یاد پڑتا ہے میں نے 2002ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل سیاسی رپورٹنگ شروع کی تھی اور صرف چھ برس بعد میرا سیاستدانوں سے ایمان اٹھنا شروع ہوگیا تھا ۔ ایک دور تھا میںاپوزیشن کے سیاستدانوں سے ملنا ایک اعزاز سمجھتا تھا کہ کتنے اچھے لوگ ہیں‘ کتنا ملک کا درد رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں بیٹھنا اور باتیں کرنا ایک رومانس کی طرح لگتا ۔ جنرل مشرف دور میں ق لیگ کی حکومت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کی دیر تھی کہ رومانس ختم ہونا شروع ہوگیا۔ میں جن کی عزت کرتا تھا پتہ چلا کہ ان کے لیے وزیراعظم یا وزیر بننا باعث عزت نہیں تھا بلکہ کرسی پر بیٹھ کر مال کمانا زیادہ اہم تھا۔ عزت تو آتی جاتی رہتی ہے، اقتدار بھلا روز روز تھوڑی ملتا ہے۔ اور تو ا ور محمود خان اچکزئی کو بھی موقع ملا تو اپنے بھائی کو ہی گورنر بلوچستان لگوایا اور خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ ہمیشہ پنجابی قیادت اور پنجابی میڈیا کو طعنے دینے والے لیڈر رائے ونڈ پنجاب سے ہی بھائی کو گورنر لگوا کر اپنے وطن لوٹے۔ نواز لیگ کی حکومت کے آنے پر تو سارا رومانس دھڑام سے نیچے آ گرا۔ دونوں شریف بھائیوں نے اپنی لندن کی جذباتی تقریروں اور وعدوں کا جو حشر پاکستان لوٹ کر کیا اس سے انتہائی مایوسی ہوئی۔ کرپشن کے نت نئے سکینڈلز فائل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی سیاستدان صرف کرپشن کرنے آتے ہیں اور بیوروکریسی کھل کر ان کے ساتھ لوٹ مار کرتی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی لمبی تقریریں سن سن کر میں آئیڈیلزم کی دنیا میں رہنے لگ گیا تھا ۔ لگتا تھا نواز لیگ آئے گی اور احتساب شروع ہوگا ۔ جنہوں نے لُوٹا ہے ان سب کو لٹکایا جائے گا ۔ پتہ چلا کہ دوسروں کو لٹکانے والے خود نوٹوں سے لٹک گئے۔ ایک ہی ہلے میں وہ وہ کام کیے گئے کہ لوگ تین ماہ میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں ہونے والے کرپشن اور نااہلی کے دنگلوں کو بھول گئے۔ پیپلز پارٹی نے ق لیگ حکومت کی کرپشن کو کور اَپ کیا تو اب نواز شریف کی حکومت پیپلز پارٹی کی کرپشن کو کور کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ عمران خان کی پارٹی بھی اس نیک کام میں پیچھے نہیں رہی۔ اس نے بھی اپنے صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی کے دور میں ہونے والی لوٹ مار کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔ کرپشن اور انصاف کے نعرے پر اقتدار میں آنے والی عمران خان کی پارٹی نے کبھی بھول کر بھی ہمیں نہیں بتایا کہ امیر حیدر خان ہوتی کے خاندان نے چار ارب روپے کے اسلحہ سکینڈل میں جو ایک ارب روپے کا کمشن کھایا تھا، اس کیس کا کیا بنا۔ ایک بات پر اتفاق ہے کہ جو کچھ لوٹ سکتے ہو لوٹ لو، آپ کی باری پر ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے اور آپ نے ہمیں کچھ نہیں کہنا ۔ کیا کرپشن پر چپ رہنا کرپشن کی مدد کرنے کے مترادف نہیں؟ اس خاموشی کا مطلب کہیں یہ تو نہیں کہ پی ٹی آئی کو بھی کوراپ اور مک مکا سیاست کا طریقہ سمجھ میں آرہا ہے۔ وہ کیوں اے این پی کو ناراض کریں کہ کل کلاں اگر اے این پی دوبارہ اقتدار میں آگئی تو وہ تحریک انصاف کی فائلیں لے کر بیٹھ جائے گی۔ بلاشبہ دنیا بھر میں سیاست اقتدار، طاقت اور تھوڑی بہت کرپشن کے لیے کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں تو سیاست صرف اور صرف کرپشن کے لیے ہی کی جاتی ہے۔ جس رفتار سے ہمارا معاشرہ کرپٹ ہوا ہے، میں حیران ہوتا ہوں کہ اب باقی بچا ہی کیا ہے جس سے امیدیں باندھی جائیں ۔ اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ہمارے اندر اتنی حرص، لالچ اور لوٹ مار کیسے آگئی ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ ہمارا ملک ہی نہیں ہے۔ ہم کسی اور خطے کی مخلوق ہیں اور کچھ ہی دنوں کے لیے اس ملک پر قابض ہوئے ہیں؛ چنانچہ واپس جانے سے پہلے جو کچھ ملتا ہے لوٹ لو۔ ہر آنے والا یہ سوچ کر حکمرانی کر رہا ہے کہ کوئی اور آئے گا اور وہ اس ملک کے معاملات درست کرے گا ۔ پیپلز پارٹی نے یہی کچھ کیا اور اب موجودہ بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو شرائط طے کی ہیں انہیں کو پڑھ کر ہی کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ ان شرائط کے بعد لاکھوں نہیں تو ہزاروں یقینا بیروزگار ہونے والے ہیں۔ ہم پریشان ہورہے تھے کہ ڈالر کیسے راتوں رات بارہ روپے اوپر چلا گیا۔ دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ شرط تو ڈار صاحب یکم جولائی کو مان چکے تھے کہ اگلے ڈیڑھ ماہ تک اسٹیٹ بنک آف پاکستان مارکیٹ سے خفیہ طورپر ایک سو پچیس ملین ڈالرز خریدے گا تاکہ مارکیٹ میں ڈالر شارٹ ہو اور اس کی قیمت بڑھ جائے۔ کئی صفحات پر مشتمل یہ شرائط پڑھ لیں تو لگتا ہے کہ اس ملک کا سودا ہوگیا ہے۔ ایک طرف ڈالرز آرہے ہیں اور دوسری طرف جا بھی اسی رفتار سے رہے ہیں۔ ہم خود ڈالرز کمانے کے قابل نہیں رہ گئے کیونکہ ہر سیکٹر اب حکومت سے رعایت چاہتا ہے۔ اسے سبسڈی کی ضرورت ہے۔ کوئی کاروباری ادارہ اپنا مال پاکستان سے باہر اس وقت تک فروخت کرنے کے قابل نہیں رہا جب تک اسے اربوں روپے کی سبسڈی نہ دی جائے۔ سب سے زیادہ مال شوگر ملز مالکان نے کمایا ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں چینی کی قیمت اوپر لے جاتے ہیں اور جب نیچے آتی ہے تو حکومت سے ایکسپورٹ کے نام پر اربوں روپے سبسڈی لے لیتے ہیں۔ دو اکتوبر کو کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ یہ شوگر ملز مالکان کسانوں کے دو ارب روپے کے واجبات دبا کر بیٹھے ہیں۔ جب ان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک شرط پر ادا کریں گے کہ پہلے انہیں پانچ لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے پر سبسڈی دی جائے۔ پہلی قسط پچاس کروڑ روپے پر طے ہوئی۔ اس سے پہلے وہ چوبیس ارب روپے کی چینی پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن کوبیچ چکے تھے لیکن پھر بھی کسانوں کے لیے دو ارب روپے ان کے پاس نہیں تھے۔ اب کون ان ملوں کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ ان ملوں کے مالکان میں حکمران اور اپوزیشن جماعت دونوں کے لیڈر شامل ہیں۔ جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ سیاستدانوں کے ساتھ 2008ء کے الیکشن تک کچھ رومانس باقی تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ختم ہوگیا ۔ اب تو ان سے خبر ڈھونڈنے کے لیے بھی ملنے کو جی نہیں چاہتا ۔ خبر تلاش کرنے کے کچھ اور طریقے ڈھونڈ لیے ہیں جو ہو سکتا ہے مشکل ہوں لیکن وہ سیاستدانوں سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے سے بہتر ہیں۔ یاد پڑتا ہے سابق صدر آصف زرداری کے ایک قریبی دوست نے 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد مجھ سے مشورہ مانگا کہ کہاں سے شروع کریں تو میں نے کہا تھا کہ پہلے پچھلی حکومت کا آڈٹ کرائیں اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے حوالے کر دیں تاکہ لوگوں کو لگے کہ نئی حکومت احتساب کرنا چاہتی ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ دوست ملا تو بولا صدر زرداری فرماتے ہیں کہ وہ سیاسی صلح کی پالیسی پر چلنا چاہتے ہیں اور احتساب ٹائپ چیزیں ان کی ترجیح میں شامل نہیں۔ پھر چل سو چل۔ کسی دن وہ کہانی لکھوں گا کہ چین کے ساتھ بارہ ارب روپے کے ریلوے انجن کے سکینڈل میں غلام احمد بلور کا کیا ہاتھ تھا اور اب کیسے نئے ریلوے وزیر سعد رفیق نے اپنے سابق وزیر کو کابینہ کے نام بھیجی گئی سمری میں بیل آئوٹ کیا ہے۔ اسی طرح وزیرداخلہ نثار علی خان اپوزیشن میں تھے تو ہر دوسرے دن رحمن ملک پر چڑھائی کیے رکھتے تھے۔ اب ان کے جاری کیے ہوئے دو ہزار سرکاری پاسپورٹس‘ جو غلط لوگوں کو جاری کیے گئے تھے‘ کو کینسل تو کر دیا ہے لیکن وہ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے کہ اتنی بڑی تعداد میں بھلا کیسے سرکاری پاسپورٹ ان لوگوں کو جاری ہوئے جن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک بڑے سرکاری افسر نے تو اپنی برطانوی بہو تک کو حکومت پاکستان کا سرکاری پاسپورٹ لے کر دیا تھا۔ چوہدری نثار نے رحمن ملک کے دورِ وزارت کے ہر سکینڈل کو دبا دیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور سعد رفیق کی طرف سے رحمن ملک اور حاجی غلام احمد بلور کے ادوار کے اربوں روپوں کے مالی سکینڈلز کو دبانے کی کامیاب کوششوں کے بعد کم از کم یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے کہ اس ملک سے کرپشن کیوں ختم نہیں ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کور اَپ کسے کہتے ہیں!