اسی عذاب سے دوچار ہوں جو جواہر لعل نہرو نے اپنی آپ بیتی لکھتے وقت محسوس کیا تھا… کہ کیا کریں‘ اپنے بارے میں لکھتے ہیں تو پڑھنے والے کا دل دکھتا ہے اور اگر نہیں لکھتے تو اپنا دل دکھتا ہے۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی وجہ سے پاکستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لوگ اب سب سے پہلے صحافی کو نشانہ بناتے ہیں۔ کوئی سکینڈل لائیں تو فرماتے ہیں آپ کو صرف یہ نظر آتا ہے، باقی کیوں نہیں ۔ کسی پر ’’کمنٹ‘‘ کریں تو کہا جاتا ہے کہ فلاں سے لفافہ پکڑ لیا ہے۔ کسی سے مل لیں تو الزامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک ہر کوئی بکا ہوا ہے اور ہر ایک اپنی قیمت کی تلاش میں ہے۔ اب تو صحافیوں کو قانونی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ اپنے دفتر کی طرف سے بھی وزیراعظم کے ساتھ دورے پر جائے تو اُسے بکا ہوا سمجھا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو ایک سپاہی کے خلاف کوئی بات اُس کے منہ پر کہنے کی جرأت نہیں رکھتے وہ صحافی سے توقع کرتے ہیں کہ وزیراعظم پر بندوق چلادے۔ میڈیا نے ہی لوگوں میں شعور پیدا کیا اور اب وہی سب سے زیادہ گالیاں سُن رہا ہے۔ مجھے پہلی دفعہ گالیاں کھانے کا تجربہ اس وقت ہوا جب اسلام آباد میں 2006ء میں جی 14-میں ایک نیا سیکٹر کھلا اور دس ہزار پلاٹوں کے لیے اشتہار اخبار میں آیا جن کے لیے ہر شخص درخواست دے سکتا تھا۔ صحافیوں کے لیے دو فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ ایک ہزار سے زیادہ صحافیوں نے درخواستیں دیں۔ حکومتی اور سینئر صحافیوں کی کمیٹی نے تین ماہ بعد چھان بین کے بعد172 صحافیوں کی فہرست تیار کی جو ان کے مطابق اشتہار میں دیے گئے معیار پر پورتے اترتے تھے۔ یہ فہرست وزیراعظم شوکت عزیز کے پاس گئی تو انہوں نے پندرہ صحافیوں کے نام اس بنا پر کاٹ دیے کہ حکومت کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ یہ پندرہ صحافی عدالت چلے گئے۔ میں نے نواز لیگ کے سینیٹر ظفر علی شاہ کو وکیل کیا اور راولپنڈی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا۔ تین برس بعد فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ پلاٹ کی پچیس لاکھ روپے قیمت ادا کردی۔ جی14- ٹو سیکٹر میں ترقیاتی کام کی رفتار کا عالم یہ ہے کہ اسے ڈویلپ ہونے میں دس برس لگیں گے لیکن گالیاں پہلے ہی کھا لی ہیں اور آج تک وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ ایک دن وزیراعظم کے پریس سیکرٹری شبیر انور‘ جو آج کل لندن میں منسٹر پریس ہیں‘ کا فون آیا کہ آپ کو سعودی حکومت کی طرف سے ایک گھڑی تحفہ میںملی تھی‘ وہ جمع کرادیں اور اگر اپنے پاس رکھنی ہے تو اس کی ایک مخصوص قیمت ادا کردیں۔ اس دوران کابینہ ڈویژن سے محمد اجمل خان (سیکشن افسر ٹی کے) کی طرف سے یکم اکتوبر 2011ء کو ایک خط ملا جس کا نمبر Cab. Div. U.O.NO 9/7/2008-tk تھا ۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ آپ کو ایک گھڑی ملی تھی جس کی مارکیٹ قیمت ایک لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔ قانون کے تحت آپ 16500 جمع کرادیں اور گھڑی رکھ لیں۔ میں نے وہ شاندار گھڑی اٹھائی اور انتہائی ایماندار افسر عبدالرئوف چوہدری سے جو اس وقت کابینہ ڈویژن کے سیکرٹری تھے، ملا اور کہا اسے توشہ خانہ میں جمع کرانا ہے۔ وہ بولے آپ قانون کے مطابق دس فیصد رقم دے کر گھڑی رکھ سکتے ہیں۔ میں نے کہا چوہدری صاحب‘ اس ملک کا قانون شاید صحافیوں کے لیے نہیں ہے۔ ویسے بھی میں اس قانون کے خلاف ہوں جس کے تحت آپ لاکھوں روپے کی چیز دس فیصد پر گھر لے جائیں۔ میں نے کہا باقاعدہ اشتہار آیا، اپلائی کیا، پیسے جمع کرائے، عدالتوں میں تین سال کیس لڑا، فیصلہ حق میں ہوا لیکن آج تک پلاٹ کے طعنے ملتے ہیں اور یہ تو گھڑی ہے۔ مجھے علم ہے کل کلاں یہ فہرست بھی قومی اسمبلی میں پیش ہوسکتی ہے۔ میں خود یہ کہانیاں لکھتا ہوں اور ابھی حال ہی میں جنرل مشرف اور شوکت عزیز کے پندرہ سو تحائف کی خبر بریک کی تھی جن کی مالیت پچاس کروڑ روپے سے زیادہ تھی۔ اب میرا نام بھی اس فہرست میں ہوگا کہ اُس نے ساڑھے سولہ ہزار روپے دے کر ایک لاکھ بیس ہزار روپے کی گھڑی رکھ لی تھی۔ اس لیے بہتر ہے کہ میں اسے توشہ خانہ میں جمع کرادوں کیونکہ یہ گھڑی مجھے سعودی حکومت نے میری وجہ سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی وجہ سے دی تھی۔ عبدالرئوف چوہدری نے کچھ دیر مجھے سمجھانے کی کوشش کی لیکن میرا موقف سن کر چپ ہوگئے اور متعلقہ افسران سے کہا کہ گھڑی جمع کر کے انہیں رسید جاری کر دیں۔ بیس دن بعد مجھے گھر پر ایک سرکاری خط ملا جس کا نمبر وہی تھا جو پہلے خط کا تھا۔ سرکاری خط لکھنے والے بھی وہی سیکشن افسر محمد اجمل خان ہی تھے۔ اس خط میں انہوں نے لکھا کہ آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے آپ کو جو گھڑی سعودی عرب حکومت نے پیش کی تھی وہ ہم نے توشہ خانہ میں جمع کر دی ہے اور اس کا رسید نمبر TSR 2393 ۔ اس کے ساتھ ہم آپ کو ایک پرنٹ رسید نمبر 644 بھی بھیج رہے ہیں جو آپ کے ریکارڈ اور اطلاع کے لیے ہے۔ میں نے بیوی سے کہا یہ رسید کسی ایسی جگہ رکھ لو جہاں سے یہ گم نہ ہو۔ اب دو برس بعد میں نے کوشش کر کے ایک غیرمعمولی فہرست کابینہ ڈویژن سے نکلوائی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پچیس برسوں میں صدورِ پاکستان، وزرائے اعظم، وزرا، بیوروکریٹس اور فوجی افسران وغیرہ کو کیا کیا تحفے ملے تھے اور کون کون گھر لے گیا تھا اور ان کی مالیت کیا بنتی تھی۔ سینکڑوں صفحات کی اس فہرست میں سب تفصیلات موجود ہیں۔ نواز شریف، بینظیر بھٹو، جمالی، چوہدری شجاعت ، شوکت عزیز، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور صدور میں غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، رفیق تارڑر، جنرل مشرف اور اب صدر زرداری کو کتنی مالیت کے تحفے ملے اور کس نے جمع کرائے اور کون گھر لے گیا ۔ ہوش اڑا دینے والی تفصیلات پڑھتے پڑھتے اپنا نام اس فہرست میں دیکھا تو ایک جھٹکا سا لگا کہ رئوف کلاسرا کو سعودی عرب کی حکومت نے گھڑی دی جس کی مالیت ایک لاکھ بیس ہزار روپے تھی اور انہوں نے سولہ ہزار پانچ سو روپے جمع کرا کے گھڑی اپنے پاس رکھ لی۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ واقعی یہ میرا نام ہے۔ سینکڑوں صفحات کھنگال ڈالے‘ کہیں نہ لکھا پایا کہ کسی کو گھڑی ملی ہو اور اس نے توشہ خانہ میں جمع کرائی ہو ۔ میں اکیلا تھا جس نے گھڑی جمع کرائی لیکن پھر بھی لکھا تھا کہ وہ گھر لے گئے۔ وزارت داخلہ میں ایک دوست کو بتایا تو وہ ہنس پڑا اور اپنا واقعہ سنایا کہ جب وہ خود کابینہ ڈویژن میں تھے تو ایک گھڑی دیکھی جس کی سوئی نہیں چل رہی تھی۔ انچارج کو کہا جب اس کی نیلامی ہونے لگے تو بتانا وہ خریدنا چاہتے ہیں۔ چند دنوں بعد پتہ چلا کہ وہ گھڑی غائب ہوگئی ہے۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ گھڑی خراب تھی، ہم نے پھینک دی۔ کہنے لگا کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی قیمتی گھڑی پھینک دی جائے ؟ یہی کچھ اس گھڑی کے ساتھ ہوا۔ کابینہ کے کسی افسر کو وہ گھڑی پسند آگئی۔ اپنے سٹاف سے کہا یہ لو سولہ ہزار پانچ سو روپے، رئوف کلاسرا کے نام پر جمع کرائو اور گھڑی مجھے لا دو۔ اسے کہاں خبر ہونی ہے! اب میرے پاس وہ تمام سرکاری رسیدیں اور خط موجود ہے جو کابینہ ڈویژن نے جاری کیے اور وہ دستاویز بھی ہے جس میں لکھا ہے کہ رئوف کلاسرا نے گھڑی پیسے دے کر رکھ لی تھی۔ سوچ رہا ہوں‘ اس سکینڈل کا کیا کروں؟ تھانہ سیکرٹریٹ میں کابینہ ڈویژن کے افسران کے خلاف مقدمہ درج کرائوں؟ ڈی جی ایف آئی اے کو ملوں، نیب میں درخواست دوں یا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائوں یا رئوف چوہدری صاحب سے ملوں کہ آپ اس وقت سیکرٹری تھے اور اب وفاقی ٹیکس محتسب ہیں‘ آپ ہی کچھ کریں‘ وہ گھڑی برآمد کرائیں اور ملزم کو تلاش کریں۔