"RKC" (space) message & send to 7575

شکر ہے آنکھ بچ گئی ہے !

زندگی واقعی عجیب و غریب واقعات اور حادثات کا نام ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کا پہلا دورۂ چین تھا اور میں شاید اسلام آباد میں آخری صحافی ہوں گا جس کو وہ ساتھ لے جاتے۔ ان سے آخری ملاقات تقریباً چھ سال قبل اس جہاز میں ہوئی تھی جس میں وہ دس ستمبر 2007ء کو لندن سے جلاوطنی ختم کر کے پاکستان لوٹ رہے تھے۔پاکستان لوٹے تووہ سیاسی فلاسفی بدل چکے تھے۔ اس کے بعد نہ انہیں ہمارے جیسے صحافیوں سے بات کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی ہم نے کبھی خواہش رکھی۔ یوں پانچ سالوں میں، میں ان کی سیاسی پالیسوں کا ناقد بن گیا تھا ۔ وہ مشترکہ دوست‘ جو لندن میں ڈیوک اسٹریٹ میں ان کے دفتر میں ہمارے آنے جانے سے واقف تھے‘ حیران ہوتے کہ آپ میاں صاحب کے خلاف کیوں ہیں۔ میں جواب دیتا کہ میں ان کے خلاف نہیں ہوں بلکہ ان کی سیاسی فلاسفی سے اختلاف ہے۔اگر انہوں نے وطن لوٹ کر جنرل مشرف کے وزیروں کی فوج کو اپنی کابینہ میں رکھنا تھا تو پھر اپنے اور ہمارے اتنے برس کیوں ضائع کیے۔ دنیا گروپ کی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا کہ میں چین جائوں‘ خرچہ دفتر برداشت کرے گا ۔ ہمارے دوست محمد مالک نے جانا تھا لیکن وہ نہیں جا رہے تھے‘ لہٰذا اب میں جائوں ۔ اسی شام چند صحافیوں کی ٹیم اپنے خرچے پر چین کے لیے روانہ ہورہی تھی۔ ویزہ لینے کے لیے پاسپورٹ جمع کرایا ۔ دفتر نے ڈیڑھ لاکھ روپے کی ٹکٹ لے کر دی۔ بتایا گیا کہ فلائٹ اسلام آباد سے کراچی یا لاہور لینا ہوگی۔ یوں میں نے پہلے لاہور اورپھر وہاں سے بنکاک میں پانچ گھنٹے انتظار کے بعد بیجنگ پہنچنا تھا ۔ یہ سب اس لیے کیا جارہا تھا کیونکہ صحافیوں کو وزیراعظم کے جہاز میں نہیں لے جایا جائے گا تاکہ عوام کے پیسے کو بچایا جا سکے۔ اگلے دن ویزہ ملا اور اسی شام بنکاک کے لیے فلائٹ اسلام آباد سے مل گئی۔ رات گیارہ بجے فلائٹ پکڑی اور پانچ گھنٹے بعد بنکاک پہنچے۔ بنکاک میں پانچ گھنٹے انتظار کے بعد بیجنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ یوں تقریباً چودہ گھنٹوں کے بعد بیجنگ پہنچا۔ اسلام آباد سے بیجنگ کا جو سفر پانچ گھنٹے کا تھا، وہ چودہ گھنٹوں میں طے ہوا تھا ۔ ائرپورٹ پر سینکڑوں لوگ گزر رہے تھے کسی کو کسٹمز نے نہیں روکا۔ مجھے اور ایک اور پاکستانی صحافی ودود قریشی کو سختی سے اشارہ کیا گیا کہ ہم ایک طرف ہوجائیں کیونکہ ہماری شکلوں پر لکھا تھا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں ۔ اب چینی دوست بھی ہمیں دہشت گرد سمجھتے ہیں۔بڑی سختی سے ہمارے سامان کی تلاشی لی گئی۔ مشین سے گزارا گیا۔ پاسپورٹ چیک کیے گئے؛ بتایا صحافی ہیں تو کہا گیا پریس کارڈ دکھائیں ۔ خیرمشکل سے جان چھوٹی۔ ہوٹل پہنچا تو پتہ چلا کہ میں تو خوش قسمت تھا کہ چودہ گھنٹے بعد بیجنگ پہنچا تھا ۔ کچھ دوست اسلام آباد سے آرمچی اور پھر بیجنگ پہنچے تھے۔ دیگر صحافی اسلام آباد سے کراچی پہنچے تاکہ بنکاک کی فلائٹ پکڑ سکیں۔ اسلام آباد سے جہاز لیٹ چلا کیونکہ فیول نہیں تھا۔ جب صحافی کراچی پہنچے تو پتہ چلا کہ جہاز پہلے ہی اڑ گیا تھا۔ پانچ گھنٹے کراچی انتظار کے بعد نئی ٹکٹ پر کراچی سے دوبئی گئے۔ دوبئی میں تین گھنٹے انتظار کے بعد نئی فلائٹ پکڑی اور یوں چوبیس گھنٹوں بعد وہ بیجنگ پہنچے۔ چلیں درست ہے صحافی وزیراعظم کے جہاز میں سفر نہیں کر سکتے؛ تاہم اس وقت سب حیران رہ گئے جب پتہ چلا کہ یہ سلوک پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔ جیلانی کو بتایا گیا کہ طارق فاطمی وزیراعظم کے ساتھ جہاز میں ہوں گے لہٰذا وہ اپنے سات افسروں‘ جنہوں نے چینی حکام سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنا تھا ، اسلام آباد سے کراچی، بنکاک، اور وہاں سے چین جائیں گے کیونکہ وزیراعظم کے جہاز میں ان کے خاندان کے افراد بھی سفر کر رہے تھے لہذا سیکرٹری خارجہ کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اگر جہاز میں سیکرٹری خارجہ ہی موجود نہیں تو کیا بریفنگ دی گئی ہو گی کہ چین میں کیا کرنا ہے۔ یوں جلیل عباس جیلانی اور ان کے افسران بھی چوبیس گھنٹے خوار ہونے کے بعد چین پہنچے۔ تمام صحافیوں کی حالت بری تھی کہ وہ اب بیس سے تیس گھنٹوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعد نیند پوری کریں یا صبح سویرے وزیراعظم کی مصروفیات کو کور کرنا شروع کریں۔ ابھی تک کسی صحافی کی نیند پوری نہیں ہوئی۔ جو سلوک فارن سیکرٹری کے ساتھ کیا گیا اس سے ایک سرائیکی پیر یاد آیا جو اپنے مرید کے گھر گیا تو اس کے ساتھ بڑی تعداد میں طبلچی اور خلیفے دیکھ کر غریب مرید گھبرا گیا کہ کہاں سے بکرے اور مرغیاں لائے اور انہیں کھلائے۔ مرید کو خرچہ بچانے کا خیال آیا اور بولا پیر سائیں آپ کے لیے دال پکائی ہے، خلیفوں کے لیے کیا پکائیں۔ پیر سر سے پائوں تک غضب میں ڈوب گیا اور گالی دے کر بولا اگر پیر دال کھائے گا تو باقی کیا کھائیں گے؟ یہ بات سمجھی جانی ضروری ہے کہ دنیا بھر میں صحافیوں کو وزیراعظم کے طیارے میں اس لیے لے جایا جاتا ہے کہ وقت بچایا جائے اور دوسرے انہیں بریفنگ دی جاسکے کہ میزبان ملک میں کیا بات چیت ہونی ہے، پاکستان کے مفادات کیا ہیں ۔ہر وزیر صحافیوں کو بریف کرتا ہے کہ کیا کیا معاہدے ہو سکتے ہیں ۔ سفر میں سوال و جواب کا طویل سلسلہ ہوتا ہے جس سے صحافی بہتر انداز میں رپورٹنگ کے قابل ہوتے ہیں۔ اب تمام صحافی چین تو پہنچ گئے لیکن کسی کو کچھ علم نہیں کہ ان تمام معاہدوں اور ملاقاتوں کا بیک گراونڈ کیا ہے اور ہم نے کیا رپورٹ کرنا ہے۔ ہمارا حال ایک اندھے بچے کا سا ہوچکا ہے جسے ماں مسجد کے دروازے پر یہ کہہ کر بٹھا جاتی ہے کہ بیٹا یہاں سے ہلنا نہیں۔ نہ چینی ہماری زبان سمجھتے ہیں اور نہ ہم ان کی۔ وہ انگریزی سے فرانسیسیوں اور جرمن کی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ یوں جو کچھ ہم جیسے صحافیوں کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے وہ ہم ٹی وی پر اندھوں کی طرح کہہ رہے ہیں یا لکھ رہے ہیں ۔ ہمارے پاس کوئی بیک گراونڈ انفارمیشن نہیں ہے۔ اس لیے جب میاں نواز شریف کی صحافیوں سے چند لمحوں کے لیے چلتے چلتے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کل آپ کو بتائیں گے اور اچھی خبریں دیں گے۔ میری ان سے پانچ سال بعد پہلی ملاقات ہورہی تھی۔ مجھے مخصوص انداز میں مخاطب ہو کر کہنے لگے کل بتا دوں گا، آگے آپ اپنی مرضی کی تشریح کر کے جو چاہیں لکھ دیں۔ ان کے اس انداز کا مطلب شاید یہی تھا کہ میں ان کے خلاف ہی لکھتا ہوں۔ میں نے کہا میاں صاحب میں آپ کے خلاف نہیں ہوں ۔ لندن میں کتنا عرصہ آپ کے ساتھ گزارا ہے اور تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ اس وقت آپ کا ایک اصولی موقف تھا جو جنرل مشرف کے خلاف تھا ۔ میں ایک فوجی آمر کے خلاف آپ کے موقف کو درست سمجھتا تھا لہٰذا کھل کر پالیسیوں کی حمایت کی۔ تاہم پاکستان لوٹنے کے بعد آپ نے سب کچھ اس کے برعکس کیا جو لندن میں کہتے تھے۔ آپ نے سیاسی کمپرومائز کیے جن کی توقع نہ تھی۔ اس کے علاوہ صحافی اپوزیشن میں اچھا لگتا ہے۔ اب اللہ نے آپ کو اقتدار دیا ہے۔ صحافی کی اقتدار والوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی۔ میاں صاحب ہاتھ چھڑا کر آگے بڑھ گئے! جہاں تک بات ہے کہ صحافی عوام کے پیسے پر غیرملکی دوروں پر نہ جائیں، وہ درست ہے۔ اپنے پیسے خرچ کریں۔ تاہم وزیراعظم اگر مستقبل میں اپنے جہاز میں صحافیوں سے فی سیٹ کرایہ لے لیں تو سرکاری جہاز کے آنے جانے کا کچھ خرچہ بھی نکل آئے گا اور ہمارا بہت سارا وقت بھی بچے گا ۔ اب سیکرٹری خارجہ‘ ان کے افسران اورچند صحافی اسلام آباد سے بیجنگ تک کا پانچ گھنٹے کا سفر چوبیس گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد جس حال میں بیجنگ پہنچے ہیں وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے۔افسران کی ٹکٹوں کا خرچہ بھی دس لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ وزیراعظم بڑے جہاز پر آتے تو یہ سب پیسے بچ جاتے کیونکہ ان کا وہی خرچہ ہونا تھا، جو اب ہوا ہے۔ اب لاکھوں روپے حکومت پاکستان اور صحافیوں نے غیرملکی ایئر لائنز کو ادا کیے ہیں جو وہ خود بچا سکتے تھے اور صحافیوں سے لے سکتے تھے۔ پاکستان جاتے وقت ایک صحافی کو آرمچی ائرپورٹ سے پاکستان کے لیے فلائٹ لینے کے لیے نو گھنٹے انتظار کرنا ہے اور باقی ہم سب پانچ گھنٹے بنکاک میں انتظار کریں گے۔ فارن سیکرٹری چوبیس گھنٹے طویل سفر کے بعد ہمارے ساتھ پاکستان لوٹیں گے۔ وزیراعظم اپنے جہاز میں خاندان کے لوگوں کو لائے ہیں اور یوں وزارتِ خارجہ کے افسران تک کو چوبیس گھنٹے طویل سفر کرنا پڑاہے۔ عوام کا پیسہ بچنے کی بجائے روٹ طویل ہونے کی وجہ سے ان کی ٹکٹوں پر مزید بڑھ گیا ہے۔ چلیں صحافیوں اور فارن آفس کے افسران کی خیر ہے۔ شکر ہے عوام کا پیسہ بچ گیا۔ عوام کے پیسے بچنے سے یاد آیا کہ ایک آدمی چھت سے گر کر مرگیا ۔ گھر والے رو رہے تھے کہ ایک شخص لاش کے قریب گیا اور حیران ہوکر بولا کیوں رو رہے ہو ، دیکھو اور شکر کرو آنکھ تو بچ گئی ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں