پاکستان میں ہندوئوں، سکھوں اور بدھوں کے مقدس مقامات ہیں۔ ہم نے نفرت کو بنیاد بنا کر ان مقامات کو کبھی محفوظ نہیں کیا ۔ ہم ان مقامات کے ذریعے بہت کچھ کما سکتے تھے۔ پاکستانی لوگ مہمان نواز ہیں۔ جو بھی گورے ہندوستان سے پاکستان آتے ہیں وہ ہمارے لوگوں کے مزاج کی تعریف کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ان مقامات کو سیاحت کے لیے استعمال کیا جاتا تو ہر سال اربوں ڈالرز کمائے جا سکتے تھے۔لیکن ہم نے نفرت کی کمائی کھانے کا فیصلہ کر رکھا ہے نہ کہ امن کی۔ پاکستان اور ہندوستان میں جاری نفرت کے اس جاری کھیل میں ایک کہانی یاد آرہی ہے جو ہو سکتا ہے ہمارے پتھر جیسے دلوں پر کچھ اثر کر سکے۔ پاکستان سے مدیحہ گوہر ایک برس پہلے ہندوستان کے شہر فرید کوٹ اپنا تھیٹر اجوکا لے کرگئیں۔ انہیں وہاں ہندوستانی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ارچنا پوری ملی۔ وہ جج مدیحہ کو ایک طرف لے گئیں اور بتایا ان کے سامنے ایک تیرہ سالہ پاکستانی لڑکے کاشف ‘ جو وہاں قید ہے، کا کیس لایا گیا ہے۔ اس کے پاکستانی ماں باپ کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ اس خاتون جج کا کہنا تھا وہ رات کو سو نہیں سکتیں کہ اس بچے کی پاکستانی ماں اپنے بیٹے کے غائب ہونے کے بعد کیسے سو پاتی ہوگی۔ وہ بھارتی جج خاتون چاہتی تھی وہ کاشف کو رہا کرنے کو تیار ہے اگر مدیحہ اس کی مدد کرے۔ ارچنا پوری نے کاشف کی ایک ویڈیو اور اس کے کچھ فوٹو بھی مدیحہ کو دیے تاکہ وہ پاکستان میں اس کے والدین کو تلاش کر سکے۔ مدیحہ کے اندر کی ماں نے بھی وعدہ کر لیا ۔ مدیحہ واپس آئیں اور انہوں نے پاکستان میں اس بچے کے والدین کو تلاش کرنے کے لیے اخباری مہم چلائی اور بہت جلد وہ ڈھونڈ نے میں کامیاب ہوگئیں۔ وہ دوبارہ ہندوستان گئیں اور اس خاتون جج سے مل کر انہوں نے بچے کو رہا کرایا اور اسے پاکستان واپس لے آئیں۔ ایک پاکستانی اور ہندوستانی ماں نے مل کر ایک اور ماں کو اپنا بیٹا ملوا دیا۔ جب ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں اور میڈیا میں اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے کا جنون طاری ہوچکا ہے اور نفرت کا کاروباراپنے عروج پر ہے ، مجھے لاہور کی مدیحہ گوہر اور فرید کوٹ کی جج ارچنا پوری جیسی مائوں کی تلاش ہے جو دوسروں کے بچوں کو بھی اپنے بچے سمجھتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی نفرت سے بھری ان اداس نسلوں سے اس جنونیت کو ختم کریں تاکہ دوستی ہی نہ سہی، ایک دوسرے کے قیدیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ تو بند ہو !