کیا ایک دفعہ پھر مک مکا کی سیاست شروع ہونے والی ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت پوچھا جارہا ہے جب نواز شریف کچھ دنوں تک وزارت عظمیٰ کا حلف تیسری دفعہ اٹھانے والے ہیں۔ پانچ سال تک اُن پر الزام لگتا رہا کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کرتے ہیں اور اب یہ الزام پیپلز پارٹی والوں پر لگے گا۔ نواز شریف یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ تبدیل ہو چکے ہیں اور نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ نئی شروعات چاہتے بھی ہیں تو کیا یہ ان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ ایسا کر سکیں کیونکہ چیزیں اتنی آسان نہیں، جتنی بظاہر نظر آرہی ہیں ۔ نواز شریف پر دو تین اہم دبائو پڑنے والے ہیں۔ سب سے پہلے جو باتیں خواجہ محمد آصف کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بدھ کے روز کہی ہیں وہ یقیناً میاں صاحب تک پہنچ گئی ہوں گی۔میں اس وقت خود عدالت میں موجود تھا جب چیف جسٹس صاحب نے بار بار خواجہ آصف کو خبردار کیا کہ آپ عدالت میں تو آگئے ہیں کہ نگران حکومت نے تقرریاں میرٹ پر نہیں کیں لہٰذا انہیں روکا جائے لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ عدالت آپ کی حکومت کو بھی اس طرح کی سفارشی تقرریاں نہیں کرنے دے گی۔ چیف جسٹس نے یہاں تک کہا کہ آپ کی حکومت نے بھی اگر اپنے حواریوں کو اہم عہدے دیے تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ خواجہ آصف کچھ دیر تک ہاں میں ہاں ملاتے رہے لیکن انہیں بھی محسوس ہو گیا کہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے کہ ان کی ہاں سے ٹل جائے گا لہٰذا وہ چپ ہوگئے کیونکہ انہیں لگا کہ عدالت شاید ان کے ساتھ رعایت کے موڈ میں نہیں جس کا وہ اندازہ کر بیٹھے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف اور ان کی پارٹی واقعی میرٹ پر لوگوں کو بڑے اور اہم عہدوں پر لگا سکے گی ؟ پنجاب میں بھی ایک طویل فہرست سامنے آئی تھی کہ کیسے اہم عہدے اپنے قریبی دوستوں اور مہربانوں میں بانٹے گئے اور ان پر ہونے والے خرچوں کی تفصیلات نے سب کو چکرا کر رکھ دیا تھا ۔ نواز شریف اپنے اختیارات میں مداخلت پسند نہیں کرتے۔ تو کیا وہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھیجی گئی اس وارننگ پر عمل کر سکیں گے اور تقرریاں میرٹ پر ہوں گی ؟ اگر میرٹ پر کام ہونے لگا تو ان کی پارٹی کے اندر بیٹھے ’’سیاسی شکرے‘‘ کب تک صبر کر سکیں گے؟ جو جنرل مشرف کو چھوڑنے کے بعد کچھ سوچ کر ہی نواز لیگ میں شامل ہوئے ہیں کہ دیگ پک گئی ہے اور اب بٹنے کی باری ہے۔ میاں نواز شریف کے لیے سب سے اہم مسئلہ اس وقت پیدا ہوگا جب انہیں پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے خلاف عدالتوں میں چلنے والے سکینڈلز اور مقدمات پر عدالت کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔ یہ مقدمات اس وقت یوسف رضا گیلانی، ان کے دو بچوں موسیٰ گیلانی اور عبدالقادر گیلانی کے علاوہ راجہ پرویز اشرف اور امین فہیم جیسے لیڈروں پر چل رہے ہیں ۔ ان کے مقدمات نیب اور ایف آئی اے کے پاس ہیں ۔ اگر نواز شریف حکومت ان کیسز پر عدالت سے تعاون کرتی ہے تو یقینا پیپلز پارٹی شور مچائے گی کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں اور اس طرح اسے سیاسی رنگ دیا جائے گا جیسے نواز شریف کے پہلے اور دوسرے دورِ حکومت میں بینظیر بھٹو اور صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات پر ہوا تھا ۔ اس وقت نواز شریف کہتے تھے ان پر صدر غلام اسحاق خان کا دبائو ہے اور اب ان پر عدالت کی طرف سے دبائو ہوگا کہ وہ دو سابق وزرائے اعظم کے خلاف کارروائی کریں۔ اب اگر نواز شریف عدالتی دبائو میں آنے سے انکار کرتے ہیں تاکہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی قابو میں رہے تو پھر نواز لیگ اور عدلیہ کے درمیان ٹکرائو کا خدشہ ہے۔ اگر نواز شریف عدالت کے حکم پر چلتے ہیں تو پھر پیپلز پارٹی ان پر دبائو ڈالے گی کہ ان کی حکومت آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے سنائے گئے فیصلے پر بھی عمل کرائے جس کے تحت وزارت دفاع کو کہا گیا تھا کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف کورٹ مارشل کریں۔ وفاقی حکومت کو کہا گیا تھا کہ وہ ایف آئی اے کو کہیں کہ ان سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے یونس حبیب سے پیسے لیے تھے۔ ان پیسے لینے والوں میں شریف برادران کا نام بھی مبینہ طور پر شامل تھا۔ اب وزیراعظم نواز شریف کیا کریں گے ؟ کیا وہ ایف آئی اے کو اجازت دیں گے کہ وہ وزیراعظم ہائوس میں آکر ان سے تفتیش کریں تاکہ عدالتی فیصلے پر عمل ہو سکے۔ فرض کرتے ہیں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ انہوں نے پیسے نہیں لیے اور وہ کلیئر ہیں تو کیا اپوزیشن جماعتیں یہ سب کچھ ہضم کر لیں گی؟ جب کہ ایف آئی اے اس وقت نواز شریف حکومت کے ماتحت ہوگی اور ڈی جی ایف آئی اے بھی ان کا اپنا لگایا ہوا افسر ہوگا ۔ پاکستان میں کوئی روایت نہیں ہے کہ وزیراعظم کے خلاف ڈی جی ایف آئی اے کارروائی کرنے کی جرأت کر سکے۔ بالفرض یہ تصور کر لیا جائے کہ ایف آئی اے یہ ثابت کر دے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں پیسے لیے تھے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا کسی کے خلاف کارروائی ہوگی؟ ان سے پہلے یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سے بھی ان کے دفاتر میں نیب اور ایف آئی اے پوچھ گچھ کرتی رہی ہے اور وہی کچھ ہوتا رہا ہے جو وہ چاہتے تھے۔ کیا پاکستان واقعی اس قسم کی اسٹیج پر پہنچ چکا ہے کہ ایف آئی اے یا نیب کسی بڑی قومی شخصیت کو گرفتار کر سکتی ہے ؟ کیا واقعی اس طرح کی تبدیلی آچکی ہے؟ چلیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پندرہ سال سے یہ کیس لاہور کی عدالت میں پڑا ہے لیکن پھر کیا ہوگا جب آصف زرداری صدر نہیں رہتے اور ان کے خلاف این ار آو کے تحت ختم ہونے والے 34 مقدمات دوبارہ شروع ہوتے ہیں؟ کیا ان کی حکومت وہ مقدمات دوبارہ شروع کر کے جن میں مرتضے بھٹو قتل کیس شامل ہیں، زرداری صاحب کو جیل میں ڈال کر انہیں آئی جی (ر) رانا مقبول کے حوالے کر دے گی جن پر پہلے بھی زرداری کی زبان کاٹنے کا مقدمہ سندھ میں چل رہا ہے ؟ ابھی میں نے جان بوجھ کر اس پورے سیاسی منظر نامے میں عمران خان کے اپوزیشن کردار پر بات نہیں کی کہ وہ اس صورت حال سے کیسے فائدہ اٹھائیں گے۔ اس پریشان کن منظر میں نواز شریف کے پاس امید کی ایک کرن ہے۔ موجود چیف جسٹس، صدر اور آرمی چیف اس سال کے آخر تک ریٹائرڈ ہوکر گھر چلے جائیں گے اور وہ جنوری 2014ء شروع ہونے سے پہلے اپنی مرضی کے لوگ ٹاپ پر بٹھا کر بارہ اکتوبر1999ء سے پہلے کی طرح حکومت کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کے اس سنہرے وقت کے لوٹنے میں ابھی سات ماہ باقی ہیں اور اس سے پہلے ہی کچھ خوفناک طوفان ان کے منتظر ہیں !