موبائل فون پر ایک پیغام نمودار ہوا۔ صرف اتنا لکھا ہوا تھا۔ حسینہ بی بی کی موت ہوگئی ہے۔ آپ کا اور ان کا شکریہ جنہوں نے ہماری مدد کی۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ مجھے سنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔مجھے امید تھی کہ وہ بچ جائے گی۔ امید بھی ڈاکٹروں نے دلوائی دی تھی۔ شوکت خانم ہسپتال کے ایک مہربان نوجوان نے حسینہ بی بی پر کالم پڑھ کر بڑی مدد کی تھی اور انہیں لاہور میں کوئی تکلیف نہیں ہونے دی تھی۔ اس نے سب کچھ ذاتی حیثیت میں کیا تھا اور جواب میں اتنی فرمائش کی تھی کہ میں اپنی تین کتابیں ’’ایک قتل جو نہ ہوسکا، ایک سیاست کئی کہانیاں اور آخر کیوں‘‘ اپنے دستخطوں سے انہیں بھیج دوں تو ان کا شکریہ ادا ہوجائے گا۔میں اتنا کاہل یا ناشکرا نکلا کہ اتنی سی فرمائش بھی پوری نہ کر سکا اور اس نوجوان نے پھر بھی کوئی گلہ نہ کیا ۔ اس کے پاس شوکت خانم ایک اور مریض بھیجا تو بھی اس کی اتنے ہی دل و جان سے خدمت کی۔ حسینہ بی بی کے پانچ بچے ماں جیسی نعمت سے محروم ہوچکے۔ انہیں مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ دیہاتی علاقوں میں سمجھا جاتا ہے کہ جینا مرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اگر کوئی ساتھ دیتا ہے تو اس کی مہربانی۔ میرے گائوں کے اس غریب خاندان نے اپنا سب کچھ بیچ کر ایک ماں کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ ہمارے ہاں تو لڑکی کو روٹی بھی بعد میں ملتی ہے کہ پہلے بیٹا کھائے گا ۔ سکول بھی لڑکی اس وقت جاتی تھی اگر بیٹے کے بعد کوئی گنجائش نکلتی تھی۔ اللہ بھلا کرے ہمارے لیہ کے ڈاکٹر مہر لیاقت علی کا جنہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں لٹریسی کمشن کا چیئرمین بننے کے بعد جہاں ہزاروں نان فارمل سکول ملک میں قائم کیے وہیں لیہ میں بھی پانچ سو سے زیادہ ایسے سکول بنا دیے اور میٹرک پاس لڑکیوں کو ایک ہزار روپے پر بچوں کو پڑھانے کے لیے نوکری مل گئی۔ گائوں کی ان میٹرک پاس بچیوں نے اپنے گھروں میں سکول چلانے کے لیے علاقے کے غریب گھروں میں جا جا کر ان بچیوں کو اپنے سکول میں داخل کیا وگرنہ خطرہ تھا کہ سکول بند ہوجائے گا اور آمدن ختم ہو جائے گی۔ یوں سکول میںتعداد پوری کرنے کا مقابلہ ہوا۔ اس کے بعد اب پورے علاقے میں ہرلڑکی پڑھتی نظر آتی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ پانچویں جماعت کے بعد شروع ہوتا ہے کہ اب غریب کیسے بچی پڑھائے۔ مہر لیاقت کے بعد جو حشر نان فارمل سکولوں کا ہوا ہے وہ اپنی جگہ ایک بربادی کی کہانی ہے۔ کسی کو علم نہیں ہے کہ ان سکولوں کا کیا بنا۔ نواز شریف حکومت کا ایک اچھا کام تھا جو بعد میں صوبوں کے حوالے کیا گیا اور پھر لوٹ مار شروع ہوئی۔ جو پڑھے لکھے تھے وہ ان پڑھوں کے حصے کی تعلیم اور مال دونوں کھا گئے۔ حسینہ بی بی کے بچوں کا ذکر آیا۔ بتایا گیا سکول میں پڑھتے ہیں۔ اب کیا کریں گے۔ خاموشی رہی۔ جو اللہ کی مرضی۔ کچھ نہ کچھ تو ہو کر رہے گا۔ گائوں میں ماںباپ سے محروم ہونے والے بچوں کو ابھی بھی کوئی چاچی، ماسی، مامی کھانا دے دیتی ہے۔ کوئی آتے جاتے سر پر ہاتھ بھی رکھ دیتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ماں نہ رہے تو گھر اجڑ جاتا ہے۔ بابا کی موت اس وقت ہوئی جب میں دس برس کا تھا اور اماں کی موت کے وقت عمر بیس برس تھی۔ بابا کے بعد ہمارا گھر بچ گیا تھا کیونکہ اماں نے سب کو سنبھال لیا تھا ۔ اگر اماں پہلے مرجاتی تو شاید بابا سے گھر اور بچے نہ سنبھل سکتے۔ باپ گھر پر کتنی دیر ٹک سکتا ہے۔ وہ بچوں کے لیے روزی کمائے یا پھر گھر بیٹھ کر ان کا خیال رکھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ حسینہ بی بی کے بعد ان بچوں کا باپ ان کے لیے سوتیلی ماں لائے گا یا پھر بچوں کے نام پر قربانی دے گا۔ اس ٹیکسٹ میسیج کے دکھ سے نکلا تو اپنے گائوں کی قریبی بستی سے ایک اور پیغام تھا کہ اب کی دفعہ ایک اور باپ کے کینسر کا علاج جاری تھا ۔ اسے بھی شوکت خانم بھیجا تھا اور اسی مہربان نے پھر دل و جان سے اس کی اپنی حیثیت میں مدد کی تھی۔ اب اسے ملتان سے ہر ماہ تیس ہزار مالیت کا ایک انجکشن لگتا ہے۔ امریکہ میں رہنے والے انسان دوست اعجاز صاحب نے اس کا بندوبست کر دیا ہے۔ لاہور سے ایک اور مہربان نے بھی مدد کی۔ یوں کام چل پڑا۔ گائوں میں کوئی نہ کوئی مسئلہ چلتا رہتا ہے۔ اب سوچا ہے اپنے مرحوم بھائی نعیم کی ملنے والی سرکاری گریجویٹی کے پیسے اور ان کی خاندانی زمین سے حصہ کو مستقل ان لوگوں کے لیے وقف کر دوں اور خود مجھے تین کتابوں کی رائلٹی ملتی ہے وہ وہیں خرچ کروں۔ غربت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ کوئی حل کہیں سے نظر نہیں آتا ۔ معذور بچوں کی برطرف کی گئی استانیوں کے بارے میں لکھا‘ تو کہیں سے کچھ نہیں ہوا۔ اب ایک لاکھ سے زیادہ ایڈہاک نوکریوں کو مستقل کیا جارہا ہے لیکن لیہ، ڈیرہ غازی خان کے ان خصوصی بچوں کے لیے کوئی فنڈز نہیں ہیں اور نہ ہی نوکری پکی ہوسکتی ہے۔ ہر روز مجھے معذور بچوں کے سکول سے استادوں کے پیغام ملتے ہیں کہ انہیں پکا کیا جائے۔ کیسے کیا جائے ؟ جب سابق چیف سیکرٹری پنجاب ناصر کھوسہ اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے شہر ڈیرہ غازی خان کی استانیوں کو یہ کہہ کر برطرف کرنے کی سمری تیار کریں گے کہ لاہور کے پاس کوئی فنڈز نہیں ہیں تو پھر کیا رونا۔ انگلش ڈرامہ نگار کرسٹوفر مارلو کا ڈرامہ ڈاکٹر فاسٹس یاد آتا ہے کہ کیسے ایک انسان اپنی روح کا سودا شیطان سے کرتا ہے اور بدلے میں کیا کچھ پاتا ہے۔ اب کھوسہ صاحب نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری لگے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ورلڈ بنک میں ملازمت مل گئی ہے۔ کھوسہ صاحب پھر کیوں نہ ڈیرہ کی لڑکیوں کو برطرف کرتے۔ ہمارے سرائیکی علاقوں کی لیڈرشپ اور بیوروکریسی نے بھی لاہور میں اپنی روحوں کا سودا کر رکھا ہے۔ اپنے ایک روپے کے فائدے اور پوسٹنگ کے لیے پورے علاقے کو بیچ ڈالا ہے۔ پنجاب کو اس سال این ایف سی سے 700 ارب روپے نقد ملے ہیں۔ کوئی بتائے گا کہ کتنے ارب روپے شمالی پنجاب یا جنوبی پنجاب کو صوبائی بجٹ میں ملے ہیں ؟ سب لاہور اور گرد و نواح میں خرچ ہورہا ہے۔ ہر سرائیکی نوجوان مجھے ای میل کر کے اپنی غربت اور بیروزگاری کا دکھڑا سناتا ہے اور آخر پر مجھے ہی برا بھلا کہہ کر چپ ہوجاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اب مغرور ہوگیا ہوں اور ان کی مدد نہیں کرتا ۔ کس در پر جائوں اور فریاد کروں کہ سرائیکی علاقوں کی غربت بڑھ رہی ہے اور شہباز شریف فرماتے ہیں کہ سرائیکی صوبے کا نعرہ ایک ناٹک تھا لہٰذا ان کی پارٹی کو وہاں سے ووٹ ملے ہیں۔ پھر کیا کریں جو چودہ آزاد ایم این ایز اور تیس سے زیادہ ایم پی ایز جیتے ہیں وہ بھی نواز لیگ سے جا ملے ہیں۔ اگر ناٹک تھا تو پھر اپنے منشور میں کیوں لکھا تھا کہ اقتدار میں آکر جنوبی پنجاب میں دو صوبے بنائیں گے ۔ لوگوں نے یقین کر لیا اور اب فرماتے ہیں کہ سرائیکی صوبہ ایک ناٹک تھا۔ مطلب ہے کہ ہمیں ووٹ ملنے سے سرائیکی صوبہ کا نعرہ ختم ہوگیا ہے تو پھر اپنے منشور کو ضائع کردیں جس میں الیکشن سے پہلے دو صوبے بنانے کا نعرہ لکھا گیا تھا۔ اگر سرائیکی صوبہ بنتا ہے اور اسے وفاقی سطح پر دس فیصد نوکریوں میں کوٹہ ملے اور اس کے تیرہ اضلاع کو 700 ارب روپے میں سے 100 ارب روپے بھی این ایف سی میں مل جائیں تو اس علاقے کی قسمت بدل جائے گی۔ اب سیلاب سرائیکی علاقوں کو مزید برباد اور غریب کر گیا ہے اور کہیں سے کوئی آواز نہیں ہے۔ نوجوان شعیب میرے علاقے کا ہے اور اس کے غریب استاد باپ نے پانچ بچوں کو یونیورسٹی تک پڑھایا ہے۔ اب وہ عرصے سے اسلام آباد میں ہے اور روزانہ میرے پاس اس امید پر چکر لگاتا ہے کہ میں نوکری ڈھونڈ دوں۔ میں چائے اور بسکٹ اور چند نئی امیدوں کے چراغ جلا کر اسے رخصت کر دیتا ہوں کہ مجھے علم ہے میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا ! حسینہ بی بی نے مرنا تھا مرگئی۔ سوچ رہا ہوں کہ میں بھی اس عذاب سے جان چھڑائوں اور مارلو کے کردار ڈاکٹر فاسٹس کی طرح اپنی روح کا سودا کر لوں جیسے ہمارے سرائیکی علاقے کے لیڈروں اور بیوروکریٹس نے کر رکھا ہے!