"RKC" (space) message & send to 7575

حسین سے بھی مراسم، یزید کو بھی سلام

پورے ملک میں شور اس پر نہیں مچا کہ ایبٹ آباد کمشن میں کس نے کیا نااہلی دکھائی اور کس کے خلاف کیا کارروائی ہونی چاہیے تھی‘ بلکہ شور اور مذمت اس بات پر ہورہی ہے کہ کس نے گستاخی کی اور یہ اہم رپورٹ افشا کر کے ہمارے پردے چاک کر دیے؟ داد دیں پاکستانی میڈیا کے ان افراد کو جو یہ مہم چلا رہے ہیں کہ اس رپورٹ کو افشا کر کے غداری کی گئی۔ اس گھنائونے کور اپ (Cover up) کو کیا نام دیا جائے کہ دنیا بھر میں میڈیا حکومتوں کی ناکامیوں اور کرتوتوں کو عوام کے سامنے لانے کے لیے کوئی بھی حربہ اختیار کرنے کو تیار رہتا ہے اور ہمارے ہاں یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھال کر بہت غلط کام کیا گیا ہے۔ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا جنہیں بچانے کے لیے یہ شور مچ رہا ہے، وہ خود پاکستانی میڈیا کے بارے میں کمشن کے سامنے بیان دیتے ہیں کہ پاکستانی صحافی امریکیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ یہ صحافی امریکیوں سے شراب، عورت اور پیسے لیتے ہیں۔ چلیں احمد شجاع پاشا اتنے باخبر تو نکلے کہ انہیں پتہ ہے کہ کون کون سا پاکستانی صحافی امریکیوں کے ہاتھوں بکا ہوا ہے۔ اگر انہیں پتا نہیں تو اپنے کام کے بارے میں کہ اسامہ بن لادن کیسے پاکستان پہنچا اور وہ یہاں کیا کررہا تھا؟ موصوف پانچ سال تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ وہ اس وقت بھی اس سربراہ تھے جب ایبٹ آباد کا واقعہ ہوا‘ جسے سقوط ڈھاکہ کے بعد دوسرا بڑا سانحہ قرار دیا جارہا ہے۔ اپنی تین سالہ پہلی مدت پوری کرنے کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے دو بار مدت ملازمت میں توسیع لینے کے باوجود بھی جنرل پاشا یہ راز نہ جان سکے کہ اسامہ ان کی ناک کے نیچے کاکول اکیڈمی کے قریب زندگی گزار رہے ہیں؛ تاہم انہوںنے ان پانچ برسوں میں یہ جان لیا کہ پاکستانی صحافی امریکیوں سے کیا کچھ لیتے ہیں۔ گڈ جاب! کمشن کے ممبران جو خود سرکاری ملازم تھے وہ ان سے یہ نہ پوچھ سکے کہ ان صحافیوں کے نام بھی کمشن کو بتادیں تاکہ انہیں بھی بلایا جا سکے۔ امریکہ جانا تو دور کی بات ہے، میں کبھی اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے تک نہیں گیا ، لیکن میں صحافیوں کے امریکیوں سے ملنے کو برا نہیں سمجھتا کیونکہ ان کا کام ایسا ہے کہ انہیں ہر ایک سے ملنا پڑتا ہے۔ جسم فروشی کے اڈوں (ریڈ لائٹ ایریا) سے لے کر اقتدار کے کسی بھی ایوان میں صحافی کو جانا ہوتا ہے کہ کوئی خبر، کوئی سکُوپ کہیں سے بھی مل سکتا ہے۔ اگر وہ صحافی پیسے لیتے ہیں یا انہیں عورتیں پیش کی جاتی ہیں اور یہ دعویٰ آئی آیس آئی کے سابق سربراہ کر رہے ہیں تو پھر یقینا کمشن کو ان صحافیوں کے نام پوچھنے چاہئیں تھے۔ اگر نام نہیں پوچھے تو پھر رپورٹ میں ذکر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کام دو تین دکھاتے ہیں اور بدنام سب صحافی ہوتے ہیں۔ جنرل پاشا کا کمشن کو دیا گیا یہ بیان پڑھ کر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی یاد آگئے جنہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے کمشن سے کہا تھا کہ پتا کرو‘ اسامہ پاکستان کیسے پہنچا اور کمشن نے وہ کام چھوڑ کر ہم سے پوچھنا شروع کردیا کہ بتائو امریکیوں کو ویزے کس نے جاری کیے ؟ کیا اسامہ ویزے لے کر پاکستان آیا تھا ؟ اسی طرح کا کام اب جنرل پاشا نے کیا ہے کہ اپنی صفائی دینے کی بجائے وہ فرماتے ہیں کہ پاکستانی صحافی امریکیوں کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں۔ کیا جنرل پاشا نے اپنے سینئر جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھی ہے جس میں انہوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ امریکی کیسے عورت، شراب اور ڈالرز پاکستان کے ان فوجی افسروں پر استعمال کرتے ہیں جو وہاں جا کر تربیتی کورس کرتے ہیں؟ یقینا انہوں نے نہیں پڑھی ہوگی کیونکہ ہر خاکی جنرل شاہد عزیز سے ناراض ہے کہ اس نے کیوں پردہ اٹھا کر سب کو شرمندہ کر دیا ہے‘ ہمارے ان سپوتوں کے کیا کارنامے ہیں اور جو سیاستدانوں کو لٹکاتے ہیں ان کے اپنے اندر کیا کچھ چھپا ہوا ہے۔ میںنے اب تک کسی فوجی کو جنرل شاہد عزیز سے خوش نہیں دیکھا۔ اس وقت بھی میڈیا جنرل شاہد عزیز کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ کیوں راز فاش کیے ہیں اور اب بھی وہ ایبٹ آباد رپورٹ افشا ہونے پر خفا ہے کہ کیوں پتا چلا کہ کس نے کہاں نالائقی دکھائی تھی۔ داد دینے کو جی چاہتا ہے میڈیا کو جو ان مواقع پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ کیا جنرل پاشا بھول گئے ہیں کہ ان کے بارے میں وکی لیکس میں کیا کچھ سامنے آیا تھا۔ وہ گریڈ بیس کی ایک امریکی ملازمہ این پیٹرسن کے سامنے ہیلی کاپٹر میں اپنے صدر کے بارے میں کیا فرماتے رہے تھے ؟ یا پھر وہ بتائیں گے کہ گیارہ ستمبر کو ہونے والے حملوں کے دن جنرل محمود احمد، پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی کے ساتھ ناشتہ کرنے کے لیے امریکہ کے کس دفتر میں موجود تھے اور کیوں؟ یا پھر جنرل پاشا بتائیں گے کہ انہوں نے خود امریکہ جا کر امریکیوں کو خود کتنی دفعہ بریفنگ دی ہوئی ہے ؟ یا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا امریکیوں سے ملنا، اپنے صدر کے بارے میں نازیبا گفتگو کرنا اور انہیں امریکہ جا کر بریفنگ دینا تو ان کے سرکاری ڈیوٹی ہے اور اگر کوئی پاکستانی صحافی امریکیوں سے ملتا ہے تو وہ صرف پیسے، عورتیں اور ڈالرز لینے کے لیے ملتا ہے ؟ کیا جنرل پاشا اکیلے اس ملک میں وطن دوست تھے اور باقی وہ سب اس کا سودا کر رہے تھے جنہیں جنرل پاشا کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد کسی عرب شیخ نے نوکری نہیں دینی اور ان سب کا مرنا جینا اسی ملک میں ہی ہے۔ جنرل پاشا فرماتے ہیں کہ ڈرون پاکستان کے لیے مفید ہیں۔ اگر مفید ہیں تو پھر کیوں پوری قوم کو بیوقوف بنایا گیا ہے۔ کیوں قوم کو پہلے دن سے نہیں بتایا گیا کہ یہ حملے ہماری منظوری سے ہورہے ہیں کیونکہ یہ القاعدہ کے خلاف ہیں جو پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتی ہے۔ ہمارے پاس پہاڑوں میں لڑنے کے لیے وسائل نہیں ہیں لہٰذا ہم نے اپنے اتحادی سے کہا ہے کہ وہ ہماری مدد کریں۔ اگر یہ موقف اختیار کر لیا جاتا تو یقینا قوم کسی حد تک مطمئن ہوسکتی تھی۔ ایک طرف امریکیوں سے درخواست کی گئی کہ ڈرون شروع کرو اور دوسری طرف اسی رات ڈنر پر صحافیوں کو بلا کر کہا گیا کہ وہ ڈرون کی مذمت شروع کریں ۔ یوں ہماری اسٹیبلشمنٹ رند کی رند بھی رہی اور جنت بھی ہاتھ سے نہ گئی ۔ امریکیوں کے آگے سرخرو اور قوم کے بھی ہیرو…!! عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام حسین سے بھی مراسم، یزید کو بھی سلام

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں