جب بھی Troy فلم شروع ہوتی ہے اور اس کا ایک مخصوص سین قریب آنے لگتا ہے تو میں لاشعوری طور پر خوفزدہ ہو کر ٹی وی لائونج سے اٹھ جاتا ہوں ۔پھر نہ چاہتے ہوئے بھی لوٹ آتا ہوں اور وہی سین دیکھنے بیٹھ جاتا ہوں جس کے خوف سے وہ فلم چھوڑ گیا تھا۔ کئی دفعہ دو فلموں Gladiator اور Troyکے ٹریلرز بھی دیکھے لیکن بڑے عرصے تک نہ دیکھ پایا ۔ میل گبسن کی شہرۂ آفاق فلم Brave Heart دیکھنے کے بعد سوچا تھا کہ اس کا نشہ کچھ برسوں تک میرے سر پر سوار رہے گا۔کچھ عرصے بعد دونوں فلمیں دیکھیں تو افسوس ہوا کہ کیوں دیر کر دی۔ اب یہ فلمیں جب بھی کیبل ٹی وی پر شروع ہوں تو بچے اٹھ جاتے ہیں کہ اب ان کا باپ یہ فلمیں دیکھ کر ہی جائے گا ۔ پتہ نہیں کتنی دفعہ دیکھی ہیں اور ہر دفعہ لگتا ہے کہ پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں۔ تین گھنٹے پر محیط اسTroy فلم کے ایک سین نے مجھے قید کر لیا ہے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ہی مجھے بریڈ پٹ اچھا ہیرو لگنا شروع ہوا۔ یہی وجہ ہے شاید ،کہ اپنی پسندیدہ اداکارہ انجلینا جولی سے اس کی شادی کے باوجود بریڈ پٹ سے حسد محسوس نہیں ہوا کہ وہ ایک ایسے ہی خوبصورت ایکٹر کے قابل تھی۔ 175 ملین ڈالرز بجٹ سے 2004ء میں بننے والی اس فلم نے باکس آفس پر 500 ملین ڈالرز کا بزنس کیا تھا۔ ایک خوبصورت ہیلن کی وجہ سے یونان کی دو ریاستوں سپارٹا اور ٹرائے کے درمیان شروع ہونے والی لڑائی عروج پر تھی۔ سپارٹا ریاست کے جنگجو اپنی عزت کے نام پر ٹرائے کے شہزادے پارس کے ساتھ بھاگنے والی خوبصورت ہیلن کو واپس لانے کے لیے ٹرائے کے گرد گھیرا ڈال چکے تھے۔ اس دوران یونانی بادشاہ اور اس کے جنگجو ایکلیز کے درمیان دشمن ٹرائے کی ایک خوبصورت لڑکی کے معاملے پر لڑائی شروع ہو گئی۔ وہ شہزادی ایک حملے کے دوران پکڑی گئی تھی۔ ایکلیز ٹرائے کی اس خوبصورت شہزادی کی زلفوں کا اسیر ہو گیا تھا تو سپارٹا کا بادشاہ اس شہزادی کو اپنے حرم کی زینت بنانا چاہتا تھا۔ مایوس ایکلیز وطن لوٹنے کے لیے تیار ہوگیا جب کہ یونانیوں کو علم تھا وہ بہادر ایکلیز کے بغیر ٹرائے کو شکست نہیں دے سکتے۔ جس رات ایکلیز نے واپس لوٹنا تھا اس رات ایک چھوٹے سے حملے میں ایکلیز کا چھوٹا کزن ٹرائے کے بوڑھے بادشاہ کے جنگجو بیٹے ہیکٹر کے ہاتھوں مارا گیا ۔ ہیکٹر کا خیال تھا کہ مرنے والا ایکلیز تھا۔ اسے خود بھی اس بچے کو مارنے پر شدید دکھ تھا ۔ اپنے چھوٹے کزن کی موت کا سن کر ایکلیز نے جو اپنے بادشاہ سے ناراض ہو کر واپس لوٹنا چاہ رہا تھا، رکنے کا فیصلہ کر لیا کہ وہ بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائے گا۔ انتقام سے بھرپور ایکلیز اکیلا اپنے گھوڑے کے رتھ پر سوار ہو کر ٹرائے کے قلعے کی طرف چل پڑا ۔ وہاں سے اس نے ہیکڑ کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ مرد کے بچے ہو تو آئو اور مقابلہ کرو۔ ٹرائے کے سپاہی اس پر تیر برسانے کے لیے اپنی کمانیں سیدھی کرنے لگے تو ہیکٹر نے انہیں روک دیا حالانکہ اس کو پتہ تھا کہ ایکلیز اس کی مو ت کا فرشتہ بن کر آیا تھا ۔ قلعے کی طویل فصیلوں پر سے اپنے دشمن کی للکاریں سن کر ہیکٹر نے چند لمحوں میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں گھر آئے یونانی جنگجو کو اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں مروا کر خود زندہ رہنا تھا یا پھر اس نے اپنے بوڑھے باپ، روتی بیوی، بھائی اور فوج جس کا وہ کمانڈر تھا ، ان سب کے سامنے خود ایک بہادر کی طرح موت کو گلے لگانا تھا ۔ انسانی تاریخ میں بہادروں کی کچھ روایات ہوتی ہیں چاہے انہیں اپنی موت کا نذرانہ دے کر بھی پورا کیوں نہ کرنا پڑے ۔ انہی انسانی روایتوں کا امین جنگجو ہیکٹر ان روایات کو اب اپنی موت کو سامنے دیکھ کر بھی نبھانے کے لیے تیار ہوگیا تھا ۔ ہیکٹر اور ایکلیز کی لڑائی شروع گئی تھی۔ قلعوں کی دیواروں سے ہیکٹر کی بے بس بیوی اپنے نوزائیدہ بچے کو سنبھالنے کی کوششوں میں مصروف ، باپ، بھائی اور پوری فوج سانس روکے دو جنگجوئوں کی یہ لڑائی دیکھ رہی تھی۔ یونان کے ان دو عظیم جنگجوئوں میں سے صرف ایک نے زندہ رہنا تھا۔ لڑائی سے پہلے ہیکٹر نے ایکلیز کو ایک معاہدے کی پیشکش کی کہ جو بھی مارا جائے گا وہ اپنے دشمن کو دفنانے کی رسومات کی اجازت دے گا۔ اپنے کزن کے قاتل کو سامنے دیکھ کر ایکلیز بولا… بھول جائو… کیونکہ There are no pacts between lions and men دو جنگجوئوں کے درمیان لڑائی شروع ہوچکی تھی۔ ہیکٹر ایک پتھر کی ٹھوکر کھا کر گر پڑا تو ایکلیز نے اپنی تلوار روک لی اور بولا: ہیکٹر‘ کھڑے ہوجائو میں ایک پتھر کو اپنی فتح کا کریڈٹ نہیں لینے دوں گا‘‘۔ ایکلیز نے ہیکٹر کو قتل کیا اور اس کی لاش اپنے رتھ کے پیچھے رسی سے باندھ کر اس کے بوڑھے باپ، نوجوان بیوہ ، بھائی اور پوری فوج کے سامنے گھسیٹ کر لے گیا کہ یونانی روایات کا یہی تقاضا تھا۔ جیسے ہیکٹر نے بہادروں کی روایات کو نبھایا تھا اس طرح ایک بے بس بوڑھا باپ آنسوئوں کے ساتھ اپنے بادشاہ بننے کی قیمت ادا کرتا رہا۔ اپنی فوج میں واپس پہنچ کر ایکلیز نے ہیکٹر کی لاش اپنے خیمے کے باہر رکھ دی۔ اندر خیمے میں ہیکٹر کی کزن جس کی محبت میں وہ گرفتار ہوچکا تھا ، بیٹھی رو رہی تھی۔وہ شہزادی اپنے کزن کی لاش دیکھ کر بولی: ایکلیز میرے کزن نے تمہارے کزن کو مارا تھا اور اب تم نے میرے کزن کو مار ڈالا ہے۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ ایکلیز نے سر اٹھایا اور اپنی روتی محبوبہ کو دیکھ کر ایک عجیب سی اداسی سے بولا \"It never ends\" اس وقت رات کے اندھیرے میں ایک نقاب پوش بوڑھا خیمے میں داخل ہوا ۔ اس نے حیران ایکلیز کے ہاتھ چومے۔ ایکلیز کے پوچھنے پر اس نے نقاب ہٹایا اور اسے بتایا وہ بدنصیب باپ ہے جس نے ابھی اپنے بیٹے کے قاتل کے ہاتھوں کو چوما ہے۔ ایکلیز بولا: میرے دشمن بادشاہ آپ کو ڈر نہیں لگا کہ آپ یہاں سے اب زندہ نہیں لوٹ سکیں گے۔ بوڑھا باپ بولا: جس باپ نے اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا ہو اور اس کی لاش گھسیٹ کر رتھ پر جاتے دیکھی ہواسے اب موت سے کیا ڈر لگے گا۔ بوڑھے بادشاہ نے ایکلیز کو بتایا وہ اس کے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا جو وقت سے پہلے مر گیا تھا اور بولا تمہارا باپ خوش قسمت تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو اس کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے نہیں دیکھا ۔ ایکلیز بولا وہ اس کے بیٹے کی لاش واپس کر بھی دے تو کیا فرق پڑے گا کیونکہ وہ صبح پھر ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ بوڑھے باپ نے جواب دیا تم صبح کی بات کرتے ہو، ہم تو اس اندھیری رات میں بھی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ لیکن دشمن بھی تو ایک دوسرے کو عزت دے سکتے ہیں ! بوڑھا باپ بولا‘ مجھے اپنے بیٹے کی رسومات ادا کرنے دو۔ جو ملاح کشتی میں اس کے بیٹے کی لاش دیوتائوں کے پاس لے کر جائے گا ، اس کی مزدوری کے دو سکے اسے اپنے بیٹے کی ہمیشہ کے لیے خاموش دونوں آنکھوں میں رکھنے دو۔ ایکلیز نے یہ سن کر اپنا سر اٹھایا اور ایک بوڑھے باپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور خیمے کے باہر اس بہادر جنگجو ہیکٹر کی پڑی لاش کو لپٹ کر رونے لگ گیا جسے اس نے کچھ دیر پہلے خود اپنے خنجر سے قتل کیا تھا ۔ پتہ نہیں میں نے یہ فلم کتنی دفعہ دیکھی ہے اور ہر دفعہ مجھ سے یہ سین نہیں دیکھا جاتا ۔ برسوں سے اس سین سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہوں اور ہر دفعہ گر پڑتا ہوں اورپھر دیکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ صدیوں سے انسانوں کے ہاتھوں اپنے جیسے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کٹتے دیکھ کر اپنے بہادر کزن ہیکٹر کے قاتل اور اپنے ہم وطنوں کے دشمن کی محبت میں گرفتار ٹرائے کی اس خوبصورت شہزادی کا ایکلیز سے پوچھا گیا وہ دکھ بھرا معصوم سوال مجھے ہر اداس اور بھیگی رات سونے نہیں دیتا کہ یہ انسانی خون بہنا کب ختم ہو گا اور ایکلیز جیسا ایک بے بس جنگجو جواب دیتا ہے : \"It never ends\"