کچھ عرصہ قبل جب مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ پاکستان میں کیا چیزیں بہترین ہورہی ہیں تو فوری طور پر میرے ذہن میں چند باتیں آتی تھیں۔ میں ان اچھی باتوں کی بنیاد پر بڑے دھڑلے سے خود کو خوش اور پُرامید رکھنے کی کوشش کرتا تھا‘ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہوگیا تھا‘ کیونکہ جن چیزوں کو میںاس معاشرے کے لیے بہتر سمجھتا تھا اب لگتا ہے کہ ان ایجادات نے دنیا بھر میں تو شاید کچھ اثرات دکھائے ہوں لیکن ہمارے ہاں یہ نسخۂ کیمیا بھی ناکام ہوا جاتا ہے۔ میرے خیال میں کیبل ٹی وی، موبائل فون اور سوشل میڈیا سے امید کی جا سکتی ہے کہ شاید ہمیں ان مسائل سے نکال سکیں جن میں ہم اس وقت گھرے ہوئے ہیں۔ ان تمام ایجادات کے حق میں میرے پاس اس وقت بھی دلائل تھے اور اب بھی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ساٹھ برس تک دیہات میں رہنے والوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا تھاکہ شہروں میں کیا ہورہا ہے۔ کون آرہا ہے اور کون جارہا ہے۔ انہیں کون لوٹ رہا ہے اور ان کی کمائی کس کی جیب میں جارہی ہے۔ انہیں ہر آمر نے خاموش اکثریت کا نام دے رکھا تھا۔ دیہات میں اخبار پڑھنا تو دور کی بات‘ ریڈیو بھی مشکل سے سنا جاتا تھا۔ دنیا بدلی تو کیبل ٹی وی دیہات تک پھیل گیا اور اب کسی سیاستدان یا طبقے کے لیے ان لوگوں کی سادگی سے فائدہ اٹھانا اتنا آسان نہیں رہا۔ کیبل ٹی وی نے شہری اور دیہاتی علاقوں میں پائے جانے والے فرق کو کافی حد تک کم کردیا ہے۔ اب کوئی دیہاتی شہر میں سر موڑ کر کسی اونچی بلڈنگ کو نہیں دیکھتا کیونکہ وہ یہ سب کچھ اپنے گھر پر بیٹھ کر دیکھ چکا ہوتا ہے۔ اسے شہر کی روشنیوں کا بھی علم ہے‘ چنانچہ اب اسے کوئی طعنہ نہیں دیتا کہ پینڈو بتیاں دیکھنے شہر آیا ہے۔ کیبل ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں کی وجہ سے اب دیہات میں بچوں کے نام تک بدل گئے ہیں۔ کچھ برسوں میں ہی سب کچھ بدل گیا ہے۔ دوسری بڑی ٹیکنالوجی موبائل فون ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے ہی موبائل فون نے وہ ترقی کی ہے کہ اب شاید ہی کسی گھر میں پی ٹی سی ایل فون کا استعمال ہوتا ہو۔ بعض لوگوں نے پرانے فون نشانی کے طور پر رکھے ہوئے ہیں وگرنہ اب تو گھر کے ہر فرد کے پاس اپنا موبائل ہے۔ جس سے دنیا سمٹ کر ہاتھ میں آگئی ہے۔ تیسری بڑی ایجاد سوشل میڈیا کو سمجھا جاتا ہے جس نے قومی میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حتیٰ کہ اینکرز اور صحافی بھی سوشل میڈیا کے فیڈ بیک کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو ایکٹو کیا تو حیران ہوا کہ ہمارا کیا حال ہوچکا ہے۔ نقطہ نظر کے اختلاف کو فطری عمل سمجھا جائے یا یہ کہ ہمیں سکھایا ہی نہیں گیا ایک دوسرے سے بحث کیسے کرنی ہے۔ گھر‘ سکول، کالج، یونیورسٹی کہیں بھی بحث کے حوالے سے تربیت نہیں کی گئی۔ کمنٹس میں جب تک دوسرے پر طنز یا گالی نہ اُچھالی جائے‘ اسے کسی لائق ہی نہیں سمجھا جاتا۔ پڑھی لکھی کلاس بھی ہر بات میں سازش تلاش کرتی رہتی ہے۔ جوانوں سے کچھ امیدیں تھیں‘ مگر ان کے پاس بھی کسی بات کا جواز نہ ہو تو جھٹ گالی پر اتر آتے ہیں یا سازش تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ لیڈروں کے خلاف بات کی جائے تو گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ لیڈر بھی عام انسان ہوتا ہے اور اس سے بھی ہم سب کی طرح غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ اگر اسے اس درجہ پر فائز کر دیا جائے جہاں اس پر کسی قسم کی تنقید نہیں ہوسکتی یا تو پھر یہ پیر پرستی ہی کا نیا انداز ہے۔ میرے جیسے دیہاتی اگر پیروں کی ’’پوجا‘‘ کرتے ہیں تو شہروں کے تعلیم یافتہ نوجوان بھی لیڈروں کے پجاری بن گئے ہیں۔ میں بھی اپنے پیر کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیںاور یہ نوجوان بھی اپنے لیڈر کے خلاف بات کرنے والے کو غدار یا بکائو سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس کے خیالات سے ہٹ کر بات کریں یہی کہے گا ’بِک گئے ہو‘۔ یہ ہے وہ نئی نسل جس سے توقع کی جاتی ہے کہ معاشرے میں تبدیلی لائے گی۔ تاہم اس نسل کا بھی کیا قصور‘ ہم نے انہیں جو کچھ سکھایا وہی کچھ سامنے آ رہا ہے۔ بہرحال سب ایسے نہیں ہیں‘ بہت سے نوجوانوں کے کمنٹس اور سوچ سے تو میں بھی سیکھتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں۔ سوات کی بچی ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے جتنی نفرت پڑھے لکھے طبقے میں پائی جاتی ہے شاید کہیں اور نہ ہو۔ ان کے پاس ملالہ کے خلاف ہزاروں جواز موجود ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک نئی سازش اور نئی تھیوری ۔ دنیا اگر ہمیں دہشت گردی کے ’’اعلیٰ‘‘ درجے پر فائز کرے تو بھی بری، اور اگر ہماری کسی بہادر بچی کو سلام کرے تو بھی سازش۔ ہمیں ہر وقت یہی خطرہ لگا رہتا ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ وہی مغرب جس نے ٹوئٹر، فیس بک ، موبائل فون، انٹرنیٹ اور یو ٹیوب ایجاد کر کے ہمارے ہاتھ میں تھما دیے کہ ایک دن کے لیے بند ہو جائیں تو ہماری جان پہ بن جاتی ہے‘ ہمارے نزدیک وہی مغرب ہمارے خلاف ہر دم سازشیں کرتا رہتا ہے۔ حیران ہوتا ہوں کہ کیا دنیا کو اس ملک کے خلاف سازشیں کرنے کی ضرورت ہے؟ جہاں اٹھارہ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی، جس کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہو‘ تیزی سے بڑھ رہی ہو اور کسی نے اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہو، جہاں پچھلے پندرہ سالوں سے یہ سوچ کر کوئی مردم شماری کرانے کو تیار نہ ہو کہ اس کی امیدوں پر پانی نہ پھر جائے‘ جو آئی ایم ایف سے تازہ تازہ سات ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر آیا ہو، جس کے ہاں بڑوں کی تبدیلی دنوں تک ٹی وی شوز کا موضوع بنی رہے‘ جس میں چالیس ہزار لوگ مارے جانے کے بعدبھی بحث ہورہی ہو کہ یہ جنگ امریکہ کی ہے یا ہماری‘ جہاں قاتلوں کے حق میں بھی دلیلوں کے انبارہوں، جہاں تخت سے اترتے ہی نیب کی ہتھکڑیاں تیار ہوں، جہاں تین سالہ بچی تک کو ریپ کیا جاتا ہو… اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ کیا ایسے ملک کے خلاف دنیا کو سازش کر نے کے لیے ملالہ کو نوبل پیس پرائز دینے کی ضرورت ہے ؟