نواز لیگ حکومت میں آتے ہی سکینڈلز میں گھر گئی ہے۔ جس اسٹیج پر پیپلز پارٹی کو پہنچنے میں دو برس لگے تھے،اس پر نواز لیگ پہلے ماہ میں ہی پہنچ گئی ہے۔ سنا ہے‘ اب میڈیا کے خلاف تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان میں کوئی منصوبہ شروع نہیں ہونے دیتا اور ہر چیز میں کیڑے نکال لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ کرتے رہیں، میڈیا چپ رہے ورنہ ملک کی بربادی کا ذمہ دار میڈیا ہوگا‘ حکمران نہیں۔ تو کیا میڈیا کو بلیک میل کیاجارہا ہے کہ ملک میں سانسیں لینا چاہتے ہو تو سرکاری بھتہ دینا ہوگا ۔ کیا اس پر بھی چپ رہنا چاہیے کہ حکومت کے ایک طاقت ور وزیر اپنے بڑے گھر کو پنجاب حکومت کے بجٹ میں لگنے والے ٹیکس سے بچانے کے لیے راولپنڈی کے متعلقہ محکمے کو خط لکھتے ہیں کہ ان کے گھر کو لگژری گھروں کی فہرست سے نکال کر کیٹیگری بی میں ڈالا جائے تاکہ انہیں ٹیکس نہ دینا پڑے۔افسران اپنے آپ کو اس وزیر کے عذاب سے بچانے کے لیے بالکل وہی کرتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے۔ گویا اب پورا پنجاب اپنے بڑے گھروں پر لگژری ٹیکس دے گا لیکن وہ وزیر نہیں دیں گے۔ ایک اور وزیر کی کہانی بھی سامنے آرہی ہے کہ جیٹ جہاز والے جو ’’میاں صاحب‘‘ میاں شہباز شریف کے بچوں کو چین ساتھ لے کر گئے تھے، ان کی پاکستان میں پاور کمپنیوں میں اس وزیر کے بھی شیئرز ہیں اور وہ ان کے باقاعدہ پارٹنر ہیں۔ انہی وزیر صاحب کی وزارت نے جیٹ والے ’’میاں صاحب‘‘ کو سرکلرڈیٹ کے سلسلے میں آئی پی پیز کو دیے گئے 322 ارب روپے میں سے اربوں روپے کی ادائیگی کی ہے۔ یقینا ان کے پارٹنر کی کمپنی کو کی گئی اربوں روپے کی ادائیگی سے وزیر موصوف کے شیئرز پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور انہیں بھی اس میں سے منافع ملے گا۔ ہمیں کوئی نہیں بتا رہا کہ یہ 322ارب روپے کس کس کو ملے ہیں اور کیوں ملے ہیں؟ کوئی فہرست سامنے نہیں آئی‘ حساب کتاب کا کوئی علم نہیں۔ تحریک انصاف بھی سو رہی ہے۔ کسی کو خیال نہیں آرہا کہ کچھ شور کیا جائے‘ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر نندی پور پراجیکٹ کی لاگت میں اضافے اور آئی پی پیز کو ادائیگیوں کی تفصیلات پوچھی جائیں۔ شاید تحریک انصاف اب تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پارہی کہ اسے قومی اسمبلی میں صرف پچیس سیٹیں کیوں ملی ہیں۔ خورشید شاہ جن کے خلاف نیب سندھ نے تیس کروڑ روپے کی بدعنوانی کا ریفرنس دائر کر رکھا ہے‘ ان سے مشورہ کیا جا رہا ہے کہ بتائیں چیئرمین نیب کس کو مقرر کیا جائے۔ ہر جگہ خاموشی ہے۔ میرا خیال ہے‘ اب تحریک انصاف کی باری ہے کہ مک مکا کر کے چلے۔ انہیں خیبر پختونخوا میں کچھ نہ کہا جائے اور یہ مرکزی حکومت میں کسی کو کچھ نہ کہیں۔ عمران خان کی پارٹی کو بھی حکومت کرنے کا طریقہ سمجھ میں آتا جا رہا ہے۔ ع خدا جب حسن دیتا ہے‘ نزاکت آہی جاتی ہے ایک ٹی وی پروگرام میں نواز لیگ کے ترجمان نے الزام لگایا کہ میڈیا سوالات اٹھا کر نندی پور پراجیکٹ کو متنازعہ بنا رہا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر سرکار نندی پور سکینڈل پر بات کرنا اسے متنازعہ بنانا سمجھتی ہے تو پھر یہ الزام اسحاق ڈار پر لگنا چاہیے جنہوں نے ستاون ارب روپے کی منظوری دی اور پھر خود ہی تحقیقات شروع کر دیں۔ پھر یہ الزام وزیراعظم پر بھی لگنا چاہیے کہ انہوں نے اسحاق ڈار کی تحقیقات کے باوجود سیکرٹری پلاننگ کو حکم دیا کہ اس سکینڈل کی رپورٹ انہیں پیش کی جائے۔ تحقیقات دراصل اسحاق ڈار اور احسن اقبال کے خلاف تھیں کیونکہ ا حسن اقبال نے پی سی ون دوبارہ بنا کر اس منصوبے کی لاگت بائیس ارب روپے سے ستاون ارب روپے کرنے کی منظوری دی‘ اسحاق ڈار نے ستاون ارب روپے ادا کرنے کی منظوری دی اور اب میاں نواز شریف چاہتے ہیں‘ انہیں بتایا جائے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیا سیکرٹری پلاننگ میں اتنی جرأت ہے کہ وہ اپنے محکمے کے وزیر احسن اقبال اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف رپورٹ دے سکیں؟ کیا وزیروں کے خلاف تحقیقات سیکرٹری کر سکتا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ چین جانے سے پہلے ہوم ورک کیوں نہ کیا گیا تاکہ سبکی نہ ہو۔ اب پلاننگ ڈویژن سے خبریں آرہی ہیں کہ اس منصوبے کی لاگت بڑھ کر 33 ارب روپے ہو سکتی تھی نہ کہ ستاون ارب۔ تو کیا پلاننگ ڈویژن اس وقت سویا ہوا تھا جب یہ منصوبہ احسن اقبال کی زیر صدارت سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے سامنے لایا گیا اور انہوں نے اسے منظور کر لیا اور اسحاق ڈار سے بھی ستاون ارب روپے کی منظوری لے لی۔ اس پورے سکینڈل میں ہم خواجہ آصف کی وزارت پانی و بجلی کو کیوں بھول رہے ہیں جس نے یہ پی سی ون بھیجا تھا اور جس کی بنیاد پر اعداد وشمار میں ہیر پھیر کر کے بائیس سے ستاون ارب روپے کیے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سکینڈل میں نواز حکومت کے تین وزرا پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کیا ان تین وزیروں کے خلاف سیکرٹری پلاننگ وزیراعظم کو آزادانہ رپورٹ دے سکیں گے؟ جب تحقیقات شروع ہوئی تو سابق ایم ڈی پیپکو منور بصیر کو کیوں نہیں بلایا گیا جنہوں نے اس سکینڈل کا انکشاف خط لکھ کر کیا تھا۔ یک طرفہ تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا وہی جو یوسف رضا گیلانی صاحب کے دور میں نکلتا تھا کہ سب اچھا ہے ؟ ایک طرف اربوں کے ہیر پھیر ہو رہے ہیں تو دوسری طرف یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ لندن کے شہری اب پاکستان کے گورنر بنیں گے۔ اگر گستاخی نہ ہو تو کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کہیں ان صاحب کو ان احسانات کے بدلے تو پنجاب نہیں سونپا جارہا جو وہ موجودہ حکمرانوں کی جلاوطنی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ بدخواہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب نواز شریف نے وطن لوٹنا تھا تو انہی موصوف نے جہاز چارٹر کرانے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ اسی طرح لندن کے ایک مشہور ریسٹورنٹ کے مالک جس نے جلاوطنی کے دوران کھانے پینے کا خیال رکھا (میں بھی نواز شریف کے دفتر میں ان کے بھیجے ہوئے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتا رہا ہوں ۔ امید ہے اس کالم کو نمک حرامی نہیں سمجھا جائے گا ) کی سفارش پر ایک صاحب کو نواز شریف نے سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا۔ لگتا ہے یہ جلاوطنی کے دنوں میں کام آنے والے دوستوں کی نوازشات لوٹانے کا موسم ہے۔ اگر نوازشات اور احسانات کا بدلہ دینا تھا تو سینیٹر ظفر علی شاہ بھی اتنے برے نہیں تھے جو بارہ اکتوبر کی بغاوت کے بعد اکیلے نواز شریف کے لیے لڑتے رہے‘ انہی نے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی پارٹی کا اتحاد بنوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور جنرل مشرف کے زیرعتاب رہے تھے۔ درست ہے کہ جلاوطنی کے دنوں کے دوستوں کا پہلا حق بنتا ہے لیکن کچھ مقامی لوگوں کو بھی حصہ دینا چاہیے تاکہ توازن برقرار رہے اور اگر خدانخواستہ پھر کبھی بارہ اکتوبر جیسا بُرا وقت آئے تو یہ لوگ آپ کے ساتھ دوبارہ بھی کھڑے ہوں۔ پورے پانچ سال پڑے ہیں لیکن ابھی سے ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا سکینڈل سامنے آرہا ہے اور وفاقی وزیر سے کم درجے کا فرد ان سکینڈلز کی زد میں نہیں آ رہا۔ حیران ہوں کہ بارہ اکتوبر کی بغاوت کے چودہ برس بعد اقتدار میں آنے پر میرے لندن کے دنوں کے دوستوں کو اپنا نقصان پورا کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے ؟