"RKC" (space) message & send to 7575

غوث علی شاہ کا جہاز پھر چھوٹ گیا!

صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں سے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کا نام نکل گیا ہے اور مجھے ان کے ساتھ لندن میں گزارے ہوئے دن یاد آگئے۔ شاہ جی ایک روایتی سندھی ہیں۔ محبت اور پیار سے بھرے خوبصورت انسان۔ مجھے علم نہیں ہے وہ وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی ایسے ہی اچھے تھے یا پھر جلاوطنی کے دکھ نے انہیں مزید دکھی کر دیا تھا ۔ جب میں ان سے پہلی دفعہ لندن میں ملا تھا تو مجھے ان کے وہ آنسو یاد تھے جو سہراب گوٹھ میں فسادات ہونے پر‘ وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے جھلکے تھے۔ ان فسادات پر وہ بچوں کی طرح رو رہے تھے۔ ہماری قوم ایسے لیڈروں سے خوش ہوتی ہے جو آنسو بہائیں جیسے ایک نگران وزیراعظم ہر جگہ رونے لگ جاتے تھے۔ شاہ جی کی ایک خوبی تھی کہ وہ صبح سویرے ڈیوک اسٹریٹ پہنچ جاتے اور دفتر بند ہونے تک وہیں رہتے۔ شاہ جی کی موجودگی سے وہاں موجود ہجوم میں یہ تاثر بھی ابھرتا کہ میاں نواز شریف سے صرف پنجاب کے لوگ ملنے نہیں آتے بلکہ سندھ بھی ان کے ساتھ ہے۔ یوں ان کا وہاں موجود ہونا لیڈر کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی شو پیس کا کام بھی دیتا تھا۔ شاہ جی اکثر خاموش رہتے۔ اگر کسی نے کوئی بات کہہ دی تو سن لی یا تھوڑی بہت اپنی سنا لی۔ اپنی شخصیت کا سحر برقرار رکھتے تھے۔ ان دنوں وہ نواز شریف اور شہباز شریف کے قریب تھے اور ان کا شمار وفاداروں میں ہوتا تھا۔ لہٰذا ان کی عزت کی جاتی تھی۔ وہ ہمارے جیسے رپورٹرز کو بھی وقت دیتے کیونکہ سب کے پاس وقت ہی وقت ہوتا تھا۔ اپنے پرانے دور کی کہانیاں سناتے۔ کچھ لوگ ان پر شک کرتے کہ انہوں نے جنرل مشرف کی بغاوت کے بعد بعض معاملات میں پوری وفاداری نہیں دکھائی تھی۔ لہٰذا میاں صاحب پورے مطمئن نہیں تھے اور یوں ان کی ذات پر کچھ شکوک موجود تھے۔ ایک دن افسردہ ہو کر شاہ جی نے کہا کہ جب نواز شریف جنرل مشرف سے ڈیل کر کے جدہ چلے گئے تو انہیں اس کی خبر بھی کئی دنوں بعد ہوئی تھی حالانکہ وہ ان کے ساتھ والے سیل میں قید تھے۔ نواز شریف نے انہیں ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی کہ اس طرح کی کوئی ڈیل ہورہی ہے اور شاہ جی جیسا بھولا بادشاہ کئی دنوں تک حیران ہوتا رہا کہ میاں صاحب کدھر چلے گئے۔ آخر کسی کو شاہ جی کے بھولے پن پر ترس آگیا اور انہوں نے بتایا کہ جناب پرندے تو اُڑ گئے۔ وہ تو کب کے لد گئے اور آپ ابھی بھی دسمبر کی اداس شاموں میں جیل کی سلاخوں سے لگے اداس بیٹھے ہیں۔ شاہ جی کے منہ سے بے ساختہ نکلا‘ جدہ جانے والے اتنے بڑے جہاز میں کوئی ایک سیٹ بھی میرے لیے نہ تھی۔ شاہ جی یہ واقعہ اکثر آنے جانے والوں کو سناتے اور جو ان کے جی کے تار چھیڑ دیتا تو پھر شاہ جی پوری کہانی بیان کرتے۔ میں سمجھتا تھا شاید وہ اپنے دل کی بھڑاس ہمارے سامنے نکال لیتے ہیں وگرنہ وہ یہ شکایت کبھی نواز شریف کے منہ پر نہیں کریں گے۔ ایک دن میں نے انہیں چھیڑ دیا ’’شاہ جی کبھی نواز شریف کے منہ پر آپ نے انہیں شکایت کی کہ وہ جدہ جانے والے جہاز پر آپ کو بھی ساتھ لے جاتے‘‘! شاہ جی کو افسوس ہوا کہ میں شاید ان کی بات پر شک کر رہا تھا۔ انہوں نے خاموشی سے اپنا کالا لمبا کوٹ اٹھایا اور دفتر کی سیڑھیاں اتر گئے۔ مجھے دکھ ہوا کہ میں نے غلط بات کہہ دی تھی۔ کچھ دن ان سے ملاقات نہ ہوئی تو میں سمجھا کہ خفا ہوگئے۔ پھر ایک دن دفتر میں نظر آئے۔ نوازشریف بھی آئے ہوئے تھے اور گپ شپ کا ماحول تھا۔ شاہ جی نے میری طرف دیکھا اور نواز شریف سے باتوں باتوں میں کہنے لگے میاں صاحب ایک بات کا دکھ آج تک دل میں ہے۔ نواز شریف چونکے تو غوث علی شاہ نے کہا ’’جناب اتنے بڑے جہاز میں ایک سیٹ ہمارے لیے بھی رکھ لی ہوتی‘ ہم بھی آپ کے ساتھ اللہ کے گھر چلے جاتے اور اس عذاب سے بچ جاتے جو بعد میں بھگتا‘‘۔ نواز شریف نے ان کی طرف دیکھا اور مسکرا کر ٹال گئے۔ شاہ جی کا یہ بات کرنے کا مقصد تھا کہ میں سن لوں کہ وہ یہ بات ان کے منہ پر بھی کر سکتے ہیں اور وہ پیٹھ پیچھے کوئی غیبت نہیں کر رہے تھے۔ شاہ جی کی معصومیت اور سادگی میں کوئی شک تھا تو وہ اس دن دور ہوگیا جب نواز شریف اپنی جلاوطنی ختم کر کے پاکستان لوٹنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ سب رپورٹرز اس کام پر لگے ہوئے تھے کہ پتہ چلایا جائے کہ وہ کس ائرلائن سے پاکستان جائیں گے۔ ہم سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن خبر لیک نہ ہوسکی۔ نواز شریف کیمپ نے تین چار ائرلائنز کو بک کرایا ہوا تھا‘ لہٰذا کچھ پتہ نہیں تھا کہ کس پر جائیں گے۔ آخر میں پی آئی اے پر جا کر انہوں نے سب کو حیران کر دیا کہ کوئی توقع نہیں کرتا تھا کہ وہ سرکاری ائرلائن پر جائیں گے۔ خیر ہم سب کوششیں کر رہے تھے کہ ایک شام ایک ٹی وی چینل پر غوث علی شاہ کا فون بیپر چلنا شروع ہوگیا۔ سب متوجہ ہوئے تو پتہ چلا کہ وہ ایک ائرلائن کے بارے میں کنفرم کر رہے تھے کہ میاں صاحب فلاں ائرلائن پر جائیں گے۔ دفتر میں تھرتھلی مچ گئی۔ سب حیران ہوئے شاہ جی کو کیسے پتہ چل گیا کیونکہ یہ تو ایک راز تھا۔ پتہ چلا کہ شاہ جی اسی دفتر کے ایک کمرے میں بیٹھ کر فون پر ٹی وی کو بیپر دے رہے تھے۔ پوچھا گیا کہ شاہ جی آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میاں صاحب فلاں ائرلائن پر جائیں گے تو انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ ابھی انہوں نے ایک ٹی وی پر ٹکر دیکھا تھا کہ نواز شریف فلاں ائرلائن پر جارہے ہیں تو میں نے وہ پڑھ کر فون پر بیپر دے دیا کہ میاں صاحب اس ائرلائن پر جارہے ہیں۔ پورے دفتر کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوگیا کہ ٹی وی ٹکر سے خبر پڑھ کر ایک خبر کی تصدیق کر دی اور پورے نواز شریف کیمپ کو تقریباً ہارٹ اٹیک ہونے والا تھا کہ خبر کیسے لیک ہوگئی تھی ۔ بعد میں یہ مشہور کرنا پڑا کہ شاہ جی کے بارے میں یہ لطیفہ مشہور کیا گیا تھا وگرنہ انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ وطن واپسی پر بھی شاہ جی نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے اور سندھ کی حد تک ان کی وفاداری نبھائی۔ جنرل مشرف دور میں جیل بھگتی، نواز شریف کے ساتھ لندن میں جلاوطن رہے، انتہائی تنگی کے حالات دیکھے لیکن پھر بھی وفادار رہے۔ پتہ نہیں کون سا وہ دریا اور جنگل ہے جسے وہ عبور نہ کر سکے اور وفاداروں کی فہرست سے نکل گئے۔ سرائیکی کے خوبصورت شاعر رفعت عباس کا شعر یاد آیا ہے ؎ کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ ڈو تے سارے جنگل آسن، ترائے تے سارے دریا شاہ جی نے تو نواز شریف کی محبت اور وفاداری کے نام پر یہ سارے جنگل اور دریا بھی عبور کیے، جیلیں کاٹیں، جلاوطنی بھگتی لیکن جب وقت آیا تو ملک کا صدر بننے کا امتحان پھر بھی پاس نہ کر سکے۔ لگتا ہے ہمارے بھولے شاہ جی تیرہ برس گزرنے کے بعد بھی‘ 2013ء میں زندہ رہتے ہوئے بھی اٹک قلعے میں دس دسمبر 2000ء والے دن کی طرح ابھی تک قید ہیں اور جو جہاز شاہی قیدیوں کو لے کر روانہ ہوا ہے، اس میں پھر ایک دفعہ انہیں سیٹ نہیں مل سکی۔ شاہ جی کا جہاز ایک دفعہ پھر چھوٹ گیا ہے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں