میرے دوست سابق سینیٹر انور بیگ آج کل مجھ سے ملنے سے گریزاں ہیں۔ جن دنوں وہ پیپلز پارٹی سے ناراض تھے توگھنٹوں بحث ہوتی تھی کہ وہ پارٹی کو نہ چھوڑیں‘ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ لڑ پڑتے کہ تُو خود روزانہ ان کے کرپشن کے سکینڈل فائل کرتا ہے اور مجھے سبق دیتا ہے کہ یہ پارٹی ابھی بھی بہتر ہے۔ میرا جواب ہوتا کہ میں سکینڈل فائل کرتا ہوں کیونکہ میں اس کام کی تنخواہ لیتا ہوں۔ تاہم آپ کو وہی مشورہ دوں گا جو سیاسی طور پر آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ ان کی عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی لیکن پھر ان پر کشمیری محبت غالب آگئی اور وہ اپنے \"سمجھدار\" کشمیری بھائیوں پر میانوالی کے \"جذباتی\" پٹھان سے زیادہ اعتبار کرنے پر تیار ہوگئے۔ شاید ان کے ذہن میں سرائیکی کی مثال ہوگی کہ اپنا مار کر بھی چھائوں میں ڈالتا ہے۔ نیازی پٹھان کے ہاتھوں مرنے سے بہتر تھا کہ اپنے کشمیری بھائی کے ہاتھوں زخم کھاتے۔ جس دن وہ پنجاب ہائوس اپنے بچوں کے ساتھ میاں نواز شریف کے ساتھ پریس کانفرنس کرنے جارہے تھے تو بھی میں نے انہیں کہا کہ بیگ صاحب آپ کو کچھ نہیں ملے گا ۔ آپ رہنے دیں۔ بیگ صاحب کی بدقسمتی کہ ان کے سینگ نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے نئے پارٹی چیف کے ساتھ اڑ گئے تھے۔ زرداری صاحب بینظیر بھٹو کو راضی کر چکے تھے کہ وہ 2002ء کے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بننے دیں تو نہ صرف وہ جیل سے رہا ہوجائیں گے بلکہ وہ بھی دوبئی سے لوٹ آئیں گی۔ اس دوران زرداری صاحب کو بتایا گیا کہ انور بیگ دوبئی میں بینظیر بھٹو سے ملے اور امریکنوں کا پیغام دیا کہ یہ مت کریں۔ اس پر بینظیر بھٹو نے انکار کر دیا اور یوں مولانا فضل الرحمن وزیراعظم نہ بن سکے اور زرداری صاحب کو دو سال مزید جیل رہنا پڑا۔ وہ اس کا ذمہ دار انور بیگ کو سمجھتے رہے۔ جب انور بیگ کو صدر زرداری کی نفرت کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں حیرت ہوئی کہ ان سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے کہ بڑے صاحب ان سے ناراض رہتے ہیں۔ ادھر ادھر سے سن گن لی تو پتہ چلا کہ وہ انہیں اپنی دوسال جیل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ انور بیگ پر حیرانی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے صدر زرداری کے قریبی لوگوں کو بتایا کہ بینظیر بھٹو کو انہوں نے کوئی پیغام نہیں دیا تھا۔ اگر دیا بھی ہوتا تو بینظیر ان پر کبھی بھروسہ نہ کرتیں اور یقینا امریکیوں سے خود اس کی تصدیق کراتیں۔ بی بی کو انور بیگ کی پیغام رسانی کی کیا ضرورت تھی۔انور بیگ نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی کہ وہ یہ بات صدر صاحب پر واضح کریں۔ مولانا نے وعدہ کیا لیکن پھر سوچا ہوگا کہ انہیں انور بیگ کا نام کلیر کرنے کا کیا فائدہ ہوگا ؟ یوں دوریاں بڑھتی گئیں۔ ایک دن پیغام بھیجا گیا کہ وہ امین فہیم کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں تو پارٹی میں جگہ بن جائے گی اور سینٹ کا ٹکٹ مل سکتا ہے۔ جواب دیا کہ چالیس سال سے دوستی ہے اور دونوں کے بڑے بیٹوں کا نام ایک ہی ہے۔ اپنے بچوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ اور کہانی ہے کہ امین فہیم نے ایوان صدر جا کر بیوی بچوں سمیت صدر سے معافی مانگ لی اور انور بیگ کے بیٹے کی شادی پر اس ڈر سے نہیں آئے کہ صدر صاحب ناراض ہوجائیں گے۔ یوں صدر کو بھی ناراض کیا اور چالیس سالہ دوستی بھی گئی۔ میں ہمیشہ بیگ صاحب کو کہتا کہ آپ بھولے بادشاہ ہیں۔ آپ مس فٹ ہیں۔ سیاستدان دنیا بھر میں سیاستدانوں اور میڈیا کو استعمال کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ دونوں الٹا آپ کو استعمال کرتے ہیں۔ آپ ایماندار انسان ہیں۔آپ اصولوں پر سودے بازی نہیں کرتے اور سیاست میں تو اصول بنائے ہی قیمت لگوانے کے لیے جاتے ہیں۔ یا سیاست چھوڑ دیں یا پھر اپنے اصول۔ دونوں اکٹھے نہیں چل سکیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنی کشمیری برادری میں خوش رہیں گے۔ انہیں اس وقت پہلا جھٹکا لگا جب رائے ونڈ میں جنرل مشرف کی وزیر زبیدہ جلال نے انکشاف کیا کہ وہ نواز لیگ میں شامل ہورہی ہیں۔ یہ وہی زبیدہ جلال تھیں جن کے خلاف انہوں نے توانا پاکستان سکینڈل کی سینٹ میں انکوائری کی تھی اور انہیں ملزم پایا تھا۔ دیگر چہروں کو دیکھا تو پتہ چلا سب وہی تھے جو جنرل مشرف کے ساتھی تھے اور ان کے خلاف تقریریںکر کے ان کا گلہ بیٹھ گیا تھا۔ اپنے ایک قریبی دوست‘ جو اب وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم وزیر ہیں‘ سے پوچھا کہ یار نواز لیگ میں شامل ہونے کا کیا معیار ہے؟ اس وزیر نے طنزیہ جواب دیا کہ بیگ صاحب دو معیار ہیں۔ ایک یہ کہ آپ نے کبھی جنرل مشرف کی کابینہ میں وزیر کے طور پر کام کیا ہو اور دوسرے کھل کر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نواز شریف کی مخالفت کی ہو۔ بیگ صاحب نے بھولپن سے کہا کہ میں نے تو دونوں کام نہیں کیے تو جواب ملا تو پھر آپ کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ پھرتے رہیں ان غلام گردشوں میں دن رات ۔ اب بیگ صاحب حیران اور پریشان ہیں کہ سارا مجمع وہی ہے جن کے ساتھ وہ چھ سال سینیٹ میں بینظیر اور نواز شریف کے حق میں بات کرنے پر جھگڑتے رہے۔ ان کے پاس پاکستان سے بارہ لاکھ نوجوانوں کو ملک سے باہر نوکریاں دلوانے کا منصوبہ تھا جو وہ پہلے صدر زرداری کے پاس لے گئے، انہوں نے توجہ نہ دی اور پھر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو بتایا تو وہ بھی مائل نہ ہوئے۔ اب پتہ چلا ہے یہ کام سندھ سے پیرپگاڑا کے بھائی کے ذمہ لگایا گیا ہے کہ وہ ہیومین ریسورس کا کام کریں۔ انور بیگ روز جلتے کڑھتے ہیں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ وہ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی میں بھی مس فٹ تھے اور اب وہ نواز لیگ میں بھی ۔ وہ کرپشن کے شدید خلاف ہیں اور سیاستدان بغیر مال پانی کھائے سانس نہیں لے سکتا ۔ وہ روزانہ اپنی پارٹی کے لیڈروں کو مشورے دے رہے ہوتے ہیں اور وہ لوگ پیٹھ پیچھے ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ آج کل ان کے سر پر بھوت سوار ہے کہ وہ پاکستان کے زرمبادلہ کو بارہ ارب ڈالر بڑھا سکتے ہیں۔ میں کہتا ہوں حضور آپ اپنے لیڈروں کو جب تک یہ نہیں بتائیں گے کہ ان کی ذات مبارک کو ان بارہ ارب ڈالرز میں سے ذاتی طورپر کیا فائدہ ہوگا ، وہ نہیں سنیں گے۔ دوسروں کو پہلے ان کے فائدے کی بات بتا کر اس طرح کے منصوبے شیئر کیے جاتے ہیں ! جب بیگ صاحب جنرل مشر ف کے ساتھیوں کو میاں نواز شریف کابینہ میں بڑے بڑے عہدے ملتے دیکھتے ہیں تو ان کا دل دکھتا ہے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ آپ کو کس نے روکا تھا‘ آپ بھی جنرل مشرف کے ساتھ مل جاتے، اس وقت بھی عیش کرتے اور اب میاں صاحب کے دور میں بھی مزے کرتے جیسے رضا حیات ہراج، زاہد حامد، دانیال عزیز اور سکندر بوسن کر رہے ہیں ۔ اگر آپ نہیں بدل سکتے تو اس میں دوسروں کا کیا قصور ۔ آپ بھی جنرل مشرف کی پارٹی سے نوا ز لیگ میں شامل ہوتے تو آج وزیرہوتے۔ آپ پیپلزپارٹی سے وہاں گئے، لہٰذا آپ کوالیفائی نہیں کرتے! انور بیگ کشمیری تھے یہاں تک تو درست تھا لیکن ان کا تعلق لاہور سے نہیں ہے لہذا مار کھا گئے وگرنہ میاں صاحب نے لاہور شہر سے ہی اپنی برادری کے وزیراعظم، وزیراعلیٰ، سپیکر، پانچ وفاقی وزراء اور چونتیس خواتین ایم پی اے بنا دیں ! اب اگلا صدربھی لاہور سے ہوگا ۔ اب تو تخت لاہور کا کامیاب ماڈل دیکھ کر محمود خان اچکزئی جیسے جمہوریت پسند لیڈر کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور انہوں نے میاں صاحب سے ڈیل کرنے کے بعد اپنے گریڈ بیس کے ریٹائرڈ سرکاری ملازم بھائی کو گورنر بلوچستان لگوا کر دم لیا ہے!!