"RKC" (space) message & send to 7575

شیر اور بکری کا شکار… پاکستان!!

میاں نواز شریف نے جب اعلان کیا کہ وہ جنرل مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کریں گے، تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی بلکہ 2008ء کے الیکشن کے بعد لکھا گیا اپنا اخباری کالم یاد آیا جس کا عنوان تھا \"شیر اور بکری کی سیاست میں گھرا پاکستان\"۔ اس وقت میاں نواز شریف اور صدر آصف زرداری کے درمیان بہت پیار محبت کی فضا تھی اور میں نے اس کالم میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ دونوں میں نبھ نہیں پائے گی۔ دوستوں نے ناک بھوں چڑھائی کہ جمہوری سفر کا آغاز ہوا نہیں اور میں نے پیش گوئی کا کاروبار سنبھال لیا۔ میرے تجزیے کی بنیاد یہ تھی کہ اس ملک پر برج اسد اور جدی نے حکمرانی کی ہے اور دونوں کی نہیں بن پائی۔ میاں نواز شریف برج جدی( نشان بکری) سے تعلق رکھتے ہیں تو زرداری صاحب کا برج اسد (شیر) ہے۔ دونوں کا اتحاد بہت جلد ٹوٹ گیا۔ صدر زرداری نے جلد پنجاب میں گورنر راج لگا دیا۔ جنرل مشرف لیو ہیں‘ لہٰذا جدی میاں نواز شریف کا وزیراعظم بنتے ہی کسی اسد سے ٹکرائو ہونا یقینی تھا۔ پاکستان کے اکثر حکمرانوں کا تعلق ان دونوں برجوں سے رہا ہے۔ ان کی دوستی اور دشمنی کی قیمت پاکستان نے چکائی ہے۔ ان حکمرانوں کے نام گنوانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے ان دونوں برجوں کے حامل حکمرانوں کی ایک دوسرے سے کیوں نہ بن سکی۔ لیو کا حکمران ستارہ سورج ہے جب کہ جدی کا saturn ہے۔ لیو آگ ہے تو جدی کا سائن زمین ہے۔ سورج کا مطلب ہے انا اور یہ سب کو اپنی ذات سے روشن کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ saturn کا مطلب ہے ذمہ داری اور سخت محنت۔ شیر کو آزادی چاہیے ہوتی ہے اور جدی کو سکیورٹی۔ جب تک یہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی اہمیت جتاتے رہیں گے، کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ۔ لیو ایک فکسڈ سائن ہے جب کہ جدی زمین کی گردش ظاہر کرتا ہے۔ دونوں ضدی اور سخت رائے رکھتے ہیں ۔ ان کی خواہشات آسمان کو چھوتی ہیں۔ جدی چاہتا ہے کہ زندگی سیدھی اور اصولوں پرچلنی چاہیے‘ جب کہ لیو ایڈونچر اور غیرمتوقع چیزوں سے محبت کرتا ہے۔ دونوں کی شخصیت مضبوط ہوتی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے ۔ لیو، جدی کو سکھا سکتا ہے کہ زندگی میں مزے کیسے کیے جاتے ہیں تو جدی لیو کو بتائے گا محنت کیسے کی جاتی ہے۔ جدی ہمیشہ لیو کو اپنے لیے اثاثہ سمجھتا ہے جسے وہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے؛ تاہم لیو کو قابو کرنا مشکل ہے۔ لیو اور جدی میں مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب جدی، لیو پر پابندیاں عائد کرنے کے بارے میں سوچنے لگ جاتا ہے۔ لیو کے لیے ڈسپلن قبول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان لڑائی ہونا فطری سی بات ہے کیونکہ ان کے ذہن اونچی پرواز کرتے ہیں۔ لیو اونچی آواز میں چنگھاڑتا ہے تو جدی بڑے حساب کتاب سے چلتا ہے جس سے دونوں میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ بکری اپنے منصوبے سوچ سمجھ کر بنائے اور شیر جبڑے بند رکھے تو بات چل سکتی ہے۔ بکری ایک سٹائل کا نام ہے۔ اسے دولت سے محبت ہے‘ جب کہ شیر پوری کائنات چاہتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان مستقل چپقلش جاری رہے گی۔ پاکستانی سیاست میں اسد اور جدی کے درمیان پہلا بڑا ٹکراو اس وقت ہوا ‘ جب جدی بھٹو صاحب نے اسد جنرل ضیاء کو آرمی چیف لگایا اور اس کے ہاتھوں ہی پھانسی لگے۔ ضیاء نے سوچا کہ اب کسی جدی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے لہٰذا وہ ایک اور لیو محمد خان جونیجو کو وزیراعظم لائے۔ جلد جنگل کے بادشاہ ضیاء کو پتہ چلا کہ ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے لہٰذا ایک شیر نے دوسرے شیر جونیجو کو گھر بھیج دیا ۔ تاہم اس دوران جنرل ضیاء کو پتہ نہیں تھا کہ وہ جدی نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا کر اپنی عمر لگ جانے کی دعا تک دے چکے ہیں‘ جو جلد پوری بھی ہوگئی۔ برج اسد کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ اس دفعہ لیو جنرل بیگ کے ساتھ جدی غلام اسحاق خان تھے۔ بھٹو اور ضیاء کی طرح ایک دفعہ پھر پاکستان جدی اور لیو کے قبضے میں تھا ۔ صدر جدی تو آرمی چیف اسد۔ اس دوران لیو اور جدی نے مل کر نگران وزیراعظم کے لیے مصطفی جتوئی کا انتخاب کیا جو اسد تھے۔ 1990ء کے الیکشن کے بعد سین پر برج جدی کے میاں نوازشریف ابھر رہے تھے۔جنرل اسلم بیگ چاہتے تھے کہ وہ اپنے ہی برج اسد کے جتوئی کو وزیراعظم بنوائیں جب کہ جدی غلام اسحاق خان اپنے جیسے جدی میاں نواز شریف کے حق میں تھے۔ یوں دو جدی اسحاق خان اور میاں نواز شریف نے مل کر اسد جنرل بیگ کو گھر بھیج دیا حالانکہ جنرل بیگ توسیع کے خواہشمند تھے۔ میاں نواز شریف کوعلم نہ تھا کہ وہ برج اسد کے بعد جس آرمی چیف جنرل آصف نواز کو لا رہے ہیں وہ بھی ان کی طرح جدی ہے۔ یوں دونوں کے درمیان معاملات بگڑے اور اگر جنرل آصف کو دل کا دورہ نہ پڑتا تو شاید دو جدی ایک دوسرے کا تختہ الٹ چکے ہوتے۔ جنرل آصف کے بعد دو جدی اسحاق خان اور نواز شریف مل کر حکومت کر رہے تھے لیکن وہ بھی لڑ پڑے اور دونوںکو گھر جانا پڑ گیا۔ برج جدی کے میاں نواز شریف1997ء میں دوبارہ ملک کے وزیراعظم بنے۔ اس وقت جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے۔ تاہم جدی اور اسد بھلا کب تک دور رہ سکتے تھے اور یوں کرامت کے استعفیٰ کے بعد میاں نواز شریف نے لیو جنرل مشرف کا انتخاب کیا جیسے بھٹو نے ضیاء کا کیا تھا اور حشر بھی وہی ہوا جو بھٹو کا ہوا تھا۔ جدی اور اسد کا دوبارہ ملاپ جنرل مشرف اور ظفراللہ جمالی کی شکل میں ہوا۔جمالی جدی تھے۔ دونوں ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ چل سکے اور لیو نے پھر جدی کی چھٹی کرادی۔جنرل مشرف نے بھی اپنے گرد برج اسد کے لوگوں کو رکھا جس میں سب سے اہم میاں محمد سومرو تھے۔ وہ سینٹ چیئرمین سے لے کر نگران وزیراعظم بھی رہے۔ تاہم ان دونوں کے درمیان ٹکرائو نہ ہوا۔ مشرف کے لیے مسائل اس وقت شروع ہوئے جب ایک اور برج اسد زرداری سین پر آیا ۔ اس دفعہ شیر اور بکری نے مل کر پلان بنایا کہ جنگل کے بادشاہ مشرف سے جان چھڑائی جائے اور پھر وہ آپس میں سلطنت بانٹ لیں گے۔ یوں میاں نواز شریف اور زرداری صاحب نے مل کر ایک بوڑھے شیر کی چھٹی کرائی اور جنگل کی بادشاہت آپس میں بانٹ لی۔ پہلی دفعہ شیر اور بکری نے ایک گھاٹ پر پانی پیا کیونکہ مل کر کھانے میں برکت ہے۔یوں پانچ سال خیریت سے گزر گئے۔ زرداری صاحب نے جوزا گیلانی کو وزیراعظم بنا تو دیا تاہم وہ بھی تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم بنانے پر مجبور ہوگئے۔ راجہ صاحب جدی ہیں۔ یوں جدی اور برج اسد کا ایک دفعہ پھر ملاپ ہوا۔ کوئی بڑا واقعہ اس وجہ سے نہ ہوسکا کہ اس دفعہ اسد اور جدی کا ساتھ چند ماہ سے زیادہ نہ تھا۔ تقدیر پھر برج اسد اور جدی کو قریب لائی جب کچھ دن قبل صدر زرداری نے وزیراعظم نواز شریف سے حلف لیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ زرداری کچھ عرصے بعد صدر نہیں رہیں گے‘ لہٰذا توقع کی جارہی تھی کہ میاں نواز شریف اب کسی برج اسد سے جلدی نہیں ٹکرائیں گے لیکن لگتا ہے ہمارے نصیب اتنے اچھے بھی نہیں ہیں۔ اب جدی نواز شریف نے اسد جنرل مشرف پر غداری کے مقدمے کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں شیر اور بکری کی روایتی لڑائی کا موسم شروع ہوگیا ہے۔ دیکھتے ہیں اب کی دفعہ جدی اسد کے اس نئے خوفناک ٹکرائو کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ پس تحریر: پاکستان کا برج اسد ہے اور اس کے تخلیق کار قائداعظم جدی تھے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں