نواز شریف نے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انجم عقیل خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ویل ڈن انجم عقیل۔ شاید ان کو ایک کالم میں دیا گیا میرا مشورہ پسند آگیا کہ وہ خواہ مخواہ تین ارب روپے بنک قرضے (5ارب سود) کا بوجھ پندرہ سال سے اٹھا کر چل رہے ہیں ۔ یہ ذمہ داری اس ادنیٰ کارکن کو دیں جس نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کو چھ ارب روپے کا ٹیکہ لگایا۔ امید ہے ویل ڈن کے بعد انجم عقیل اپنے لیڈر کی توقعات پر پورا اتریں گے اور ان کا تین ارب روپے کا قرضہ بہت جلد اتار دیں گے تاکہ روز روز کے سوالات اور بدنامی سے جان چھوٹے۔ پیپلز پارٹی کے بعد پنجاب حکومت کے سکینڈل فائل کرنے شروع کیے تو شور مچ گیا کہ جناب اب ہی کیوں۔ میں نے جواب دیا اس سے بہتر وقت کب آئے گا کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کے لیڈروں نے کیا گل کھلائے اور وہ پانچ سال کے لیے دوبارہ ان کے ہاتھ چڑھنے والے ہیں۔ جمہوری ملکوں کی روایت ہے کہ اگر امیدوار کے بارے میں پتہ چل جائے کہ اس نے کالج دور میں بھی سگریٹ یا چرس پی تھی تو اسے انتخابی دوڑ سے نکلنا پڑتا ہے۔ یہاں میاں صا حب فرماتے ہیں، ویل ڈن انجم عقیل خان! شہباز شریف کی گڈگورننس کی کہانیاں آڈیٹر جنرل کی رپورٹوں میں بکھری پڑی ہیں۔ بنک سے15.6 فیصد سود پر تیس ارب روپے قرض لے کر سستی روٹی کا ڈرامہ تواپنی جگہ، میں تو صدمے سے بے ہوش ہونے والا تھا کہ پنجاب میں 2010ء میںایک کھرب 73ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں ہوسکا اور پڑا پڑا ضائع ہوگیا۔ تخت لاہور نے اتنی خطیر رقم ضائع کرنا مناسب سمجھا لیکن صوبے کے دیگر شہروں پر نہیں لگایا ۔ نواز لیگ کے رانا تنویر کا قومی اسمبلی میں ماتم یاد آرہا ہے جب انہوں نے خانیوال کے رضا حیات ہراج کی سرائیکی علاقوں کے ساتھ تخت لاہور کی جانب سے کی گئی زیادیتوں پر ایک دھواں دھار تقریر کے جواب میں اٹھ کر کہا کہ آپ کا شہر تو ابھی بہت دور ہے، ہم لاہور سے چند کلومیٹر پر رہتے ہیں، وہاں کی حالت دیکھیں کچھ کام نہیں ہوا۔ پنجاب میں ایک سال میں 36 ارب روپے کی ایسی مشکوک ادائیگیاں کی گئیں جن کے بارے میں علم نہیں کہ وہ واقعی ریٹائرڈ پنشنرز کو گئی ہیں یا پھر کچھ لوگ کھا گئے۔ صرف ایک سال‘ 2012ء میں پنجاب کو این ایف سی سے سات کھرب روپے سے زیادہ کا حصہ ملا اور سب لاہور کے منصوبوں پر لگ گیا۔ اب نواز شریف ملتان جا کر کہتے ہیں اگلی باری ان کی ہوگی کیونکہ پہلے کے اربوں روپے تو تختِ لاہور کے تین منصوبوں پر لگ گئے ہیں۔ سرائیکی علاقوں کے ساتھ وعدے اور مال لاہور پر خرچ ۔شہباز شریف فرماتے ہیں دو کھرب روپے سرائیکی علاقوں پر خرچ کیے ہیں۔ دو سال قبل ایک انگریزی اخبار کی خبر تھی‘ چار ارب روپے کا بجٹ سرائیکی علاقوں کے لیے رکھا گیا تھا جس میں کچھ کروڑ روپے جاری ہوئے، باقی پیسے پنجاب کی وزرات خزانہ نے ریلیز تک نہیں کیے۔ میرے اپنے شہر لیہ میں چوہدری پرویزالٰہی نے ایک ہسپتال کے لیے پیسے دیے۔ ضلعی ناظم حیدر تھند میرے پاس خودگھنٹوں روتے رہے کہ وہ پیسے لاہور میں رکوا دیے گئے اور آج تک ہسپتال کا ڈھانچہ ہم سب کا منہ چڑا رہا ہے۔ وہی ناظم صاحب اب لیہ شہر میں نواز لیگ کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں کیونکہ انہیں ٹکٹ مل گیا ہے۔ یہ ہے ہم سب کی قیمت۔ الٹا یہ کہیں آپ نے ایک کھرب 73 ارب روپے کا فنڈ خرچ تک نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ بنتے ہی دو سو ارب روپے کے فنڈز تمام ضلعی حکومتوں سے منگوا کر لاہور میں خرچ کیے۔ پانچ سالہ پرانا نوٹیفیکیشن اب بھی موجود ہے کہ تمام اضلاع کا پیسہ لاہور کو واپس کر دیا جائے۔ دوسری طرف اب الیکشن کمشن کو یاد آگیا ہے کہ شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں لہٰذا اشتہارات بند کیے جائیں۔ ان لیڈروں نے پورے ملک کی پگڑیاں اچھالی ہیں، بنک لوٹے ہیں، عدالتوں پر حملے کرائے ہیں، لیکن ان کا ذکر کہیں نہیں ہونا چاہیے۔ چاہیے تو یہ تھا جو ملک قیوم کو فون پر اپنے گھر یلو ملازم کی طرح حکم دے رہے تھے وہ عمر بھر کے لیے نااہل قرار پاتے الٹا ریٹائرڈ بزرگوں پر مشتمل الیکشن کمشن ان کی حمایت پر اتر آیا ہے۔ ہر اشتہار پر پابندی لگ گئی ہے کہ کہیں انہیں تکلیف نہ ہو۔ اور سن لیں۔ رحمن ملک اب پانچ سال بعد جاگ اٹھے ہیں۔ ان کی کسی بات کو ویسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ یہ بڑی سے بڑی خبر کو بھی مذاق بنا دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس اور کوئی نہیں بچ گیا تھا کہ رحمن ملک شریفوں کی کرپشن کی کہانیاں سنائیں۔ جب کام کرنے کا وقت تھا تب انہیں جرأت نہ ہوئی۔ خود ان کی وزرات میں کئی سکینڈلز سامنے آئے۔ وزرات داخلہ میں کون سا کام ہوگا جس میں پیسہ نہ کھایا گیا ہو یا کھانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا اصغر خان کیس میں نوازشریف اور دیگر کے خلاف تفتیش کرو۔ قمر زمان کائرہ‘ ایک ٹی وی پروگرام میں فرماتے ہیں ہم نے اس لیے نواز شریف کے خلاف تحقیقات نہیں کیں کہ پھر آپ میڈیا کے لوگ کہتے ہم انتقامی کارروائی کر رہے ہیں۔ سبحان اللہ۔ بھائی ہمیں خوش کرنے کے لیے عدالتی حکم پر عمل نہیں کررہے بلکہ آپ کو ڈر ہے میاں صاحب کا احتساب ہوا تو پھر وہ اگلی دفعہ آپ کا کریں گے۔ اس دفعہ پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے اتنا کچھ کما لیا ہے کہ ان کی سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھا سکتی ہیں اس لیے وہ اس الیکشن میں خاموشی سے اپنی شکست کا انتظار کر رہے ہیں ۔انہوں نے کسی کو کچھ نہیں کہا اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا ۔ یہ وہ صلح صفائی کی سیاست تھی جو زرداری صاحب نے متعارف کرائی کہ ہمیں آپ لوٹنے دو جب آپ کی باری لگے تو آپ لوٹ لینا‘ کیوں ایک دوسرے کو گالی دیتے ہو ۔ پنجاب میں شریفوں نے اپنا نقصان پورا کر لیا ، پولٹری اور دودھ مارکیٹ پر قبضہ اور بہت کچھ لے لیا تو مرکز میں زرداری صاحب نے ڈاکٹر عاصم حسین جیسے نئے ارب پتی پیدا کر لیے۔ ریاض لعل جی جیسے دوستوں کے اربوں روپے کے قرضے نیشنل بینک سے معاف کرادیے۔ سب نے کھایا ہے۔ پتہ نہیں اتنا پیسہ کیا کریں گے۔ ہمارے ان لٹیرے حکمرانوں سے وہ مزدور اچھا ہے جو صبح سے شام تک اپنی محنت سے دو سو روپیہ حلال کا اپنے بچوں کے لیے فخر سے کما کر جاتا ہے ! نواز شریف کا انجم عقیل خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ویل ڈن کہنے سے خیال آیا وہ نئے دور کا نیا رابن ہڈ لگتا ہے جو غریبوں کو لوٹ کر امیروں کو پارٹی فنڈ کے نام پر کھلاتا ہے ۔ سنا ہے انجم عقیل خان کو اس دفعہ اپنے بڑوں کی چونچ گیلی کرانے کے لیے کچھ کروڑ روپے زیادہ خرچ کرنے پڑ گئے ہیں کیونکہ سکینڈل کے علاوہ اسلام آباد پارلیمانی بورڈ کے ممبران انور بیگ اور سینیٹر ظفر علی شاہ نے اسے ٹکٹ دینے کی مخالفت کی تھی۔ اس لیے انجم عقیل کو پارٹی فنڈ کے علاوہ ’’پریمیم‘‘ بھی ادا کرنا پڑا ہے۔ دنیا بھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد نواز شریف نے انجم عقیل خان کا ٹیلنٹ درست پہچانا ہے۔ اگر وہ سکول ٹیچر سے اٹھ کر چھ ارب روپے کا دن دہاڑے فراڈ کر کے ایم این اے بن سکتے ہیں، انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ سکتے ہیں تو پھر ان کے ٹیلنٹ کی قدر ہونی چاہیے۔میاں صاحب کا انجم عقیل کو ویل ڈن کہنا بنتا ہے، باس۔